خوشحال عوام اور ریٹنگ کا چکر

417

وزیراعظم پاکستان نے خوش خبری دی ہے کہ عوام خوشحال ہوگئے ہیں۔ تبدیلی میں دیر لگتی ہے۔ ہمیں بھی یقین ہے کہ وزیراعظم درست ہی کہہ رہے ہیں۔ وزیراعظم کے بیان کو مصرعہ طرح سمجھا جائے تو بات سمجھ میں آجاتی ہے کیوں کہ پھر وزرا کی قوالی شروع ہوتی ہے اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات جناب فواد چودھری نے زبردست بات کردی۔ کہتے ہیں کہ ریٹنگ کے چکر میں حکومت پر تنقید کی جاتی ہے۔ ہم سنجیدہ نہیں لیتے۔ فواد چودھری صاحب نے بجا کہا کہ ہم سنجیدہ نہیں لیتے۔ ان کے اور پوری حکومت کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ یہ لوگ ملک کے نظم و نسق کو بھی سنجیدہ نہیں لیتے۔ نعرے بازی، بڑھک اور لمبے لمبے دعوئوں کا سلسلہ جاری ہے۔ فواد چودھری نے درست کہا کہ اپوزیشن محض ریٹنگ کے چکر میں حکومت پر تنقید کرتی ہے۔ اپوزیشن کی پوری قیادت کی ریٹنگ کے چکر میں تنقید ایک طرف اور حکومت میں اکیلے عمران خان کی ریٹنگ کے چکر میں کی جانے والی باتیں ایک طرف ہیں، وہی بھاری بھی ہیں۔ اپوزیشن کہتی ہے کہ حکومت نااہل ہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ یہ لوگ فوج سے کہہ رہے ہیں کہ میری حکومت گرادو۔ اس جملے کے ساتھ ہی حکومت کی ریٹنگ بڑھ گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کہتی ہے کہ حکومت نے معیشت تباہ کردی، لیکن عمران خان کہتے ہیں کہ عوام خوشحال ہوگئے۔ اور خوشحالی کے پیمانے ان کے پاس بھی وہی ہیں جو جنرل پرویز کے پاس تھے کہ لوگوں کے پاس موبائل ہیں۔ فٹ پاتھ پر کوئی نہیں سوتا۔ عمران خان بھی یہی فرما رہے ہیں کہ گاڑیاں زیادہ فروخت ہورہی ہیں۔ وزیراعظم کی بات پر یقین کرلینا چاہیے ان کے ماہرین معیشت کو پوری خبر اس طرح دینی چاہیے کہ نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے ادوار کے مقابلے میں عوام بہت زیادہ خوشحال ہیں۔
عوام کی خوشحالی کا عمرانی فارمولا کچھ یوں ہے۔ پاکستان کے بدحال عوام نواز شریف دور میں صرف 64 روپے لیٹر کا پٹرول خرید سکتے تھے۔ عمران خان کی حکومت نے انہیں اتنا خوشحال کردیا کہ اب وہ 120 روپے فی لٹر کا پٹرول خرید رہے ہیں۔ نواز شریف دور میں ڈالر 62 روپے اور 64 روپے کے درمیان تھا پیپلز پارٹی نے عوام کو خوشحال کردیا اور ڈالر 108 روپے تک پہنچا دیا۔ اس کے دور میں پاکستانی اتنے خوشحال تھے کہ 62 روپے والا ڈالر 108 روپے میں خرید رہے تھے۔ لیکن عمران خان کو ان پر ترس آیا کہ بس اتنی ہی رقم میں ایک ڈالر مل جاتا ہے۔ چناں چہ انہوں نے ایک جھٹکا دیا اور ’’تبدیلی آنہیں رہی بلکہ آگئی ہے‘‘ کا نعرہ لگایا۔ ڈالر 180 روپے تک پہنچا پھر 164 سے 166، 169 کے درمیان ڈولتا رہتا ہے۔ چناں چہ اب عوام اتنے خوشحال ہیں کہ 64 روپے والا ڈالر 164 میں لے رہے ہیں۔ عوام کے ہر طبقے کو تو ڈالر نہیں چاہیے ہوتے لیکن چینی، دودھ، انڈے، ڈبل روٹی، خوردنی تیل، آٹا، دالیں چاول وغیرہ تو ہر آدمی کو درکار ہوتا ہے اور یہی دراصل عوام ہیں۔ چناں چہ عمرانی حکومت نے ملک کی عظیم اکثریت کو اس قدر خوشحال کردیا ہے کہ لوگ 60 روپے کلو والی چینی 110 روپے میں لے رہے ہیں۔ آٹا بھی زیادہ قیمت دے کر خرید رہے ہیں۔ دالیں، خوردنی تیل، دودھ کون سی چیز ہے جس کی قیمت تین سال قبل کی قیمت سے دوگنا زیادہ نہیں اور عوام یہ سب خرید رہے ہیں۔ یعنی عوام اتنے خوشحال ہیں کہ وہ یہ سب کچھ خرید سکتے ہیں۔ سی این جی کا ذکر نہ کریں تو اچھا ہے۔ جس سی این جی کو چیف جسٹس افتخار چودھری نے 87 روپے سے 44 روپے پر پہنچایا تھا وہ اب 148 روپے فی کلو ہے۔ عوام خوشحال ہیں تو سی این جی خرید رہے ہیں۔ دیکھیں لوگ موبائل بھی خرید رہے ہیں اور گاڑیاں بھی فروخت ہورہی ہیں۔ اور ہمارے ماہرین اعداد وشمار کا کہنا ہے کہ مہنگائی 27 فی صد اور آمدنی 37 فی صد بڑھی ہے۔ لیکن وہ یہ بتا نہیں پائے کہ کس کی آمدنی اتنی بڑھی ہے۔ مہنگائی کے اعداد وشمار تو سرکاری ہوتے ہیں حقیقی مہنگائی تو اس سے بھی کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ سرکار کو آمدنی کی خبر ہے نہ مہنگائی کی۔
یہ تو ہے عوام کی خوشحالی، جہاں تک ریٹنگ منسٹر فواد چودھری صاحب کا کہنا ہے کہ ریٹنگ کے چکر میں حکومت پر تنقید کی جاتی ہے اور یہ کہہ کر وہ حکومت کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے کوئی بھی دعویٰ کردیتے ہیں۔ ویسے دعوے کے ماہر تو عمران خان خود ہیں۔ اسے عرف عام میں بڑھک کہا جاتا ہے۔ اور ریٹنگ بڑھانے کے لیے اونچی بڑھک ہی ماری جاتی ہے۔ یہ کھیل ہمیشہ سے کھیلا جارہا ہے۔ پاکستان میں جوں جوں میڈیا ترقی کررہا ہے بڑھک کے طریقے اور انداز بدل رہے ہیں۔ کبھی خود بڑھک مارنی پڑتی تھی اب دوسرے آپ کی آواز میں اپنی آواز ملا کر بڑھک مارتے ہیں، اسی کو خود ریٹنگ کہتے ہیں اور بہت اچھی حکمرانی کہتے ہیں۔ اب جو اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ عوام خوشحال ہیں، وہ ملک دشمن ہے، غدار ہے، پاکستان کے عوام کا دشمن ہے، اسے ملک کی ترقی عزیز نہیں۔ اور اگر زیادہ بولے تو کہتے ہیں کہ یہ سی پیک کے خلاف ہے۔ ارے یہ سی پیک کیسے آگیا۔ بالکل اس طرح آگیا کہ آپ چینی کی قیمت میں اضافہ پر تنقید اور احتجاج کیوں کررہے ہیں۔ جب کہ آپ جانتے ہیں کہ پاک چین دوستی ہمالیہ سے بلند ہے تو چینی کی قیمت بھی بلند ہونی چاہیے۔ اس کی قیمت کم کرکے گویا آپ پاک چین دوستی اور دوسرے لفظوں میں سی پیک کے خلاف پروپیگنڈا کررہے ہیں۔ اور سی پیک وہ توتا ہے جس کے اندر پاکستانی معیشت کی جان ہے۔ سی پیک کی ریٹنگ فی الحال تو چل ہی رہی ہے اور سی پیک کی نگرانی کرنے والے کی دولت کی ریٹنگ بھی سب کے سامنے آچکی لیکن ایک بات کا خیال رہے… شیش… عوام خوشحال ہوگئے ہیں۔ کوئی ریٹنگ کے چکر میں تنقید نہ کرے۔