مہنگائی پر روایتی حربے

256

روایتی حکمرانوں نے اپنی روایتی نااہلی پر روایتی نوٹس لیتے ہوئے مہنگائی پر اجلاس بلالیا۔ وزیراعظم عمران خان نے سرکاری افسروں کے روایتی حربوں پر برہمی کا اظہار کیا اور انہیں مہنگائی کنٹرول کرنے کی ہدایت کی۔ وزیراعظم نے حکم دیا کہ منڈی اور پرچون نرخوں میں بھی غیر منطقی فرق کو ختم کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔ وزیراعظم نے وہی روایتی جملہ ادا کیا کہ عام آدمی متاثر ہوتے ہیں، چند افسران کے خلاف کارروائی ناکافی ہے۔ اس خبر سے عوام کا ڈھیروں خون بڑھ گیا۔ لوگ اکثر اخبارات میں دیکھتے ہوں گے کہ وزیراعظم، وزیراعلیٰ یا سرکار نے کسی چیز کا نوٹس لے لیا۔ گزشتہ دنوں مواچھ گوٹھ میں دھماکے کا نوٹس وزیر داخلہ شیخ رشید نے بھی لیا اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بھی لیا اور مجرموں کے قریب بھی پہنچ گئے پھر اچانک مجرم اتنے دور ہوگئے کہ حکومت کو مجرموں کی گرفتاری کے لیے انعام بھی دینا پڑا۔ مجرم پکڑے جائیں یا کسی اور پر یہ جرم ڈال کر حکومت کامیابی کے دعوے کرے اور انعامی رقم افسروں میں تقسیم کردی جائے لیکن روایتی اعلان نوٹس لے لیا ضرور کہا جاتا ہے۔ چناں چہ وزیراعظم صاحب نے بھی پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کا نوٹس لے لیا اور روایتی اجلاس طلب کرلیا، لیکن پوری خبر میں کسی نامعلوم قوت کے خلاف کارروائی اور اقدامات کی بات ہورہی تھی، جب کہ مہنگائی ان افسران نے نہیں کی جو روایتی حربے اختیار کرتے ہیں۔ ملک میں مہنگائی کے موٹے موٹے اسباب ہیں اور جتنے بھی اسباب ہیں ان سب کی ذمے دار حکومت ہے۔ کیا وزیراعظم کو معلوم نہیں کہ ڈالر 108 روپے سے 170 روپے تک کوئی اور افسر نہیں ان کے اپنے اسٹیٹ بینک اور معاشی ٹیم نے پہنچایا۔ سستا پٹرول لے کر عوام کو مہنگا بیچنے والے بھی افسران نہیں حکومت ہے۔ حکومت ہی کے فیصلوں سے منڈی سے پرچون تک اشیا کی قیمتوں میں تفاوت ہے اور نتیجہ عوام بھگت رہے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی وزیراعظم کو معلوم ہونی چاہیے بلکہ وہ کہہ بھی چکے ہیں کہ چینی مافیا، آٹا مافیا اور پٹرول مافیا کو جانتے ہیں ان کو چھوڑیں گے نہیں۔ لہٰذا جب ان کا سامنا ہوا تو وزیراعظم کو اس کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آیا کہ پٹرول مافیا، چینی مافیا اور آٹا مافیا کے سامنے ہتھیار ڈال دیں اور اپنی بات پر بھی قائم رہے۔ یعنی مافیا کو نہیں چھوڑوں گا۔ انہوں نے مافیا کو نہیں چھوڑا کیونکہ اگر ان میں سے کسی مافیا کو بھی چھیڑتے تو یہ انہیں چھوڑ کر دوسرے گروپ میں جا بیٹھتے اور وزیراعظم اپوزیشن میں بیٹھتے۔ لہٰذا وزیراعظم نے روایتی حربہ اختیار کیا اور مہنگائی پر اجلاس کرایا۔ وزیراعظم، ان کے وزرا اور حکام یہ جانتے ہیں کہ اجلاس پر اجلاس کرلیں مہنگائی کم نہیں ہوگی۔ بلکہ مہنگائی سے نجات کا واحد ذریعہ حکومتی اقدامات ہیں۔ حکومت اپنے اقدامات پر نظرثانی کرے، تاجروں، صنعتکاروں کو بلاوجہ تنگ نہ کرے۔ پانی، بجلی اور گیس کی بروقت اور وافر فراہمی یقینی بنائے تا کہ صنعتوں کا پہیہ چلتا رہے۔ لیکن ایسا تو بالکل نہیں ہورہا۔ جس طرح مواچھ گوٹھ کے معاملے پر سرکار نے نوٹس لیا تھا اور بہت سارے دوسرے امور میں حکومت نوٹس لے لیتی ہے اور کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھاتی۔ اسی طرح وزیراعظم نے مہنگائی پر بھی نوٹس لے کر روایتی اجلاس کرلیا۔ وزیراعظم نے بہت سی باتیں کی ہیں انہیں غریب آدمی کی بھی فکر ہے لیکن اپنی معاشی ٹیم کو غلط اقدامات سے روکنے کی ہمت نہیں ہے۔ جب تک آئی ایم ایف اور قرضوں کی معیشت سے نہیں نکلیں گے غیر ملکی اداروں کی ڈکٹیشن لینا بند نہیں کریں گے اس وقت تک ان اداروں کی بات مان کر ملک کا مزید بیڑا غرق ہوجائے گا۔وزیراعظم عمران خان حکومت میں آنے سے قبل ملک میں دو قوانین کا ذکر کرتے تھے اور کہتے تھے کہ طبقاتی نظام ہے غریب کے لیے الگ قانون ہے اور امیر کے لیے الگ۔ لیکن حکومت میں آنے کے بعد وہ اسی طبقاتی نظام کا حصہ بن گئے اور اسے مزید مضبوط کر دیا۔ پھر کسان کی اہمیت کس کو معلوم ہوگی۔ منڈی اور پرچون کے نرخوں میں غیر منطقی فرق تو آئے گا جب آڑھتی اور درمیان کے لوگ بھاری منافع حاصل کر لیں گے۔ بڑے زمیندار اور مالدار لوگ پوری پوری فصل سال بھر پہلے خرید لیتے ہیں اور اپنی مرضی سے منڈی کے نرخ اونچے نیچے کرتے ہیں۔ وزیراعظم اس مافیا سے بھی اچھی طرح واقف ہیں۔ الغرض روایتی حربے اختیار نہ کیے جائیں۔ محض اخبارات اور میڈیا میں خبر کی زینت بننے کے بجائے کوئی کام کریں جو کام کر سکتے ہیں وہ تو کریں۔ پاکستان زرعی ملک ہے تو یہاں کسانوں کو سہولتیں دیں۔ کھاد اچھی فراہم کریں۔ بیج اچھے دیں۔ زمینوں کی دیکھ بھال سرکار کرے۔ پانی کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ زرعی فصلیں اچھی ہوں گی تو آٹا، دال، چاول، چینی، سبزی، پھل وغیرہ کے نرخ خودبخود نیچے آئیں گے۔ کیوں چینی اور گندم درآمد کی جائے۔ زرمبادلہ بچائیں۔ حکومت پھل برآمد کرے۔ اچھے اور زیادہ چاول پیدا کرے اور چینی کی پیداوار میں اضافہ کرکے بھی زرمبادلہ بچایا جائے۔ لیکن یہ سب کچھ کرنے کے لیے شریف خاندان، زرداری اور اپوزیشن کا دوستانہ پیچھا چھوڑ کر مسائل کے حل کے لیے ان کا پیچھا کریں تب ہی مہنگائی کم ہوگی۔ اب یہ مہنگائی قیمتوں کے اعتبار سے کم نہیں ہوگی۔ بلکہ اب حکومت کو عوام کی آمدنی اور قوت خرید میں اضافہ کرنا ہوگا۔ عوام کی قوت خرید میں اضافہ ہو گا تو زیادہ قیمت ادا کرنا آسان ہوگا۔ قوت خرید اور قیمتوں کے اس فرق کو مہنگائی کہتے ہیں۔