پھر باریوں کے کھیل کی تیاری

257

پاکستان میں طویل عرصے سے چوہے بلی یا میوزیکل چیئر کا کھیل جاری ہے۔ جسے باریوں کا کھیل بھی کہا جاتا ہے۔ کبھی پیپلز پارتی، کبھی مسلم لیگ کبھی ن اور کبھی ق لیگ یا پھر فوجی جنتا کی باری آجاتی ہے۔ ایک مرتبہ پھر باری کا کھیل کھیلنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگیوں نے ملک کو تباہ کیا۔ معاشی طور پر آئی ایم ایف اور عالمی بینک کا غلام بنا دیا۔ عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیس کر رکھ دیا جب لوگ ان دونوں پارٹیوں سے مایوس ہو گئے تو پی ٹی آئی پیدا کی گئی اور ان دونوں پارٹیوں کو چور اور کرپشن کرپشن کا ذمے دار قرار دیا گیا اور پھر وہی کھیل شروع کیا گیا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگیوں کے لوگ توڑ توڑ کر پی ٹی آئی میں لائے گئے پھر حکومت بنائی گئی اور جن لوگوں نے عمران خان کے دعوے کے مطابق کرپشن کی تھی ان ہی کو پی ٹی آئی میں شامل کرکے وزیر بنایا گیا اور اب یہ اعلانات کیے جا رہے ہیں کہ عوام خوشحال ہیں، ترقی ہو رہی ہے۔ یہی راگ پچھلی حکومتیں بھی الاپتی رہتی تھیں۔ اب ایک بار پھر ایسا لگ رہا ہے کہ باریوں کا وہی پرانا کھیل شروع ہونے والا ہے۔ ایک طرف پی ڈی ایم متحرک ہو رہی ہے۔ اس کیجانب سے اجلاس، تحریک، استعفوں اور جلسوں کے اعلانات ہو رہے ہیں۔ میڈیا میں پی ڈی ایم کی کوریج بڑھ رہی ہے ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ حکومت جانے والی ہے۔ لہٰذا پی ڈی ایم متبادل کے طور پر آگے بڑھ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں کے اشارے ہیں کہ ان کی سیٹنگ ہو رہی ہے۔ یعنی پھر باریوں کا کھیل اور اس کا جواب بھی آچکا ہے کہ اگلی بازی، فیر نیازی! باریوں کے نئے کھیل کو پھر شروع کرنے کا سبب یہ ہے کہ عوام اب پی ٹی آئی کے سحر سے بھی نکل رہے ہیں۔ بلکہ مایوس ہو رہے ہیں۔ ایک کروڑ نوکریاں، 50 لاکھ گھر، غیر ملکیوں کی پاکستان کے ویزے کے لیے لائنیں لگیں گی اور ملک چمکتا دمکتا نظر آئے گا لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔آئی ایم ایف جانے کو خودکشی کہا تھا لیکن آتے ہی خودکشی کر لی۔ اس کے نتیجے میں عوام کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ چنانچہ اب باریاں لگانے والے پھر وہی کھیل کھیلنا چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی سے ٹوٹ کر لوگ کسی اور پارٹی میں جائیں اور جو پارٹی باریاں لگانے والوں کی شرائط مان لے تو پھر اسے اگلی باری دے دی جائے گی۔ پاکستانی عوام جب تک باریوں کے اس چکر کو تسلیم کرتے رہیں گے ان کے ساتھ دھوکے بازی ہوتی رہے گی۔ پاکستانی عوام کو اس چکر کو توڑنا ہوگا انہیں جب بھی موقع ملے ان تمام مسترد لوگوں کو مسترد کرنا ہوگا۔ یہ بات صرف میڈیا کی وجہ سے چھپا دی جاتی ہے کہ پاکستان کی تباہی کے ذمے دار یہی لوگ ہیں بلکہ میڈیا کو اس کام کے لیے خطیر رقوم بھی ملتی ہیں اور باقاعدہ ذمے داری بھی دی جاتی ہے۔ وہ فضا بناتے ہیں اور عوام ملک کو تباہ کرنے کے ذمے دار لوگوں ہی کو نجات دہندہ سمجھنے لگتے ہیں۔ حالانکہ یہ کھلی حقیقت سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ یہی لوگ ہر حکومت میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ باریاں لگانے کا کھیل کھیلنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ ملک تباہی کی طرف جا رہا ہے۔ ملک رہے گا تو یہ لوگ خود بھی ہوں گے اور خدانخواستہ ملک نہ رہا تو وہ خود سوچیں وہ کہاں کھڑے ہوں گے۔ باریوں کے کھیل نے پاکستان کے سیاسی ڈھانچے، انتظامی اداروں، سیکورٹی اور معاشی اداروں کو تباہ کر ڈالا ہے۔ ملک کے اداروں، عدلیہ، پارلیمان اور فوج کو ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کر دیا جاتا ہے۔ یہ اتنے سفاک ہوتے ہیں کہ اپنے مفاد کی خاطر ملک کا مفاد بھی قربان کر ڈالتے ہیں۔ ابھی چند روز قبل وزیراعظم عمران خان نے اپنا یہ الزام دہرایا ہے کہ اپوزیشن فوج کو میری حکومت کا تختہ الٹنے پر اکسا رہی ہے۔ وہ یہ الزام کھل کر بھی نہیں لگاتے کہ کس نے کس سے رابطہ کیا ہے اور وہ کون ہے جو فوج سے رابطہ کر رہا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ فوج ہی سے رابطہ کیوں کیا جاتا ہے اسے حکومت گرانے کے لیے کیوں کہا جاتا ہے۔ عام طور پر فوج حکومت گرا چکی ہوتی ہے پھر پتا چلتا ہے کہ کس کس نے رابطہ کیا تھا۔ کیونکہ وہی لوگ اگلی حکومت میں آجاتے ہیں۔ جب سے عمران خان اقتدار میں آئے ہیں فوج مستقل موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ کبھی حکومت کہتی ہے کہ فوج ہماری پشت پر ہے۔ کبھی اپوزیشن یہی الزام اس طرح دہراتی ہے کہ فوج نااہل حکومت کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ فوج نے صرف ایک مرتبہ کھل کر حکومت کی حمایت کی تھی لیکن اسکے بعد سے اُدھر سے کوئی بات سامنے نہیں آئی۔ صرف حکومت اور اپوزیشن فوج کا نام لے لے کر ایک دوسرے کو ڈراتے رہتے ہیں۔ یہ دونوں ہی کے لیے اور ملک کے لیے نہایت نقسان دہ ہے کہ فوج کو حکومت گرانے یا بنانے والا ادارہ بنا کر رکھ دیا جائے۔ دوسری طرف عدلیہ میں بھی دراڑیں ڈالی جا رہی ہیں۔پارلیمنٹ اور سیاستدان ہر لحاظ سے بربادی کی انتہا سے گزر چکے ہیں۔ لے دے کر فوج اور عدلیہ پر بھروساتھا جو یہ ادارے خود توڑ رہے ہیں۔ اور اس سب کا سبب باریوں کا کھیل ہے۔کبھی یہ نعرہ بھی لگنا چاہیے کہ اگلی باری عوام کی باری۔