آزادی کی قیمت

855

آج سے پچاس سال پہلے سابقہ مشرقی پاکستان میں ہمارے قریبی رشتہ دار رہتے تھے۔ جو بابری مسجد ایودھیا فیض آباد لکھنو سے پاکستان بننے کے بعد پہلی ہجرت کرکے آئے تھے۔ اور نارائن گنج میں آباد ہوئے۔ ان میں ہماری ماموں زاد بہن بھی اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ رہائش پزیر تھیں۔ الحمدللہ زندگی آسودگی کے ساتھ جاری تھے کہ 1970 میں الیکشن ہوئے۔ نتائج حکمران اشرافیہ کی توقع کے برعکس آئے۔ لہٰذا جو ہوتا آیا تھا وہی ہوا۔ اقتدار حق داروں کو نہ دیا گیا۔ اور پڑوسی دشمن بھارت نے حسب معمول اس کا فائدہ اٹھایا۔ اور اپنی فوجیں اتار دیں۔ نتیجتاً ملک ٹوٹ گیا۔
مگر اس کے بعد جو قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوا تو محب وطن پاکستانیوں جنہیں عام طور پر بہاری کہا جاتا ہے۔ ان بے چاروں پر قیامت گزر گئی۔ فوج تو ہتھیار ڈال کر جینوا کنونشن کے تحت جنگی قیدی بن کر کسی حد تک محفوظ ہوگئی۔ مگر بہاری مکتی باہنی کے رحم وکرم پر آگئے۔ ایسی ہزاروں قیامت خیز داستانیں آپ نے سنی ہوں گی۔ آج ہم بھی اپنی بہن اور ان کے خاندان پر گزر نے والی داستان غم سناتے ہیں۔ تاکہ یوم آزادی منانے والی نئی نسل کو پتا چلے کہ آزادی کو حاصل کرنے اور اس کی حفاظت کرنے کی کتنی بھاری قیمت دینی پڑتی ہے۔
ہوا یوں کہ ہمارے بہنوئی اپنے کام کے علاوہ اپنے محلے کی مسجد میں اذان دینے کا فریضہ بھی ادا کرتے تھے۔ ان کی مسجد دریا کے کنارے واقع تھی۔ اور اس کا ایک دروازہ دریا کی طرف بھی کھلتا تھا۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ مشرقی پاکستان دریائوں کی سر زمین تھی۔ اتنے خراب حالات کے باوجود جب ہر طرف جان کا خطرہ موجود تھا۔ ہمارے بہنوئی صاحب نے مسجد میں اذان کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہاں تک کہ حا لات انتہائی خراب ہوگئے۔ ایسے موقع پر دوسرے لوگوں نے سمجھایا کہ مسجد کو اس کے حال پر چھوڑ دیں۔ اور اذان دینے نہ جائیں۔ اور اپنی اور اپنے گھر والوں کی جان بچائیں۔ مگر وہ نہ مانے۔ کہنے لگے۔ ’’اگر میں بھی نہ گیا اور اذان بھی نہ دی تو اللہ کا گھر ویران ہوجائے گا‘‘۔
وہ چونکہ پاکستان کی بقاء کے لیے فوج کا ساتھ بھی دیتے تھے اس لیے مکتی باہنی سے دشمنی مزید بڑھ گئی تھی۔ اور مکتی باہنی نے انہیں اور ان کے گھر والوں کو بھی ہدف بنالیا تھا۔ ایک دن اذان دینے گئے تو مکتی باہنی کے ظالموں نے انہیں اغوا کرکے شہید کرڈالا اور لاش دریا میں بہادی۔ اور لاش دریا سے بہتی ہوئی سمندر میں غائب ہوگئی۔ ادھر بہن بیوہ اور چار بچے یتیم ہوگئے جن میں ایک بیٹی اور تین بیٹے شامل تھے۔ مکتی باہنی نے ان کو لاوارث دیکھ کر ان کا سارا سامان لوٹ لیا اور ان لوگوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ بڑے بیٹے کو پولیس نے مکتی باہنی کے کہنے پر حوالات میں بند کردیا جبکہ وہ دس سال کا بچہ تھا۔ اس کے بعد اس کے شہید والد کے دوست جو وکیل تھے انہوں نے دو دن کے بعد اس بچے کو رہا کروایا۔ کچھ عرصہ یہ لوگ بے یار ومددگار رہے پھر حکومت پاکستان نے بین الاقوامی معاہدے کی رو سے کچھ خاندانوں کو بنگلا دیش سے موجودہ پاکستان میں لاکر آباد کیا۔ خوش قسمتی سے یہ لوگ بھی اس قافلے میں شامل کر لیے گئے۔ اور رحیم یار خان میں کیمپوں میں رکھے گئے۔ یہ 1974 کی بات ہے۔ یہ ان کی دوسری ہجرت تھی۔
اب ہم سابقہ مشرقی پاکستان کے شہر کھلنا چلتے ہیں جہاں ایک اور درد بھری داستان جنم لے رہی تھی۔ ہوا یوں کہ ایک حکیم صاحب جو قیام پاکستان کے بعد حیدرآباد دکن سے پہلی ہجرت کرکے آئے تھے اور کھلنا مشرقی پاکستان میں رہائش اختیار کی تھی۔ 1971 میں ان پر اور ان کے اہل خانہ پر مکتی باہنی نے حملہ کردیا۔ جس کے نتیجے میں حکیم صاحب کی بیگم اور تین بچے۔ دو بیٹے اور ایک بیٹی شہید کردیے گئے۔ حکیم صاحب بھی تشدد کا نشانہ بنے اور انہیں نیم مردہ حالت میں مردہ سمجھتے ہوئے مکتی باہنی والے چھوڑ گئے۔
بہرحال جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ حکیم صاحب کا علاج ہوا اور وہ ٹھیک ہوگئے۔ انہیں بھی حکومت پاکستان رحیم یار خان کے کیمپ میں لے آئی۔ یہ حکیم صاحب کی دوسری ہجرت تھی۔ کچھ عرصے بعد کیمپ انتظامیہ اور کچھ بزرگوں نے فیصلہ کیا کہ جو خواتین بیوہ ہیں ان کا عقد ثانی ان لوگوں سے کردیا جائے جن کی بیگمات شہید ہوچکی ہیں۔ لہٰذا حکیم صاحب کی شادی ہماری بیوہ بہن سے کردی گئی۔ مقصد یہ تھا کہ اس طرح دو غمزدہ خاندان جڑ جائیں گے اور ایک دوسرے کے دکھ درد کا زیادہ احساس کریں گے۔ اور دونوں خاندان ایک دوسرے کا سہارا بن کر زندگی کی نئی شروعات کریں گے۔ یوں حکیم صاحب اور ہماری بہن نے نئی زندگی شروع کی۔ یہ 1974 کی بات ہے۔
اسی دوران حکومت نے کچھ مکانات بناکر ان مہاجرین میں تقسیم کردیے۔ حکیم صاحب کو بھی ایک مکان مل گیا۔ یوں کیمپ کی زندگی سے نکل کر اپنی چھت تلے آگئے۔ اس محلہ کا نام عزیزآباد تھا مگر ان مہاجرین کے آباد ہونے کے بعد یہ عزیزآباد بہاری کالونی کے نام سے مشہور ہوگیا۔ آج بھی کوئی رحیم یار خان جاکر پوچھے تو اسے سیدھے عزیزآباد بہاری کالونی پہنچادیا جاتا ہے۔ الحمدللہ حکیم صاحب سے بعد ازاں دو بیٹے پیدا ہوئے۔ سب بھائی بہن اس طرح شیرو شکر ہیں کہ پہنچاننا اور فرق کرنا مشکل ہے۔
حکیم صاحب بھی بہت ہی نفیس انسان تھے۔ انہوں نے کبھی بھی بہن کو شکایت کا موقع نہیں دیا۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ تقریباً بیس سال پہلے ان کا انتقال ہوگیا۔ مگر سب بچے ساتھ پلے بڑھے۔ اب الحمدللہ سب کی شادیاں ہوچکی ہیں۔ اور سب اپنے گھروں میں خوش ہیں۔ ایک بچے نے حکیم صاحب سے حکمت سیکھی وہ اب حکیم صاحب کا مطب چلارہا ہے۔ ایک بیٹا خدمت خلق میں مصروف ہے اور اپنے علاقے اور کمیونٹی کی خدمت کے ساتھ ساتھ پنچایت کے فیصلے بھی کرتا ہے۔ ایک بیٹا ملتان دوسرا حیدرآباد اور تیسرا کراچی میں رہائش پزیر ہے۔ ہماری بہن بھی عمر رسیدہ ہوچکی ہیں اور صاحب فراش ہیں۔ اللہ ان کو صحت اور ایمان کے ساتھ لمبی عمر عطا کرے۔ آمین۔ اور ان لوگوں کی دونوں ہجرتوں اور شہادتوں اور آزما ئشوں کو قبول فرمائے۔ آمین۔ اور آخرت کا اجر تو بے شک عظیم اور لازوال ہے۔