محرم الحرام

456

قمری سال(Lunar Calendar)کو سنِ ہجری یا اسلامی سال سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ اسلامی عبادات زکوٰۃ، روزہ اور حج کا تعلق قمری سال سے ہے۔ اسی طرح اگر کسی خاتون کا شوہر قمری سال کے کسی مہینے کی پہلی تاریخ کو وفات پا جائے تو چار قمری مہینے گزرنے کے بعد پانچویں قمری مہینے کی دس تاریخ پر اس کی عدّت ختم ہو جائے گی، لیکن اگر وفات مہینے کے درمیان میں ہو تو عدّت کے ایک سو تیس دن پورے کیے جائیں گے۔ خاتم النبیّٖن سیّدُنا محمد رسول اللہؐ کی بعثت سے پہلے عرب کسی اہم واقعے کی مناسبت سے اپنی تاریخ کو یاد رکھتے تھے، جیسے کافی عرصے تک ’’واقعۂ اصحابِ فیل‘‘ اس کے لیے معیار بنا رہا۔
مسلمانوں کے تاریخی حوالے کے لیے ہجری کیلنڈر کا باقاعدہ استعمال رسول اللہؐ کے دوسرے خلیفۂ راشد سیدنا عمر فاروقؓ نے کیا، سیدنا ابوموسیٰ اشعریؓ سیدنا عمر کی جانب سے یمن کے گورنرتھے، ان کے پاس سیدنا عمرؓ کے فرامین آتے تھے جن پر تاریخ درج نہیں ہوتی تھی، 17ہجری میں سیدنا ابوموسیٰ اشعری کے توجہ دلانے پر سیدنا عمر نے صحابۂ کرام کو جمع فرمایا اور مشاورت کے بعد قرار پایا کہ اسلامی کیلنڈر کی بنیاد واقعۂ ہجرت کو بنایا جائے اور اس کی ابتدا ماہِ محرّم سے کی جائے، پس ہجری تقویم کا رائج کرنا سیدنا عمر فاروقؓ کی اولیات میں سے ہے۔
یہاں ایک غلط فہمی کا زالہ ضروری ہے: اسلامی قمری سال سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ اس کے مقابل شمسی سال غیر اسلامی ہے، ہماری عبادات میں سے نماز کے اوقات، روزے کے سحرو اِفطار کے اوقات اور مناسکِ حج کے بعض اُمور بھی شمسی نظام سے متعلق ہیں: جیسے نو ذوالحجہ کو وقوفِ عرفہ کے لیے طلوعِ آفتاب کے بعد منیٰ سے عرفات کے لیے روانہ ہونا، غروبِ آفتاب کے بعد عرفات سے مزدلفہ کے لیے روانہ ہونا اور دس ذوالحجہ کو طلوعِ آفتاب سے کچھ قبل مزدلفہ سے منیٰ کے لیے روانہ ہونا، وغیرہ، یہی صورتِ حال رمی ِ جمرات کے اوقات کی ہے۔ دراصل نظامِ شمس و قمر دونوں اللہ کی تخلیق ہے، اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کے مقررہ تکوینی نظام (Cosmological System) کے تابع ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے، (1) ’’سورج اور چاند (اللہ تعالیٰ کے مقررہ) ضابطے کے پابند ہیں اور زمین پر بچھا ہوا سبزہ اور (اپنے تنے پر کھڑے) درخت (اپنی اپنی نوع کے مطابق اللہ تعالیٰ کے حضور) سجدہ ریز ہیں، (الرحمن: 5-6)‘‘، (2) ’’اور سورج اپنے مقررہ راستے پر رواں دواں ہے، یہ بہت غالب بے حد علم والے (خالق) کا بنایا ہوا نظام ہے اور چاند کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کی ہیں، یہاں تک کہ (مہینے کے آخر میں وہ) کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ہو جاتا ہے، نہ تو سورج کی مجال ہے کہ (چلتے چلتے) چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن سے پہلے آ سکتی ہے اور سب سیارے اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں، (یٰس: 38-40)‘‘، (3) ’’اور ہم نے رات اور دن کو (اپنی قدرت کی) دو نشانیاں بنایا، پھر ہم نے رات کی نشانی کو مٹایا (یعنی چاند کی روشنی کو ماند کردیا) اور دن کی نشانی کو دیکھنے کے لیے معاون بنایا تاکہ تم اپنے رب کے فضل کو حاصل کرسکو اور (گردشِ لیل ونہار سے) تم برسوں کی گنتی اور (دوسرے معاملات کا) حساب جانو اور ہم نے ہر چیز کو تفصیل سے بیان کردیا ہے، (بنی اسرائیل: 12)‘‘۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے شمسی تقویم کو بھی برسوں کی گنتی اور حساب کا معیار قرار دیا ہے، اس لیے اگر انسان اپنے دنیاوی معاملات کا نظام شمسی کیلنڈر کے حساب سے مرتّب کرے تو یہ بھی اسلام کے مطابق ہے۔
اللہ تعالیٰ کے تکوینی نظام میں ابتدائے آفرینش سے سال بارہ مہینوں پر مشتمل رہا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’بے شک اللہ کی کتابِ (تقدیر) میں، جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا، (سال بھر کے) مہینوں کی تعداد بارہ ہے، ان میں سے چار مہینے حُرمت والے ہیں،یہی دینِ مستقیم ہے، (التوبہ: 36)‘‘۔
ملتِ ابراہیمی میں چار مہینے حُرمت والے چلے آرہے تھے، ان میں جنگ و جدال کو ممنوع قرار دیا گیا تھا، اس کی تفصیل حدیث ِ پاک میں ان الفاظ میں بیان ہوئی: ’’سال بارہ مہینے کا ہے، ان میں سے چار حُرمت والے ہیں، تین تو متواتر آتے ہیں یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم الحرام اور ایک مہینہ ’’رجبِ مُضَر‘‘ ہے جو جمادی الثّانیہ اور شعبان المعظم کے درمیان واقع ہوتا ہے، (بخاری)‘‘۔
اِن حُرمت والے مہینوں میں ایک مہینہ مُحرم الحرام کا ہے، جو ابتدائے آفرینش ہی سے حُرمت والاہے، اِس ماہ کا ایک دِن جسے یومِ عاشور (دس محرم) کہا جاتا ہے، عشر سے مشتق ہے، جس کے معنیٰ ’’دس‘‘ کے ہیں، عاشور سے مراد ماہِ مُحرم کا دسواں دن ہے۔ بعض اہلِ علم کا قول یہ ہے کہ اس دن کو عاشور اِس لیے کہتے ہیں کہ اِس دن میں اللہ تعالیٰ نے دس انبیائے کرام علیہم السلام پر اپنی خصوصی نعمتوں کا نزول فرمایا، اس کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:ـ
(۱) زمین پر اترنے کے بعد سیدنا آدمؑ کی توبہ قبول ہوئی، (۲) طوفانِ نوح تھم جانے کے بعد سیدنا نوحؑ کی کشتی سلامتی کے ساتھ کوہِ جودی پر کنارے لگی، (۳) سیدنا موسیٰؑ اور اُن کی قوم کو فرعون اور فرعونیوں سے نجات ملی اور وہ سمندر میں غرق ہوئے، (۴) سیدنا عیسیٰؑ کی ولادت ہوئی اور انہیں آسمانوں پر اٹھایا گیا، (۵) سیدنا یونسؑ کو مچھلی نے صحیح سالم ساحل پر اُگل دیا اور اِسی دن اُن کی اُمّت کا قصور معاف ہوا، (۶) سیدنا یوسفؑ کو صحیح سالم کنویں سے باہر نکالا گیا، (۷) سیدنا ایوبؑ کوطویل بیماری سے صحت یابی ملی، (۸) سیدنا ادریسؑ کو آسمانوں پر اٹھالیا گیا، (۹) سیدنا ابراہیمؑ کی ولادت ہوئی اور اِسی دن اُن پر نارِ نمرود گلزار ہوئی، (۱۰) سیدنا سلیمانؑ کو ملک عطا ہوا اور سلطنت سے نوازا گیا۔ یہ روایات ہیں، حقیقت ِ حال اللہ تعالی بہتر جانتا ہے۔
امام احمد بن حسین بیہقی لکھتے ہیں:
’’سیدنا عمرؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! اللہ تعالیٰ نے ہمیں یومِ عاشور کی فضیلت دی ہے، آپؐ نے فرمایا: ہاں! اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو یومِ عاشور میں پیدا کیا اور اِسی طرح زمینوں آسمانوں، عرش، کرسی اور لوح وقلم کو اسی دن پیدا کیا، سیدنا جبریل و ملائک اور سیدنا آدم وحوا اور جنت کو اسی دن پیدا کیا اور انہیںاس میں ٹھیرایا، اسی طرح ابراہیمؑ یومِ عاشورکو پیداہوئے اور اسی دن اُنہیں نمرود کی آگ سے نجات ملی، (فضائل الاوقات)‘‘۔ الغرض سانحۂ کربلا سے پہلے بھی یومِ عاشور کو مُکرم ومُعظم مانا جاتا تھا، ایک حدیث شریف کی رُو سے قیامت بھی دس مُحرم جمعۃ المبارک کو وقوع پزیر ہو گی۔ اِس دن کے روزے کی فضیلت بھی احادیث میں آئی ہے:
(1) ’’سیدنا عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ جب مدینہ تشریف لائے تو آپؐ نے دیکھا: یہود یومِ عاشور کا روزہ رکھتے ہیں، رسول اللہ ؐ نے ان سے دریافت فرمایا: اِس دن تمہارے روزہ رکھنے کا سبب کیا ہے، انہوں نے جواب دیا: یہ ایک عظیم دن ہے، اللہ تعالیٰ نے اِس دن سیدنا موسیٰؑ اور ان کی قوم کو نجات دی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کردیا، تو سیدنا موسیٰؑ نے (اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا) شکرادا کرنے کے لیے اِس دن کا روزہ رکھا اور ہم بھی (ان کے اتباع میں) اس دن کا روزہ رکھتے ہیں، سو رسول اللہ ؐ نے فرمایا: تمہاری بہ نسبت سیدنا موسیٰؑ سے ہماری (نظریاتی) قربت زیادہ ہے اور ہم اس بات کے زیادہ حق دار ہیں (کہ ان کی قائم کردہ سنّت کو جاری رکھیں)، چنانچہ رسول اللہؐ نے خود بھی اس دن کا روزہ رکھا اور صحابۂ کرام کو بھی اس کا حکم فرمایا، (مسلم)‘‘، (2) ’’سیدنا ابن عباس بیان کرتے ہیں: جب رسول اللہ ؐ نے یومِ عاشور کا روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس کا حکم فرمایا، تو انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ! یہود ونصاریٰ اس دن کی تعظیم کرتے ہیں، آپؐ نے فرمایا: جب آئندہ سال آئے گا، تو ان شاء اللہ ہم نو ودس محرم (دودن) کا روزہ رکھیں گے (تاکہ یہود کے ساتھ مشابہت نہ رہے)، (مسلم)، (3) ’’آپؐ نے فرمایا: رمضان کے روزوں کے بعد اللہ کے حُرمت والے مہینے محرم کے روزوں کی فضیلت سب سے زیادہ ہے، (ترمذی)‘‘۔
(4)’’سیدنا علیؓ سے ایک شخص نے سوال کیا: رمضان کے روزوں کے بعد ایسا کون سا مہینہ ہے، جس کے روزے رکھنے کا آپ مجھے حکم فرماتے ہیں؟، آپ نے فرمایا: میں نے اس کے بارے میں کسی کو سوال کرتے ہوئے نہیں سنا، سوائے ایک شخص کے: اس نے رسول اللہ ؐ سے یہی سوال کیا تھا اور میں اس وقت آپؐ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اس نے عرض کیا: یارسول اللہ! ماہِ رمضان کے روزوں کے بعد ایسا کون سا مہینہ ہے، جس کے روزے رکھنے کا آپ مجھے حکم فرماتے ہیں، آپؐ نے فرمایا: اگر تم رمضان کے روزوں کے بعد( نفلی) روزے رکھنا چاہتے ہو تو محرم کے روزے رکھو، کیونکہ یہ اللہ کا مہینہ ہے، اللہ تعالیٰ نے اس میں ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی اور بعد میں آنے والوں کی توبہ بھی اس مہینے میں قبول فرمائے گا، (ترمذی)‘‘۔
(5) ’’سیدہ عائشہؓ بیان فرماتی ہیں: قریش زمانۂ جاہلیت میں یومِ عاشور کا روزہ رکھتے تھے، پھر رسول اللہؐ نے (عہدِ اسلام میں) اس کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا، یہاں تک کہ (پھر) رمضان کے روزے فرض ہوگئے، تو رسول اللہؐ نے فرمایا: (اب) جو شخص چاہے (نفل کے طور پر) یومِ عاشور کا روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے، (مسلم)‘‘۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائے اسلام میں یوم ِ عاشور کا روزہ واجب تھا، بعد میں اب اس کی حیثیت نفلی روزے کی ہے۔ لہٰذا جن احادیث ِ مبارکہ میں یومِ عاشور کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا ہے، وہ سنّت و استحباب کے درجے میں ہے۔ پھر 61ہجری میں سانحۂ کربلا محرم الحرام کا سب سے بڑا عنوان قرار پایا، اس ماہ کے شروع ہوتے ہی ہر مسلمان کے ذہن میں سیدنا حسینؓ اور اُن کے اعوان وانصارؓ کی بے مثال قربانیوں کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔