میرے ابا جان

632

آخری حصہ
ابھی عزیزآباد میں آئے چند سال ہی ہوئے تھے کہ ہمارے بہنوئی جمیل احمد جمالی (سعودآباد سے بی ڈی ممبر بھی رہ چکے تھے) جو گھارو منتقل ہوچکے تھے اور سندھ میں ان کا ایک نام و مقام تھا کو ظالموں نے ان کو شہید کر ڈالا۔ نتیجتاً ہماری بڑی بہن بیوہ ہوگئیں اور اپنے چھ معصوم بچوں کے ساتھ والد صاحب کی سرپرستی میں دوبارہ آگئیں۔
یوں والد صاحب پر ایک اور آزمائش آگئی۔ نہ صرف بیوہ بیٹی اور اس کے چھ یتیم بچوں کا خیال رکھنا تھا بلکہ مرحوم جمالی صاحب کی وراثت کو بھی سنبھالنا تھا۔ اور اسے زمانے کی دستبرد سے بچانا تھا بلکہ ان سب کی گزر اوقات کا بندوبست بھی کرنا تھا۔ خود والد صاحب کی ملازمت تو کراچی میں تھی مگر ان سب معاملات کے لیے گھارو اور ٹھٹھہ جانا آنا پڑتا تھا۔ چند جائدادوں کے لیے مقدمہ بازی بھی کرنی پڑی اور لوگوں کی دشمنی کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر یتیموں کے مال پر حرف نہ آنے دیا۔ لیکن یہ سلسلہ کب تک چلتا لہٰذا گھارو کے معاملات کو لپیٹ اور سمیٹ کر بہن اور بچوں کو کراچی منتقل کیا۔ جس کی وجہ سے دوبارہ سعودآباد میں بہن کے لیے گھر لینا پڑا۔ اس کی وجہ سے ہم لوگوں کو بھی دوبارہ سعودآباد منتقل ہونا پڑا۔ دو تین سال سعودآباد میں رہائش کے بعد بہن کا مکان فروخت کر کے اور مزید رقم ملا کر بہن کے لیے عزیز آباد میں ایک گھر لے لیا اور سب لوگ 1975 میں دوبارہ عزیزآباد منتقل ہوگئے۔ اسی دوران ایک اور آزمائش سے دوچار ہوگئے۔ ہوا یوں کہ بڑے بھائی صاحب کو گردن توڑ بخار ہوگیا اور وہ بے ہوش ہوگئے۔ بھائی صاحب بقائی اسپتال میں زیر علاج تھے۔ ہمارے والدین نے ساری ناراضی بھلا کر بھائی کے اسپتال میں ڈیرہ ڈال لیا۔ اور اسپتال میں مسلسل دعائیں کرتے رہے الحمد اللہ دس دن بعد بھائی صاحب ہوش میں آگئے۔
یہاں سعودآباد کی دوسری رہائش میں والد صاحب کو ایک اور آزمائش سے گزرنا پڑا۔ ان کی چھوٹی بیٹی کی شادی بظاہر ایک معقول شخص سے کردی گئی۔ مگر وقت اور حالات نے ثابت کیا کہ یہ شادی کامیاب ہونے والی نہیں۔ بہت سی ناگفتہ بہ باتوں سے گریز کرتے ہوئے صرف اتنا کہوں گا کہ کئی مشکلات اور تھانہ کچہری کے معاملات سے گزرتے ہوئے بالآخر یہ شادی خلع پر ختم ہوئی۔ ان ہی دنوں یہ خاکسار بھی اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن۔ جامعہ کراچی کی انجمن طلبہ کے منتخب اسپیکر اور ناظم جامعہ کراچی اور کراچی کی اسٹوڈنٹس کونسل کے لیڈر کی حیثیت سے کافی متحرک تھا۔ اور کئی طلبہ تحریکوں اور قومی تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا تھا۔ جن میں ختم نبوت کی تحریک۔ بنگلا دیش نامنظور تحریک۔ کوٹا سسٹم نا منظور تحریک۔ بنگلا دیش سے پاکستانیوں جنہیں عرف عام میں بہاری کہا جاتا تھا کی واپسی کی تحریک۔ اردو زبان کے نفاذ کی تحریک وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ جس کی وجہ سے ہمارا پورا گھرانہ خصوصاً والد صاحب بہت آزمائش سے دوچار ہوئے۔ بار بار کے چھاپے اور ہماری روپوشی ان کے لیے درد سر بن گئی۔ جب کہ ہم خود تمام گزشتہ حالات کے پیش نظر والد صاحب کے لیے امید کی آخری کرن تھے۔ ایسے میں ہمارے معاملات کی وجہ سے بھی اہل خانہ خصوصاً والد صاحب بہت پریشان تھے۔ انہی دنوں پاکستان قومی اتحاد کی تحریک بھی چل پڑی۔ جو بھٹو صاحب کی حکومت کے خاتمے اور ضیاء الحق کے مارشل لا پر اختتام پزیر ہوئی۔ ہم اس میں بھی بہت متحرک رہے۔ بالآخر ہمارا دور طالب علمی ختم ہوا۔ اور والد صاحب کو بھی ان حالات کی وجہ سے ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ ملازمت سے بھی ریٹائر ہوگئے۔
ہم نے بھی والد صاحب کی گرتی ہوئی صحت کو دیکھتے ہوئے تمام معاملات سے کنارہ کشی اختیار کر کے والدین کی خدمت کو مقدم رکھا۔ اور والدین کی مرضی سے ایک مشرقی لڑکے کی طرح گھر بسا لیا۔ اور ایک بڑے بینک میں ملازمت کرلی۔ ہماری پہلی بیٹی کو والد صاحب نے اپنی گودوں میں کھلایا اور اپنی گزشتہ کلفتوں کو بھلانے کا ذریعہ بنا لیا۔ مگر افسوس کہ والد صاحب کو یہاں بھی آزمائش سے گزرنا پڑا۔ وہ اپنی چھوٹی بیٹی کے گھر جاتے ہوئے گر پڑے جس کی وجہ سے کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی جلد از جلد آپریشن کرکے کولہے میں پلیٹ اور راڈ لگادی اور چند ہفتوں میں اسپتال سے رخصت کردیا۔ ایک طرف والد صاحب بیساکھی پر آگئے اور دوسری طرف دل کے دورے کے بعد دل کے مریض تو تھے ہی مگر ساتھ ہی وہ گٹھیا یعنی جوڑوں کے درد کے بھی کافی پرانے مریض تھے۔ جو اب بہت ناقابل برداشت ہو چکا تھا۔ ڈاکٹر پروفیسر رب صاحب کو دکھایا۔ مگر ان کی مسکن اور تیزابی دوائیوں سے والد صاحب کی حالت مزید خراب ہوگئی۔ یہاں تک کہ منہ سے خون آگیا اور جسم کے اندر بھی خون بہنا شروع ہوگیا۔ اس موقع پر ہماری بیگم نے والد صاحب کی بہت خدمت کی۔ آخری دن جب کہ ہم دفتر میں تھے والد صاحب کو فالج ہوگیا اور ان کی زبان بھی بند ہوگئی۔ ہم نے فوراً ہی اسپتال میں داخل کرایا مگر وہ جانبر نہ ہوسکے اور دوسرے دن فجر سے پہلے اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔ ان کی وفات بہت تکلیف دہ تھی کیونکہ فالج کی وجہ سے بول نہ سکے۔ نجانے جاتے جاتے کیا کچھ کہنا چاہتے ہوں مگر نہ کہہ سکے۔ یہ 3 مارچ 1983 کا دن تھا۔
ہمیں ہمیشہ یہ دکھ رہے گا اور دل کی خلش تنگ کرتی رہے گی کہ والد صاحب جنہوں نے ساری زندگی صرف آزمائشیں ہی دیکھیں۔ پیدا ہوتے ہی یتیم و یسیر ہوگئے۔ بچپن کسمپرسی میں گزرا انہیں چین اور سکون کا ایک بھی لمحہ میسر نہیں آیا۔ان کی پوری زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی۔ نظر شیر کی رکھی مگر نوالہ حلال کھلایا۔ ریٹائر منٹ اور میری شادی کے بعد جب آرام وسکون کے دن آنے والے تھے اور جب وہ میرے بچوں سے دل بہلاتے اور میں انہیں حج اور عمرہ کراتا اور ان کی کوئی خدمت کر پاتا کہ وہ انتقال کرگئے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ اور دنیا کی ساری آزمائشوں۔ کلفتوں اور مصیبتوں اور ہجرتوں کا بہترین بدلہ عطا کرے اور آخرت میں ہم سب کو اپنی جنتوں میں جمع کرے۔ آمین ثمہ آمین۔