میرے ابا جان

670

ادھر والد صاحب جنگ عظیم کے اختتام پر اپنے وطن فیض آباد آگئے اور کسٹم میں ملازمت کرلی۔ اور انتہائی ایمانداری اور فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کئی اسمگلر گرفتار کیے اور اسمگلنگ کی کئی کوششیں ناکام بنادیں۔ جس کی وجہ سے اسمگلر مافیا دشمن ہوگیا اور انہوں نے والد صاحب کو راستے سے ہٹانے کے لیے ان پر کئی قاتلانہ حملے کیے مگر اللہ نے بچایا۔ بار بار قاتلانہ حملوں کی وجہ سے خاندان کے دیگر لوگوں نے ہمارے والد اور ماموں کو زبردستی مہاجروں کی اس ٹرین میں بٹھایا جو مہاجروں کو لے کر ڈھاکا مشرقی پاکستان جا رہی تھی۔ مہاجروں کا یہ قافلہ ہجرت کر کے مشرقی پاکستان کے ڈھاکا ریلوے اسٹیشن پر اترا جہاں بنگالی نوجوانوں نے بہت زبردست استقبال کیا اور دل و جان سے آئو بھگت کی۔ اور لٹے پٹے مہاجروں کو آباد کیا۔ بنگالیوں کے اس جذبے کو دیکھ کر آج بھی دل خون کے آنسو روتا ہے کہ کیوں مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا۔ کاش کہ ہم نے ان کو ان کا جائز حق دے دیا ہوتا۔ پا کستان کی تاریخ کا وہ ایک بہت ہی منحوس دن تھا۔ جب پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا۔ اس دن پورے مشرقی پاکستان میں بہت ہی گمبھیر سوگ کی فضا قائم تھی۔ انتہائی سخت کرفیو نافذ کیا جا چکا تھا پھر بھی بنگالی عوام سڑکوں پر ماتم کرنا چاہتے تھے تاکہ لیاقت علی خان کا غم منایا جا سکے۔ مگر اس کی اجازت نہ دی گئی۔ اس واقعہ نے ہمارے والد کے دل و دماغ پر گہرا اثر کیا۔ اور وہ ڈھاکا سے کراچی منتقل ہوگئے۔
کون ہَنستے ہوئے ہَجرت پر ہوا ہے راضی؟
لوگ آسانی سے گَھر چھوڑ کر کب جاتے ہیں!!
والد صاحب شروع میں کراچی پولیس ہیڈ آفس آئی آئی چندریگر روڈ کے قریب ایک معمولی سی رہائش اختیار کرنے پر مجبور ہوئے لیکن پھر ہمارے پھوپھا اور پھوپھی ہمیں جیکب لائینز ایریا کے اپنے مکان نمبر 45 میں لے آئے جہاں خاکسار کی پیدائش ہوئی۔ جس کی سب نے بہت خوشی منائی کیونکہ یہ خوشی نہ صرف ہجرت کے کئی صدمات کے بعد ملی تھی بلکہ ہم سے پہلے ہمارے چار بہن بھائی بہت چھوٹی عمروں میں انتقال کر چکے تھے اس لیے بھی بہت خوشی منائی گئی۔ ہمارے والدین کے کل گیارہ بچے ہوئے جن میں سے صرف چار زندہ رہ پائے۔ سب سے پہلی آمنہ خاتون پھر صالح بھائی اور پھر صالحہ خاتون۔ اور آخیر میں یہ خاکسار۔ ظفر عالم۔ ہمارے والد خواجہ سید تھے اور والدہ کا شجرہ زین العابدینؒ سے ملتا تھا۔ لہٰذا ہم نجیب الطرفین سید ہوئے۔ والد کی طرف سے خواجہ اور والدہ کی طرف سے زینی کہلائے۔
جن کے رتبے سوا ہوتے ہیں
ان کی آزمائش بھی سوا ہوتی ہے
کچھ عرصے بعد ہی سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سعود نے مہاجرین کی آباد کاری کے لیے خطیر رقم ہدیہ کی۔ جس سے ملیر کے بعد ایک بستی سعودآباد کے نام سے قائم ہوئی جس کا انتظام سعودآباد ٹرسٹ نے انجام دیا۔ اللہ کے فضل و کرم سے ہمارے والد صاحب کو بھی ایک گھر سعودآباد میں الاٹ ہوگیا اور ہم لوگ اس گھر میں منتقل ہوگئے۔ ہمارا بچپن اور ابتدائی تعلیم سعودآباد ہی میں ہوئی۔ جلد والد صاحب نے اس بستی میں اپنا ایک مقام بنالیا۔ کوئی بھی خواجہ صاحب کا نام لیکر ہمارے گھر تک پہنچ سکتا تھا۔ روزآنہ بعد مغرب ہمارے گھر پر احباب کی محفلیں ہونے لگیں۔ اور ہمارا گھر سعودآباد میں سماجی ثقافتی اور سیاسی حوالے سے مرکزی حیثیت اختیار کرگیا۔
یہاں تک کہ محترمہ فاطمہ جناح بھی ایک موقع پر مہاجرین سے ملنے اور ان کے مسائل جاننے کے لیے سعودآباد تشریف لائیں تو ہمارے گھر کو رونق بخشی اور ہماری والدہ اور دیگر خواتین نے ان کا استقبال کیا۔ اس وقت ہماری والدہ نے سپاس نامہ پیش کیا۔ اور مہاجرین کے مسائل سے آگاہ کیا۔ اس تقریب نے ہماری بہت عزت افزائی کی اور خواجہ صاحب کا گھر مرکز نگاہ بن گیا۔ اس زمانے میں چونکہ سارے لوگ ہجرت کرکے آئے تھے۔ لہٰذا ہجرت کی آزمائشوں اور اس کے تجربات سے گزر رہے تھے۔ سب ہی اپنے آباو اجداد کی قبریں۔ یادگاریں اور خونی رشتوں کو تڑپتا چھوڑ کر آئے تھے۔ سب ہی آگ اور خون کا دریا عبور کر کے آئے تھے یہی وجہ تھی کہ پاکستان آنے کے بعد سارے لوگ ایک بستی میں اس طرح رہتے تھے جیسے تسبیح میں دانے۔ حالانکہ کوئی یوپی۔ کوئی حیدرآباد دکن۔ کوئی بہار اور کوئی راجستھان سے آیا مگر سب لوگ اس طرح شیرو شکر ہو کر رہتے تھے جہاں ایک کا پسینہ بہتا تھا دوسرا اپنا خون بہانے کے لیے تیار رہتا تھا۔ غربت اور کسمپرسی کے باوجود ایک دوسرے کی مدد سے زندگی بہت خوشگوار گزر رہی تھی۔ اسی دوران ایوب خان نے بنیادی جمہوریتوں کا نظام متعارف کرایا اور اس کے لیے انتخابات کروائے سعود آباد سے ہمارے والد صاحب بھی آزاد حیثیت سے ان انتخابات میں کھڑے ہوئے دوسری طرف ایوب خان کی کنونشن لیگ نے اپنا امیدوار بھی کھڑا کردیا ساتھ ہی کونسل مسلم لیگ اور جماعت اسلامی نے مل کر ایک مشترکہ امیدوار کھڑا کیا والد صاحب کی پوزیشن کافی مضبوط تھی مگر سعود آباد کے اکابرین نے اس ڈر سے کہ ووٹ تقسیم نہ ہو جائیں اور کنونشن لیگ الیکشن نہ جیت جائے والد صاحب کو دستبردار ہونے پر مجبور کیا جسے سب بزرگوں کے مشورے سے والد صاحب نے قبول کرلیا تاکہ ایک بڑے مقصد کو حاصل کیا جا سکے۔اس کے بعد ایوب خان اور فاطمہ جناح کے صدارتی انتخابات ہوئے جو ایوب خان نے بھرپور دھاندلی کے ذریعے جیت لیے مگر کراچی کے مہاجروں نے ہر حال میں کراچی سے فاطمہ جناح کو کامیاب کرا دیا۔ ان دنوں ہمارے گھر پر بزرگوں کی بیٹھک ہوتی تھی سب لوگ ہمارے گھر پر ریڈیو پر انتخابات کے نتائج سن رہے تھے اسی دوران ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا ہمارے والد صاحب کے ایک دوست جو فاطمہ جناح کے بہت ہی زبردست حامی تھے ریڈیو پاکستان سے جاری ہونے والے دھاندلی زدہ نتائج سن کر جذباتی ہوگئے اور انہوں نے جوتا پھینک کر ریڈیو کو مارا اور کہا کہ ’’سالا جھوٹ بولتا ہے‘‘۔
65 کی پاک بھارت جنگ بھی انہیں دونوں ہوئی۔ جس میں پوری قوم نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ہمارے گھر میں حسب معمول روزانہ بیٹھک ہوتی تھی اور محلے کے بزرگ حضرات اور والد صاحب کے دوست احباب اس محفل میں ریڈیو پر جنگ کی خبریں سنا کرتے تھے۔ انہی دنوں والد صاحب نے بڑے بھائی صاحب کی شادی کردی مگر شادی کے فوراً بعد ہی بھائی صاحب علٰیحدہ زندگی کے خواب دیکھنے لگے جس کو بھانپتے ہوئے والد صاحب نے بھائی صاحب کو پیش کش کی کہ ہمارے بہنوئی جمیل احمد جمالی کے گھر منتقل ہوجائیں۔ یوں وہ علٰیحدہ ہونے کے باوجود والدین کے قریب رہیں گے۔ یہ گھر خالی تھا اور قریب ہی واقع تھا جمالی صاحب اپنے اہل خاندان کے ساتھ گھارو منتقل ہو چکے تھے مگر بھائی صاحب نے اس پیشکش کو قبول نہ کیا۔ اور ایک دن خاموشی سے اپنا سامان لے کر اپنی سسرال منتقل ہوگئے جبکہ بھابھی صاحبہ پہلے ہی جا چکی تھیں۔
اس بات سے ہمارے والدین کو سخت صدمہ پہنچا۔ بات بھی صدمہ کی تھی کہ جس بڑے بیٹے کو نامساعد حالات اور ہجرت کی آزمائشوں کے باوجود پڑھایا لکھایا۔ اپنے پیروں پر کھڑا کیا اور شادی کرکے گھر بسایا۔ اب وقت تھا کہ وہ باپ کا دست و بازو بنتا مگر وہ یوں چھوڑ کر چلاگیا۔ گو کہ بعد ازاں بھائی صاحب نے والد صاحب کے پیروں میں گر کر معافی مانگ لی تھی اور ہم سب کے اصرار پر والد صاحب نے معاف بھی کردیا تھا مگر اس کے باوجود والدین کے دل سے اس صدمے کے اثرات ختم نہ ہوئے اور آخر وقت تک باقی رہے۔ اس واقعہ نے والد صاحب کی کمر توڑ دی۔ بالآخر والد صاحب ایک دن دوست احباب اور سعودآباد کی فضاء کو سوگورا چھوڑ کر عزیزآباد منتقل ہوگئے۔ عزیزآباد میں پہلے تو کرائے پر رہائش اختیار کی بعد میں ایک پلاٹ خرید کر اس پر مکان تعمیر کرایا اور اس مکان میں منتقل ہوگئے۔ والد صاحب نے مکان کے گیٹ پر ایک تختی لگائی جس پر لکھا تھا ’’نشانِ اودھ‘‘ جو لوگوں کو ہندوستان یوپی میں قائم ریاست اور نواب آف اودھ کی یاد دلاتی تھی۔ مگر کچھ انجان لوگوں نے جہالت اور کم علمی کی وجہ سے نشان اْودھ پڑھنا شروع کردیا۔ ہمیں لگا کہ جیسے یہ لوگ خود اْودھ بلاوْ ہیں۔ خیر اردو زبان بھی آتے آتے آتی ہے۔
(جاری ہے)