الخدمت کی مفت آکسیجن سروس

296

کراچی میں کورونا کی کیسیز میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ سندھ خصوصاً کراچی میں کورونا کی بھارتی ڈیلٹا قسم کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس وقت کراچی میں ڈیلٹا ویرینٹ کیسزکی شرح 23.5فی صد تک بتائی جارہی ہے۔ خدا نخواستہ وبا مزید بڑھی تو حالات قابو سے باہر ہوں گے۔ سندھ حکومت نے اس حوالے سے خصوصی اقدامات کیے ہیں، اسکول، مدارس، شادی ہالز، پارکس، ٹرانسپورٹ، بازار، شاپنگ مالز سمیت سب کچھ بند کردیا گیا ہے، مگر اطلاعات یہی آر ہی ہیں کہ کراچی کے اسپتال کورونا مریضوں سے بھر گئے ہیں اور وینٹی لیٹرز کی تعداد کم رہ گئی ہے۔ دستیاب وینٹی لیٹرز میں سے آدھے سے زائد پر مریض ہیں۔ رواں برس کے آغاز میں آکسیجن کی کمی بھی بتائی جارہی تھی اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اسٹیل ملز میں موجود غیر فعال آکسیجن پلانٹ جلد آپریشنل کردیا جائے گا، مگر تاحال اس بارے میں پیش رفت نظر نہیں آئی اور یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ اسے آپریشنل کرنے کا منصوبہ ہے یا یہ سرد خانے کی نظر ہوگیا۔
جب وزیر اعلیٰ سندھ کا اسٹیل ملز کا غیر فعال آکسیجن پلانٹ کھولنے کا بیان آیا تو اس کے بعد رواں برس 28اپریل کو امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے خصوصی پریس کانفرنس میں حکومت سندھ سے غیر فعال آکسیجن پلانٹ کھولنے کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ پیش کش بھی کی تھی کہ پلانٹ کو آپریشنل کر نے میں ایک ارب روپے خرچ ہوں گے۔ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ اس کے پاس پلانٹ چلانے کے لیے ماہر انجینئرز نہیں تو جماعت اسلامی کے پاس اہل انجینئرز موجود ہیں جو پلانٹ چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پریس کانفرنس کو اب کئی ماہ گزر چکے ہیں، مگر سندھ حکومت یہ پلانٹ نہیں چلا سکی، حالانکہ اس پلانٹ کو چلا دیا جائے تو یہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں آکسیجن کی ضرورت کو باآسانی پورا کر سکتا ہے۔
کورونا کی پہلی لہر کے دوران ہم نے الخدمت کی جانب سے جو اقدامات اور کام دیکھے اس کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ الخدمت کے کارکنان ہمیں سڑکوں پر نظرآئے، لاک ڈاؤن کے دوران لوگوں کے گھروں تک پکا پکایا کھانا اور پانی پہنچاتے ہوئے بھی نظر آئے۔ ان گھروں تک گوشت پہنچاتے ہوئے بھی ملے۔ مساجد، امام بارگاہوں، چرچوں، اسکولوں، بازاروں، سرکاری اسپتالوں میں اسپرے کرتی گاڑیاں بھی دیکھی گئیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران بے روز گار ہونے والوں کو چھوٹے کاروبار کے لیے قرضے بھی دیے گئے تاکہ ان کی زندگی کی گاڑی عام حالات کی طرح چلتی رہے۔ لوگوں میں کورونا سے متعلق آگاہی کے لیے منظم مہم چلائی گئی۔
کورونا کی پہلی لہر کے دوران اسی الخدمت نے ناظم آباد میں کورونا ٹیسٹنگ لیب بھی قائم کی، جہاں پاکستان کی تمام لیبارٹیز سے کم ترین نرخ 3ہزار روپے میں کورونا ٹیسٹ کیا گیا جبکہ یہ ٹیسٹ ہر جگہ 10تا 12ہزار روپے میں ہو رہا تھا۔
ماضی میں آکسیجن کا استعمال حسب ضرورت ہوتا تھا اور کسی کسی مریض کو اس کی ضرورت ہوتی تھی۔ آج کورونا کی وبا نے اس کی اہمیت بڑھا دی ہے۔ کوئی فرد جب کورونا سے متاثر ہوتا ہے تو یہ وائرس براہ راست انسانی نظام تنفس پر حملہ آور ہو تا ہے، جس سے سانس لینے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور متاثرہ مریض کو فوری آکسیجن کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایسے میں مریض کے لیے آکسیجن کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ ملک میں آکسیجن کی کمی اور مشکل صورتحال میں بڑی پریشانی لاحق ہونے سے متعلق بھی اطلاعات آتی رہی ہیں، جس کو فوری حل کیا جانا ضروری ہوگیا ہے، تاہم ملک کی سب سے بڑی این جی او الخدمت نے اپنے نیٹ ورک کے تحت صحت، تعلیم سمیت دیگر شعبوں کی طرح پاکستان بھر میں کورونا کی پہلی، دوسری، تیسری لہر کی طرح چوتھی لہر کے دوران بھی کورونا مریضوں کے لیے مفت آکسیجن سلنڈرز کی فراہمی کی سروس بلاتعطل جاری رکھی ہوئی ہے۔ یہ پاکستان میں کسی بھی این جی اور کی جانب سے پہلی اور منفرد سروس ہے جو لوگوں کو مشکل گھڑی میں منظم انداز میں مفت فراہم کی جارہی ہے۔ الخدمت نے چند روز قبل ہی کراچی میں کورونا وبا میں تشویشناک اضافے کے پیش نظر مریضوں کے لیے بلا تعطل و پریشانی مفت آکسیجن سلنڈر فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ شہری اصل قومی شناختی کارڈ اور ڈاکٹر کی جانب سے تجویز کردہ آکسیجن کی پرچی کے ساتھ الخدمت کے دفاتر میں آکر باآسانی مفت آکسیجن سلنڈر حاصل کر سکتے ہیں، جبکہ یہاں سے پلز آکسو میٹر بھی مفت حاصل کیا جا سکتا ہے۔
الخدمت نے یہ سہولت شہر میں قائم اپنے تمام ہیلپ سینٹروں پر فراہم کردی ہے تاکہ شہری اپنے علاقہ میں قریب ترین یہ سہولت حاصل کر سکیں اور ساتھ ہی لیاقت آباد ڈاک خانہ کے قریب الخدمت دفتر میں اور الخدمت ہیڈ آفس سے یہ سہولت 24گھنٹے فراہم کی جا رہی ہے۔ یہ سروس اس لحاظ سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ کوئی فرد معاشی لحاظ سے مشکل میں ہو، کورونا کے سبب جان کو خطرات لاحق ہوں، کورونا ٹیسٹ اور علاج پر پیسہ صرف ہورہا ہو اور اوپر سے ڈاکٹر نے آکسیجن تجویز کی ہو۔
وہ فرد آکسیجن کی قیمت ادا کرنے کے لیے رقم کہاں سے لائے اور سلنڈر کی بطور ڈپازٹ رقم جو 20ہزار روپے بنتی ہے کہاں سے اداکرے۔ ایسے میں الخدمت کی یہ سروس بڑی نعمت ہے اور پریشان حال لوگوں کے لیے بڑا ریلیف ثابت ہورہی ہے۔
کورونا کے مریضوں کی زندگی بچانے کے لیے آکسیجن انتہائی ناگزیز ہو چکی ہے۔ اس کا اندازہ ہمیں پڑوسی ملک بھارت میں کورونا کی بدترین صورتحال سے بھی ہو چکا ہے، جہاں آکسیجن تھی نہ بیڈ اور لوگ سڑکوں پر ہلاک ہو رہے تھے، حکومتیں تو اپنی ذمہ داریاں بھلا چکی ہیں، مگر بطور این جی اور الخدمت 60کی دہائی سے اپنی ذمے داریاں ادا کر رہی ہے۔ حکومتی امداد کے بغیر اور وہ بھی اللہ کی رضا کے لیے۔ پورے معاشرے کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ الخدمت کا ساتھ دے اور نیکی کے کاموں کو آگے بڑھائے۔