افغان طالبان روس اور چین کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہوجائینگے

196

کر اچی (رپورٹ: محمد علی فاروق) روس اور نیٹو افواج کی شکست کا ذریعہ افغان قوم بنی ‘ امریکا نے مذاکرات کر کے یہ تسلیم کر لیا کہ افغانستان میں طالبان ایک مسلمہ قوت ہی نہیں بلکہ مضبوط اسٹک ہولڈر بھی ہیں‘ طالبان کچھ یقین دہانیوں کے بعد روس اور چین کے ساتھ اچھے تعلقات قائمکر نے میں کامیاب ہوجائیں گے‘ پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک آنے والے وقت میں حکومت بنانے والے دھڑے کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور عین ممکن ہے کہ آنے والی طالبان حکومت کچھ شرائط پر امریکا سے بھی بہتر تعلقا ت قائم کر لے گی۔ ان خیالات کا اظہار سابق سفارت کار عبدالباسط، جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر میاں محمد اسلم خان اور معروف دفاعی تجزیہ نگا ر ریٹائرڈ کرنل اسد محمود نے جسا رت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا طالبان افغانستان میں اپنے غلبے پر چین اور روس کی حمایت حاصل کر سکیں گے؟‘‘عبدالباسط نے کہا کہ میرے خیال میں طالبان کو معلوم ہے کہ بین الاقوامی سطح پر سفارت کاری کی بہت اہمیت ہے جس کے لیے اپنی شناخت بنانا انتہائی ضروری ہے‘ اس لیے طالبان سفارت کاری کا سلسلہ پہلے سے انجام دے رہے ہیں‘ میرے خیال میں طالبان کچھ یقین دہانیوں کے بعد روس اور چین کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے‘ اس کام کے لیے طالبان کچھ معروف اسٹیک ہولڈرز کا بھی سہارا لے سکتے ہیں‘ امریکا طالبان سے مذاکرات کے نتیجے میں ہی افغانستان سے نکلا ہے یہاں تک کہ امریکا بھی طالبان حکومت کو تسلیم کر نے میں کوئی آر محسوس نہیںکرے گا‘ طالبان کے لیے یہ بات اہم ہوگی کہ وہ 1990ء کی دہائی کی انتہا پسندی یعنی (طالبائزیشن) جیسی غلطی کو نہ دہرائیں۔ محمد اسلم خان نے کہا کہ ایک وقت وہ تھاکہ سلطنت برطانیہ پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا‘ اُس وقت بھی برطانوی تسلط سے اگر کوئی ٹکرایا تو وہ افغان قوم ہی تھی روس اور نیٹو افواج کی شکست بھی افغان قوم ہی کے ہاتھوں ہوئی‘ افغانستان ایک لمبا عرصہ حالت جنگ میں رہا یہ کہنا غلط ہے کہ طالبان نے نیٹو افواج کو شکست دی بلکہ اس کا سہرا افغان قوم کو جاتا ہے‘ اب افغانستان سے نیٹو افواج کا قبضہ ختم ہو رہا ہے‘ حالات تیزی سے بدل رہے ہیں‘ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ آئندہ کی صورت حال کیا بننے جا رہی ہے اور مستقبل میںکیا چھپا ہے‘ یہ حالات پر منحصر ہے کہ افغان قوم کیا فیصلہ کرتی ہے‘ بہرحال افغانستان میں جو بھی طاقت ور دھڑا حکومت بنانے میں کامیاب ہوتا ہے پاکستان اس دھڑے کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ اسد محمود نے کہا کہ افغانستان کی حالیہ صورت حال میں طالبان کا دعویٰ ہے کہ وہ افغانستان کے85 فیصد حصے کا کنٹرول حاصل کر چکے ہیں جبکہ نیٹو افواج کے دور میں بھی50 فیصد سے زاید علاقے طالبان کے زیر اثر تھے‘ اس طر ح ہم کہہ سکتے ہیں کہ 75 فیصد علاقے طالبان کے قبضے میں ہیں‘ دیکھنا یہ ہے کہ افغان نیشنل آرمی اور طالبان کا ایک دوسرے سے کیا رویہ رہتا ہے‘ افغانستان میں 1979ء سے اب تک مجموعی طور پر حالت جنگ میں 40 سال سے زاید کا عرصہ گزرنے کے بعد افغانوں کی تیسری نسل لڑنے کے لیے تیار ہوچکی ہے‘ یہ لوگوں کی خام خیالی ہے کہ طالبان کابل فتح نہیں کرسکتے۔اسد محمود نے کہا کہ بین الاقوامی تناظر میں دیکھا جائے تو امریکا کو افغانستان میں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اور وہ اپنے حواریوں کو بے یارو مدگار چھوڑ کر راتوںرات فرار ہوگیا بلکہ امریکا نے طالبان سے مذاکرات کر کے یہ بات تسلیم کر لی کہ افغانستان میں طالبان ایک مسلمہ قوت ہی نہیں بلکہ مضبوط اسٹک ہولڈر ہیں ، امریکا کو مذاکرات میں افغانستان کی تعمیر ترقی کے لیے بھی بات کرنی چاہیے تھی مگر امریکا کا مفاد تو افغانستان کی خانہ جنگی میں ہے ‘ طالبان کی حکومت قائم ہو نے کے بعد امید ہے کہ اس حکومت کا رویہ اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر ہوگا کیونکہ حالیہ قیادت کے فیصلوں نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ بہت مدبرانہ انداز میں ہر معاملے کا سامنا کر رہے ہیں‘ آئندہ وقت میں طالبان حکومت چین اور روس بلکہ خطے کی دیگر ریاستوں سے بھی اچھے تعلقات قائم کر نے میں کامیاب ہو جا ئے گی‘ روس اور چین کا جھکاؤ تو پہلے سے طالبان کی جانب ہے اور وہ افغانستان میں سرمایہ کاری کے خواہشمند ہیں‘ امریکا نے پیسے کے بل بوتے پر افغانستان میں خانہ جنگی کو ہوا نہ دی تو عین ممکن ہے کہ آئندہ آنے والی طالبان حکومت کچھ شرائط پر امریکا سے بھی بہتر تعلقات قائم کر لے۔