پاک انگلینڈ ون ڈے یا ون وے سیریز

289

پاکستان کرکٹ ٹیم کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی ۔ ٹیم کاغذپر خواہ کتنی ہی اچھی ہو اس کی گرائونڈ پر کیا پر فارمنس ہو گی اور میچ جیتنے کے لیے کتنا پتہ مار سکے گی ۔ پوری ٹیم ملک کے بہترین ہیروں پر مشتمل ہوتی ہے لیکن یہ میدان میں یا مقابلے کے وقت زیرو ہو جاتے ہیں ۔ اس پر طرہ ٹیم انتظامیہ کے دعوے ہوتے ہیں ۔ حقائق کے منافی اورہوائوں میں دعوے کیے جاتے ہیں ۔ پھر نتائج آتے ہیں تو مایوس کن ۔ اور انتظامیہ بغلیں جھانکتی ہے یہی کچھ انگلینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز میں ہوا ۔ پاکستانی ٹیم نے تینوں ون ڈے اور سیریز بڑی آسانی سے انگلینڈ کے ہاتھ میں رکھ دی ۔ اگر پہلے میچ سے دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے پاکستانی ٹیم میچز ہارنے گئی تھی۔ انگلینڈ نے پہلے انٹر نیشنل ون ڈے میں پاکستان کو بآسانی 9وکٹوں سے شکست دی ۔ انگلستان نے ٹاس جیت کر پاکستان کو پہلے کھیلنے کی دعوت دی ، اننگز کی پہلی ہی گیند پر ثاقب محمود نے امام الحق کو اپنی خوبصورت گیندپر ایل بی ڈبلیو آئوٹ کر دیا ۔ بابر اعظم دوسری گیند پر ایک آسان سلپ میں کیچ دے بیٹھے ۔
صفر پر2 کھلاڑی آئوٹ ہونے کے بعد محمد رضوان کا4 نمبر پر بیٹنگ کے لیے آنا حیرت کا باعث رہا، خاص کر جب صہیب مقصود ٹیم میں ہو ۔ حال ہی میں پی ایس ایل کے چھٹے ایڈیشن کے بہترین بیٹسمین آف دی ٹورنامنٹ اور فائنل کے مین آف دی میچ بھی رہے اور اپنے کیریئر کے بہترین فارم میں ہیں ۔ ایک مستند بلے باز کی موجودگی میں ایک وکٹ کیپر کا چوتھے نمبر پر بیٹنگ کے لیے آنا اس کا جواز کوچ مصباح الحق ہی بتا سکتے ہیں ۔
محمد رضوان13رنز ہی بنا کر وگریگوری کی گیند پر وکٹ کیپر کو کیچ دے بیٹھے ۔
پاکستانی ٹیم بیٹنگ اور بولنگ دونوں میں فیل ہوئی اور فیلڈنگ کے کیا کہنے ۔
دوسرا ون ڈے انٹر نیشنل بھی پاکستان بہت آسانی کے ساتھ یکطرفہ میچ52رنز سے ہار گیا ۔
اس دفعہ بھی ہم پچھلے میچ سے سبق نہیں سیکھے۔ وہی غلطیاں دہرائی گئیں جو پچھلے میچ میں ہم نے کی تھی ۔ ہارنے کے بعد ٹیم میں تبدیلیاں دنیا کی ہر ٹیم کرتی ہے مگر مصباح الحق اور کپتان فخر زمان کو اپنے پرانے چلے ہوئے کارتوس پر بھروسہ رہا اور ٹیم میں کوئی تبدیلی نہ کی ۔ وہی بیٹنگ آرڈر رہا ۔ غیر ذمہ دارانہ شاٹ بنا پلاننگ کے بغیربولنگ یہی ہماری شکست کی سب سے بڑی وجہ ہے ۔
پچھلے10 میچوں میں فہیم اشرف کی صرف4وکٹیں ہیں اور7.90 کی اوسط سے ان کی بیٹنگ اوسط ہے ۔ پھر بھی وہ مستقل ٹیم کا حصہ ہیں،کوچ مصباح الحق کو بھی ان کی صلاحیتوں پر بھروسہ ہے یا ان کے چہیتے… ہیں جبھی تینوں طرز کی کرکٹ میں ان کی شمولیت ضروری ہوتی ہے ۔
شاداب خان کی بھی پچھلے10میچوں میںکوئی خاص کارکردگی نہیں ہے اور وہ بھی پچھلے10میچوں میں10وکٹیں ہی حاصل کر سکے مگر چونکہ یہ بھی کوچ مصباح الحق کے چہیتے ہیں اس لیے ان کی شمولیت بھی ٹیم کا لازمی حصہ ہے ۔
فاسٹ بولرز پر وقار یونس کی کوچنگ پر بھی کئی سوالیہ نشان ہیں جو بولنگ لائن کو ہم دنیا کی سب سے اچھی بولنگ قرار دیتے ہیں ۔ ان کو انگلینڈ کی بیک اپ ٹیم کے بیٹسمین بہت آسانی سے کھیلتے رہے، ہمارے بولرز کبھی بھی اسپنرز دبائو ڈالنے میں ناکام نظر آئے ۔ یہ بات صرف پی سی بی ہی بتا سکتی ہے کہ بار بار وقار یونس کی بطور بولنگ کوچ تعیناتی کی وجہ کیا ہے ۔ کوئی ایک فاسٹ بولر ایسا نہیں جس کو وقار یونس نے گروم کیا ہو یا بنایا ہو ۔ شاہین شاہ آفریدی اور حارث رئوف کولاہور قلندرز نے بنایا ، جو مستقل پاکستان ٹیم کے تینوں فارمیٹ کا حصہ ہیں۔
بابر اعظم کی کپتانی میں کئی جھول نظر آئے اور ان کی کپتانی بھی سوالیہ نشان ہے ۔
انگلینڈ کے جب دو کھلاڑی جلد آئوٹ ہو گئے تھے ،زوک کرالتی اور ڈیوڈ ملان دو نئے بیٹسمین فل سالٹ اور جیمز ولنس کھیل رہے تھے بابر اعظم نے ان پر اپنی فیلڈ سے کوئی دبائو نہیں ڈالا جب انگلینڈ اپنے……اور نئے فاسٹ بولرز کے ساتھ تین تین سلپ لگا سکتی ہے تو ہم کیوں اپنے نام نہاد ورلڈ کلاس فاسٹ بولرز کے لیے ایک سلپ کی جگہ تین سلپ لگا کر بیٹسمینوں پر دبائو نہیں ڈالا۔
دونوں میچوں میں ہمارے فاسٹ بولرز کی جانب سے نئی گیند پر کوئی سوئنگ نظر نہیں آئی ۔ جبکہ انگلستان کا موسم اور وکٹیں سوئنگ کے لیے بہت موافق ہیں ۔ جب سیدھے ہاتھ لیگ اسپین کرانے والے شاداب اور بائیں کے اسپنر سعود شکیل بالنگ کر رہے تھے تب انگلینڈ کے بیٹسمین دبائو کا شکار نظر آئے ۔ مگر سعود شکیل کو صرف تین اوور بعد ہٹا لیا گیا جبکہ وہ اپنے تین اوورز میں صرف14 رنز دے کر ایک کھلاڑی آئوٹ کر چکے تھے ۔ ان کو بالنگ سے ہٹانا اور پھر سے فاسٹ بولرز کو لگانا انگلینڈ کے حق میں بہتر ثابت ہوا جبکہ متفقہ طور سے سارے کرکٹ پنڈت کی رائے یہی ہے کہ برصغیر سے باہر جتنی بھی ٹیمیں ہیں اسپن بولنگ کو کھیلنے میں دشواری محسوس کرتی ہے اس کی سب سے بڑ مثال رکی پونٹنگ جیسے شہرہ آفاق اور مایہ ناز بیٹسمین کی ہے جو کبھی بھی اسپنر کے خلاف بہت زیادہ خود کوcomfortable محسوس نہیں کیا ۔
مصباح الحق کے منظور نظر فہیم اشرف بھی چھ اوورز میں45رنز دے کر ناکام رہے جبکہ صرف ایک رن بنا سکے ۔
آخرمیں حسن علی کی شانداربولنگ کے نتیجے میں انگلینڈ کی ٹیم اپنے مقررہ اوورز سے دس گیندیں قبل45.4 اوورز میں245 رنز بنا کر آئوٹ ہو گئی ۔ حسن علی نے پانچ آئوٹ کیے ۔ جب پاکستان ٹیم کی بیٹنگ آئی تو یہ46اوورز میں کوئی بڑا ٹارگٹ نہیں تھا ۔پاکستان ٹیم مسلسل دوسری مرتبہ بھی اپنے اوورز پورے کھیلنے سے قبل ہی آئوٹ ہو گئی اور انگلینڈ یہ میچ بآسانی 52 رنز سے جیت گیا ۔
تیسرا اور آخری ون ڈے بھی پاکستان کو انگلینڈ نے48 ویں اوور میں3وکٹوں سے شکست دے کر سیریز3-0 سے اپنے نام کر لی ۔ اس میچ میں پاکستان جیت سکتا تھا،انگلینڈ نے 48اوورمیں 7وکٹ پر332رنز بآسانی حاصل کر کے سیریز3-0سے اپنے نام کر لی ۔

ہمار خود ساختہ ورلڈ کلاس بولنگ331رنز کا دفاع کرنے میں ناکام رہی ۔ ٹیم کی یہ کارکردگی مصباح الحق کی کوچنگ اور بابر اعظم کی کپتانی پر بہت سے سوالیہ نشان چھوڑ گئی ہے ۔ وقار یونس بھی بطور فاسٹ بولنگ کوچ بری طرح ناکام رہے ۔یہ انگلینڈ کی بی ٹیم تھی جو بقول شعیب اختر اکیڈمی کی ٹیم تھی اس کے خلاف یہ کارکردگی صرف من پسند کھلاڑیوں کو ٹیم میں کھلانے کا جواز بنی ۔
یہ ایک بہترین موقع تھا سیریز جیتنے کا ۔ پاکستان نے انگلینڈ میں سیریز47برس قبل1974ء میں جیتی تھی ۔

پ