طالبان سے امریکا خوفزدہ کیوں؟

659

’’میں بظاہر ایک جاسوس تھی اور ان کے راز چوری کرنے کے لیے بھیس بدل کر ان کے ملک میں گھسی تھی۔ میں نے انہیں اشتعال دلانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ میں نے تفتیش کاروں کے منہ پر تھوکا، انہیں گالیاں دیتی رہی اور پوری طرح دھتکارتی رہی۔ اس کے جواب میں وہ مجھے اپنی بہن اور معزز مہمان کہتے رہے۔ انہوں نے مجھے ائر کنڈیشنڈ کمرہ بھی دیا جس کی چابی میرے ہی پاس تھی‘‘۔ یہ ہے تذکرہ اجڈ، گنوار اور دہشت گرد طالبان کا…! جن کی افغانستان میں ایک بار پھر کامیابیوں پر امریکا بہادر سخت اشتعال میں ہے۔ اور امن مذاکرات میں طے پا جانے والی شرائط سے انحراف کرتے ہوئے اس بات پر مصر تھا کہ 650 امریکی فوجی امریکی سفارت خانے کی حفاظت کے لیے افغانستان میں موجود رہیں گے۔ دوسری طرف طالبان کہتے رہے کہ انہیں ایک بھی امریکی فوجی کی موجودگی قبول نہیں اور وہ اسے امن مذاکرات کی خلاف ورزی تصور کریں گے۔ طالبان اور ان کے طریقوں اور اصولوں سے لاکھ اختلافات ہو سکتے ہیں مگر ان حقائق کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ اس سے قبل طالبان نے اپنے مختصر دور حکومت کے دوران اپنے زیر قبضہ علاقوں میں خانہ جنگی ختم کی، انصاف قائم کرنے کی کوشش کی، بچوں کی فروخت کا سلسلہ کافی حد تک تھما، خواتین کی عصمتیں محفوظ بنانے کی کوششیں کی گئیں نیز ہیروئین اور پوست کا کاروبار نہ ہونے کے برابر رہ گیا تھا جس کا خود اقوام متحدہ اعتراف کر چکی ہے۔ بعد ازاں طالبان کی ممکنہ مقبولیت سے پریشان عالمی طاقتوں نے ان کی کردار کشی کی عالمی مہم شروع کی۔ بامیان میں بتوں کو توڑنے کے اقدامات ہوں یا مبینہ لڑکی پر تشدد کی جعلی ویڈیو کا منظر عام پر آنا ہو ہر مرحلے پر طالبان کو تنگ نظر، جاہل، گنوار اور دہشت گرد ثابت کیا گیا اور بعد ازاں اسامہ بن لادن کی موجودگی کا بہانہ بنا کر اس ملک میں ایک بار پھر آگ و خون کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ طالبان اور ان کے حامی افراد کو پنجروں میں قید کر کے جو غیر انسانی سلوک کیا گیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
اب کچھ عرصے کی خاموشی کے بعد طالبان نامی قوت ایک بار پھر اپنے آپ کو منوانے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ دوحہ میں امریکا کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں طالبان کی شرط یہ تھی کہ ایک بھی امریکی فوجی افغانستان میں نہیں رہے گا۔ اب جبکہ اخباری اطلاعات کے مطابق 200 سے زائد اضلاع پر طالبان کا قبضہ ہو چکا ہے۔ اخباری اطلاع کہتی ہے کہ طالبان کابل سے ایک گھنٹے کی مسافت پر ہیں۔ ان حالات میں دہشت گرد اور غیر ذمے دار طالبان کی کامیابیوں سے پریشان طاقتوں کی جانب سے کبھی خانہ جنگی کی افواہیں گردش کرائی جاتی ہیں کبھی دھمکی آمیز لب و لہجہ اختیار کیا جاتا ہے۔
افغانستان میں ناٹو سربراہ امریکی کمانڈر جنرل اسکاٹ ملر طالبان کو دھمکی دیتا ہے کہ اگر پرتشدد کاروائیوں کا سلسلہ بند نہ کیا تو وہ فضائی حملوں کے لیے تیار رہے۔ مزید کہا کہ افغانستان سے انخلا کے باوجود امریکی فوج طالبان پر فضائی حملے کرنے اور انہیں کچلنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ وہ مزید کہتا ہے کی اگر طالبان دہشت گردی کے ذریعے علاقوں پر قبضہ کرنے سے باز نہ آئے تو فضائی حملے نا گزیر ہو جائیں گے۔ اب اس مہذب اور شائستہ امریکی کمانڈر کو کون سمجھائے کہ کیا کسی ملک کو مہلک میزائلوں اور بمبار طیاروں کے ذریعے بارود اور راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کرنا دہشت گردی نہیں ہے؟ اور مذاکرات کی شرائط سے انحراف کی باتیں کرنا کیا غیر ذمے دارانہ رویہ نہیں ہے؟
امریکا اتنا مشتعل کیوں ہے؟ شاید اس کا جواب یہ ہے کہ امریکا طالبان سے خوفزدہ نہیں ہے بلکہ ان کی کامیابی کی صورت میں اسلام کے ممکنہ پھیلاؤ سے خوفزدہ ہے۔ مزید یہ کہ افغانستان میں طالبان ہی وہ واحد قوت نظر آتی ہے جو امریکا بہادر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی ہے۔ باقی گروپ خاص طور پر افغان حکومت کو ملک میں امریکی موجودگی پر کوئی اعتراض نہیں۔ اور وہ انہیں کھلے دل سے تسلیم کرتی نظر آتی ہے۔ تو کیا واقعی امریکا اس روئیے سے خائف ہے جو امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑا ہے؟ یا اس کے ذریعے اسلام کے ممکنہ پھیلاؤ سے؟ گزشتہ دنوں افغانستان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبد الغنی برادر نے کہا طالبان ملک میں حقیقی اسلامی نظام چاہتے ہیں۔ جو ثقافتی روایات اور مذہبی قوانین کے مطابق خواتین کے حقوق کے لیے شرائط فراہم کرے۔ ایک حقیقی اسلامی نظام افغانوں کے تمام مسائل کے حل کا بہترین ذریعہ ہے۔ انہوں نے یقین دہانی کروائی کہ طالبان خواتین کو تحفظ فراہم کریں گے اور سفارت کار اور این جی اوز بھی افغانستان میں محفوظ طریقے سے کام کر سکیں گے۔ اسی حقیقت کا اعتراف پاکستانی حکومت کو بھی کرنا پڑے گا کہ افغانستان میں ایسی حکومت پاکستان کے لیے سود مند ثابت ہو گی جسے قابض فوج کی ایک فی صد موجودگی بھی قبول نہ ہو۔ کیونکہ خطے میں امریکی فوج کی موجودگی کا مطلب خطے میں امریکی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ وہی امریکی پالیسیاں جو ہر وقت ڈو مور کا مطالبہ دہراتی ہیں۔ جو فوائد پاکستان سے سمیٹتی ہیں مگر منظور نظر بناتی ہیں بھارت کو۔۔۔ جو چین اور پاکستان کی قربت سے نالاں ہیں۔ جنگوں اور اندرونی خلفشار سے دوچار افغانستان، بال و پر سے محروم حکومت پر مبنی افغانستان ہی امریکی ایجنڈا برائے عالم مفید ثابت ہو سکتا ہے نا کہ پر امن اسلامی افغانستان۔۔۔ اسی لیے امریکا بہادر تمام کیل کانٹوں سے لیس ہو کر طالبان کے خلاف ایک بار پھر محاذ گرم کرنے جا رہا ہے۔