مالی صدقہ قربانی کا بدل نہیں ہے

315

بعض اوقات قربانی کے دنوں میں سیلاب یا کسی اور قسم کی ناگہانی آفات کا سلسلہ رونما ہوجاتا ہے، ایسی صورتِ حال میں بعض لبرل حضرات یہ کہتے سنائی دیتے ہیں: ’’ہمارے ملک میں تباہ کن سیلاب آیا ہے، جس سے کافی جانی ومالی نقصان ہوا ہے، لاکھوں لوگ بے گھر ہیں، قربانی کو موقوف کرکے یہ رقم ان متاثرین کی مدد پر صرف کی جانی چاہیے‘‘۔ ہمیں ایک صاحب نے خط لکھا: ’’ایک ادارے کا سربراہ یہ کہتا ہے کہ ہمارے ملک میں لوگ بدترین سیلاب کی زَد میں ہیں، لوگوں کے گھر، مال، مویشی اور جانیں تباہ ہورہی ہیں، لہٰذا 10ذوالحجہ کو سنّت ِ ابراہیمی کے طور پر جو قربانی کی جاتی ہے، اس سال نہ کی جائے اور وہ رقم سیلاب زدگان کو بطور امداد دی جائے تاکہ اُن کی مشکلات میں کمی ہوسکے، وہ یہ بھی کہتا ہے کہ علمائے کرام نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ لوگ حج وعمرہ کے بجائے یہ رقم سیلاب زدگان پر خرچ کریں تو انہیں کئی حج اور عمروں کا ثواب ملے گا‘‘، بظاہر اس رائے میں بڑی اپیل ہے۔
پس اس سلسلے میں عرض ہے: نہ مالی صدقہ قربانی کا بدل ہے اور نہ دین کے فرائض وواجبات کو ساقط کرنے کا کسی کو اختیار ہے۔ وہ عبادات جو شریعت میں مقرر اور مشروع ہیں، وہ بجائے خود مقصود ہیں اور ان کو شارع کے حکم کے مطابق بجا لانا ضروری ہے۔ قربانی ہر صاحبِ نصاب بالغ مرد وعورت پر واجب ہے۔ قربانی کو واجب قرار دینے کے سلسلے میں ہماری دلیل اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے، (الکوثر: 2)‘‘، لہٰذا قربانی لازم ہے اور مالی صدقہ اس کا مُتبادل نہیں ہوسکتا۔ قربانی، جسے عربی میں ’’اُضْحِیَہ‘‘ کہتے ہیں، گوشت پوست کے حصول کا نام نہیں ہے، بلکہ اس کی حقیقت اور روح ایامِ قربانی میں عبادت اور تقرُّب الٰہی کی نیت سے شریعت کی مقررہ شرائط کے مطابق حلال جانور ذبح کرنے کا نام ہے، حدیث پاک میں ہے: ’’سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’قربانی کے دن بنی آدم کا کوئی بھی عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں (قربانی کی نیت سے) جانور کا خون بہانے (اِِھْرَاقُ الدَّم یا اِرَاقۃُ الدّم) سے زیادہ محبوب نہیں ہے اور یہ (قربانی کا جانور) قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں سمیت (یعنی سالم وجود کے ساتھ) آئے گا اور (قربانی کے جانور کا خون) یقینا زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں مرتبۂ قبولیت کو پالیتا ہے، سو (اے اہلِ ایمان !) تم خوش دلی سے قربانی کیا کرو، (سُنن ترمذی)‘‘۔
اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ قربانی کی حقیقت اور اصل عبادت ’’اِھراقُ الدَّم‘‘ یا ’’اِرَاقۃُ الدَّم‘‘ ہے، اس کے معنی ہیں: خون بہانا، یعنی شرعی شرائط کے مطابق ذبح کرنا، جو خون بہانے کا سبب ہے‘‘۔ اس حکمت کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بیان فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان (قربانی کے جانوروں) کا نہ گوشت پہنچتا ہے اور نہ اُن کا خون، بلکہ تمہارا (فعلِ قربانی سے حاصل ہونے والا) تقویٰ اللہ کی بارگاہ میں پہنچتا ہے، (الحج: 37)‘‘، ہاں! اپنے وطن کے مصیبت زدہ بھائیوں کی اپنی بساط کے مطابق ہرممکن مدد کرنا بھی ہمارے دین اور ایمان کا تقاضا ہے اور پوری قوم کو اس ذمے داری سے عُہدہ برا ہونا چاہیے۔
سیدنا ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جو مالی استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرے، تو وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے، (ابن ماجہ)‘‘۔ قربانی نہ کرنے پر وعید کا تقاضا ہے کہ قربانی واجب ہے، (۲) ’’سیدنا جندب بن سفیانؓ بیان کرتے ہیں: میں عید الاضحیٰ کے دن رسول اللہؐ کے ساتھ تھا، جب آپؐ لوگوں کو نماز پڑھا کر فارغ ہوئے، آپؐ نے ذبح کی ہوئی بکری کو دیکھا تو فرمایا: جس شخص نے نماز سے پہلے قربانی کی ہے، وہ اِس کی جگہ دوسری بکری کو ذبح کرے اور جس نے ابھی تک ذبح نہیں کیا، وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کرے، (صحیح مسلم)‘‘۔
آیت و احادیث مبارکہ میں قربانی کا امر ہے اور امر وجوب کے لیے ہوتا ہے۔ جس حدیث میں رسول اللہؐ نے قربانی کو سیدنا ابراہیمؑ کی سنّت فرمایا ہے، (ابن ماجہ)، اُس سے مراد یہ ہے کہ قربانی دین میں سیدنا ابراہیمؑ کا جاری کردہ طریقہ ہے اور اس سے وجوب کی نفی نہیں ہوتی۔
علامہ برہان الدین علی المرغینانی لکھتے ہیں: ’’امام احمد بن محمد قدوری نے کہا: ’’ہر آزاد، مسلمان، مقیم، مالدار پر ایّامِ قربانی (10 تا 12ذوالحجہ) میں اپنی طرف سے اور اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے قربانی کرنا واجب ہے، امام ابوحنیفہ، امام محمد، امام زفر، امام حسن اور ایک روایت میں امام ابو یوسف کے نزدیک قربانی واجب ہے، (ہدایہ)‘‘۔ ’’ظاہر الروایۃ‘‘ کے مطابق نابالغ پر قربانی واجب نہیں ہے۔
علامہ علا الدین حصکفی لکھتے ہیں: ’’ہر آزاد مقیم مالدار مسلمان پر اپنی طرف سے قربانی واجب ہے، (حنفی مذہب کی) ’’ظاہرالروایۃ‘‘ کے مطابق نابالغ بچے کی جانب سے قربانی واجب نہیں ہے، البتہ نابالغ کا فطرہ واجب ہے‘‘، اس کی شرح میں علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ’’ظاہر الروایۃ‘‘ کے مطابق نابالغ کے لیے قربانی واجب نہیں، بلکہ مستحب ہے البتہ صدقۂ فطر واجب ہے، امام حسن کی روایت کے مطابق اپنی نابالغ اولاد اور یتیم پوتے پوتی کی قربانی واجب ہے، مگر فتویٰ ’’ظاہر الروایۃ‘‘ پر ہے اور اگر کوئی شخص اپنی بالغ اولاد اور بیوی کی جانب سے قربانی کرے تو ان کی اجازت لے کر کرے، ایک روایت کے مطابق اگر بلا اجازت بھی کردی تو استحساناً جائز ہے، (ردالمحتار)‘‘۔
فقہائے مالکیہ میں متقدمین قربانی کے وجوب کے قائل ہیں اور متاخرین کے نزدیک سنتِ مؤکدہ ہے۔ حنابلہ اور شافعیہ کے نزدیک قربانی سنتِ مؤکدہ ہے۔ شخصِ مذکور کا یہ کہنا بھی غلط ہے: ’’علماء نے فتویٰ دیا ہے کہ لوگ حج وعمرہ کے بجائے یہ رقم سیلاب زدگان پر خرچ کریں تو انہیں کئی حج اور عمروںکا ثواب ملے گا‘‘۔ دراصل اُس شخص نے علماء کے موقف کو صحیح نہیں سمجھا، علماء کا بیان یہ تھا: ’’فرض حج تو کسی طور پر بھی ساقط نہیں ہوتا، البتہ نفلی حج کو مؤخر کرکے یہ رقم سیلاب زَدگان پر خرچ کی جاسکتی ہے، کیونکہ یہ اہلِ پاکستان پر ایک بہت بڑی آزمائش تھی اور عمرہ اپنی اصل کے اعتبار سے ہی ایک نفلی عبادت ہے، لیکن واجب قربانی کو نہ ترک کیا جاسکتا ہے اور نہ اس کے وجوب کو ساقط کیا جاسکتا ہے۔ البتہ مالی حیثیت والے لوگ اگر اپنے روزمرّہ کے مصارف یا تَعیُّشات میں کمی کرکے پس انداز کی ہوئی رقم سیلاب زَدگان کی مدد پر صرف کریں تو یہ اُن کی دینی اور اخلاقی ذمے داری بھی ہے اور اعلیٰ انسانی قدر ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور جو چیز لوگوں کو نفع دیتی ہے، اُسے زمین میں قرار ملتا ہے، (الرعد: 17)‘‘۔ رسول اللہؐ کا فرمان ہے: ’’بہترین انسان وہ ہے، جس کی ذات انسانیت کے لیے زیادہ نفع رساں ہو، (الجامع الکبیر)‘‘۔
قربانی بھی ضرورت مند انسانوں کی خدمت کا ایک ذریعہ ہے۔ مویشی پالنے والے لوگ سال بھر اِسی آس پر جانور پالتے ہیں کہ ایامِ قربانی میں اُنہیں فروخت کرکے اپنی سال بھر کی ضروریات پوری کریں گے۔ قربانی کے گوشت سے بھی غریبوں اور ناداروں کی مدد کی جاتی ہے اور کھال بھی ناداروں کی مدد کا ایک ذریعہ ہے، نیز قربانی اسلام کا ایک شِعار ہے، سیدنا ابراہیم واسماعیلؑ اور امام الانبیاء محمد رسول اللہؐ کی سنّت ِ جلیلہ ہے اور اس کی بے شمار شرعی حکمتیںاور برکات ہیں۔
ایسا شخص جو قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، وہ یکم ذو الحجہ سے قربانی کرنے تک نہ ناخن کاٹے اور نہ بال کٹوائے، اِس حکم پر عمل کرے تو بہتر ہے، نہ کرے تو مضائقہ نہیں، حدیث ِ پاک میں ہے: ’’سیدہ اُمّ سلمہؓ بیان کرتی ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: جس نے ذی الحجہ کا چاند دیکھ لیا اور وہ قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، تو جب تک قربانی نہ کرلے، بال اور ناخنوں سے کچھ نہ لے یعنی اِنہیں نہ ترشوائے، (سُنن ترمذی)‘‘۔ احادیث مبارکہ میں طہارت ونظافت کے احکام میں ناخن تراشنے، مونچھیں پست کرانے اور بغل وزیرِ ناف بال دور کرنے کے لیے جو انتہائی مدت بیان کی گئی ہے، وہ چالیس روز ہے، اِس سے زائد مدت تک چھوڑے رکھنا ممنوع ومکروہ ہے، حدیث پاک میں ہے: ’’سیدنا انسؓ بیان کرتے ہیں: مونچھیں کاٹنے، ناخن ترشوانے، بغل کے بال لینے اور زیرِ ناف بال دور کرنے کے لیے یہ میعاد مقرر کی گئی کہ چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑیں، (مسلم)‘‘۔
احمد رضا قادری قُدِسَ سِرُّہ العزیز لکھتے ہیں: ’’اگر کسی شخص نے ۳۱ دن سے کسی عذر کے سبب، خواہ بلاعذر، ناخن نہ تراشے ہوں نہ خط بنوایا ہوکہ ذی الحجہ کا چاند ہوگیا، تو وہ اگرچہ قربانی کا ارادہ رکھتا ہو، اس مستحب پرعمل نہیں کرسکتا کہ اب دسویں تک رکھے گا تو ناخن وخط بنوائے ہوئے اکتالیسواں دن ہوجائے گا اور چالیس دن سے زیادہ نہ بنوانا گناہ ہے، فعل مستحب کے لیے گناہ نہیں کرسکتا۔ ردالمحتار، شرح منیہ اور مضمرات میں عشرۂ ذوالحجہ میں ناخن کاٹنے اور سرمنڈانے کی بابت ابن مبارک نے کہا: سنّت کو مؤخر نہ کیا جائے، جبکہ اس کی بابت حکم وارد ہے، تاہم تاخیر واجب نہیں ہے، پس یہ بالاجماع مستحب پر محمول ہے اور وجوب کی نفی استحباب کے منافی نہیں ہے، لہٰذا مستحب ہے، سوائے اس کے کہ اباحت کی مدت (واجب میں) تاخیر کو مستلزم ہو تو مستحب نہ ہوگا، اباحت کی مدت کی انتہا چالیس دن ہے، تو اس سے زیادہ تاخیر مباح نہ ہوگی، واللہ اعلم بالصواب، (فتاویٰ رضویہ)‘‘۔
اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ عشرۂ ذوالحجہ کے دس دن تک ناخن نہ کاٹنے اور بال نہ تراشنے کی صورت میں ناخن اور بال چھوڑے ہوئے چالیس دن سے زیادہ ہورہے ہوں، تو پھر ان دنوں میں بھی ناخن کاٹ لے اور بال تراش لے، کیونکہ عشرۂ ذوالحجہ میں ناخن نہ کاٹنا اور بال نہ تراشنا مستحب ہے، جبکہ چالیس دن سے متجاوز ان کو چھوڑنے سے ترکِ واجب لازم آتا ہے، تو واجب پر عمل کرنے سے اگر مستحب کا ترک لازم آئے تو اس میں حرج نہیں ہے۔ پس افضل یہ ہے کہ جو مسلمان قربانی کا ارادہ رکھتے ہیں، وہ ذی الحجہ کے چاند سے ایک دودن پہلے ناخن کاٹ لیں اور بڑھی ہوئی مونچھیں تراش لیں تاکہ مستحب پر عمل کرنے میں ترکِ سنّت لازم نہ آئے۔