صرف پانچ جولائی یوم سیاہ کیوں؟

568

ہر سال پاکستان میں 5جولائی یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے اسے ہی پاکستان میں جمہوریت کے قتل کا دن قرار دیا جاتا ہے اور اس قدر تکرار ہوتی ہے کہ دائیں بائیں ہر بازو اور ہر خیال والے نے اسے ہی حرف آخرسمجھ لیا ہے ایسا سمجھنے والے تصحیح فرمالیں اگر 1977 کو بنیاد بناتے ہیں تو سیاہ ترین دن 7مارچ 1977 تھا جب عوام کے ووٹ پر بوٹ کی مدد سے ڈاکا ڈال کر جھرلو پھیرا گیا پورے ملک میں من پسند لوگ کامیاب قرار دیے گئے مختلف امیدواروں پر تشدد ان کا اغوا دلائی کیمپ ٹارچر وغیرہ سب ریکارڈ پر ہے۔ اس سارے ظلم کے خلاف احتجاج پر امن وامان کی آڑ میں جنرل ضیا نے مارشل لا لگایا تو اسے صرف جنرل ضیا الحق کا کارنامہ کیوں کہا گیا۔ یہ تو دوطرفہ کارنامہ تھا۔ ایک نے بنیاد فراہم کی دوسرے نے مارشل لا لگایا۔ کیا سبق ملا پولیٹیکل سائنس والوں کو پڑھانے کی ضرورت نہیں۔ یہ بات بھی بتانے کی ضرورت نہیں کہ 1970کے انتخابی نتائج کے مطابق بالا دست عوامی لیگ تھی اسے اقتدار نہیں دیا گیا۔ ٹانگیں توڑ دیں گے کس نے کہا۔ دوسری اکثریتی پارٹی کی اصطلاح کون سی پولیٹیکل سائنس ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جنرل ضیا کے دور کے سارے تحفے ہیں۔ ایسا نہیں ہے بلکہ برادری ازم بھٹو ازم میں تھی۔ غدار اور وفادار کا فیصلہ ان ہی کے ہاتھ میں تھا۔ خرابی کی جڑوں میں دیکھیں یہی ملیں گے۔ تو پھر شاخوں پر شریف، زرداری، الطاف، پنجابی، پختون، سندھی، مہاجر ہی ملیں گے۔ ان سے پہلے ایوب خان نے لسانیت کی بنیاد رکھی۔ پھر 1988میں اسی اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے پانچ جولائی منانے والی پیپلز پارٹی نے بڑے مزے سے اقتدار لیا وہ سندھی قوم پرست نہ قرار پائی، 90میں نواز شریف نے سیٹنگ کرلی تو پنجابی سامراج کہلایا پھر باریاں لگیں سیاست رسوا ہوئی اور اب سارے کچرے کو ملاکر پی ٹی آئی بنائی گئی ایک پانچ جولائی کا کیا رونا۔
1956 میں دستور اسلامی کی مہم چلی قرارداد مقاصد منظور تو ہوگئی لیکن نافذ نہیں ہونے دی گئی، جسٹس منیر کا فیصلہ سیاہ ترین کیوں نہیں؟ نظریہ ضرورت کا موجد، پھر 8اکتوبر 1958پانچ جولائی 21 اکتوبر 99 سب سیاہ دن تھے سیاہ دن تو وہ تھا جب اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اسلامی نہیں بننے دیا گیا اب کسی کو بھی مسلمان نہیں ہونے دیا جائے گا، قانون تیار ہے سندھ میں ہندو راج کریں گے قبول اسلام کو جبر قرار دیا جائے گا، قبول اسلام کے بعد لڑکی کے نکاح پر پولیس کسی تصدیق سے قبل نکاح خواں گواہ اور دولہا کو پکڑ لیتی ہے اور آگے چلیں کراچی میں چھ ہزار ملازمتیں جعلی ڈومیسائل پر دینے کا انکشاف عدالت میں ہوگیا
یہ کیا ہے اقربا پروری لسانیت علاقائیت یا جمہوریت، پھر بھی صرف پانچ جولائی ہی کیوں یوم سیاہ ہے۔ کیا یوم سیاہ وہ نہیں جب 35 ہزار افراد کے قاتلوں کو وفاق نے حکومت میں شامل کرلیا۔ ان کے کھاتے میں تو 12مئی، بلدیہ ٹائون، بوری بند لاشیں، ٹارچر سیل سب کچھ ہے۔ یوم سیاہ وہ کیوں نہیں جب 5 اگست کے مودی کے اقدام پر پاکستان نے آدھے گھنٹے کی خاموشی سے جوابی حملہ کیا۔ یوم سیاہ وہ کیوں نہیں جب پاکستان آئی ایم ایف کے پاس گیا پورا ملک اس پانچ جولائی کا اسیر بنادیا گیا ہے۔ جلسے، جلوس، سیمینار، میڈیا میں گفتگو۔ مرکز میں پی پی برسراقتدار ہو تو ٹی وی چینلز کے لوگو سیاہ ہوجاتے ہیں۔ 16 دسمبر کو کبھی یوم سیاہ قرار نہیں دیا گیا۔ یہ دن تو صرف پاکستان جمہوریت یا ایک ملک کا سیاہ دن نہیں ہے بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے سیاہ دن ہے۔ اس ایک پانچ جولائی کے نام پر سارے سیاہ ایام کو سفید کردیا گیا۔ گویا منی لانڈرنگ کی طرح ڈے لانڈرنگ ہوگئی۔ کالے کرتوت صرف ایک پانچ جولائی کے پردے میں چلے گئے۔ کیا جولائی 2018ء کا وہ دن یوم سیاہ قرار دیا جاسکتا ہے جس دن پی ٹی آئی کی حکومت لاکر بسائی گئی تھی۔ اس پورے الیکشن کو کیا کہیں گے۔ وہ الیکشن بھی 5 جولائی 1977ء کی کارروائی جیسا تھا۔ اور ہاں پانچ جولائی والے لوگ تو بڑی خوبصورتی سے دوسری پارٹیوں کو مارشل لاء کی اے، بی، سی ٹیم قرار دیتے ہیں لیکن یاد کریں جنرل ایوب جس کے ’’ڈیڈی‘‘ تھے اسی کو وراثت میں حکومت دی۔ جئے بھٹو (اے ٹیم) جنرل ضیا گئے بے نظیر کو حکومت ملی (بی ٹیم) جنرل پرویز مشرف گئے آصف زرداری کو حکومت ملی (سی ٹیم) اب باجوہ صاحب اور خان جائیں گے تو بلاول کو حکومت ملے گی ( ڈی ٹیم) اب اور کیا چاہیے۔
ان سب باتوں سے قطع نظر جب جب ان سیاسی رہنمائوں کے ہاتھ میں اقتدار آیا انہوں نے جمہوریت کی مضبوطی اور استحکام کے لیے کیا کارنامہ کیا۔ ان تمام جمہوریت پسندوں نے ہمیشہ اپنا اقتدار مضبوط کیا۔ آمریت اور آمرانہ طرز کے سیاستدانوں میں صرف وردی کا فرق ہے۔ جرنیل وردی میں آمریت مسلط کرتا ہے، اور سیاستدان شیروانی اور کوٹ پینٹ پہن کر یہی کام کرتا ہے لیکن سیاہ ترین دن صرف 5 جولائی رہتا ہے۔ پانچ جولائی کی سیاہی کو اس کے وزن کے مطابق رہنے دیا جائے اور اصل سیاہی کو یاد کریں جب سود کے حق میں نواز شریف حکومت عدالت چلی گئی۔ اصل سیاہی یہی ہے۔ پھر شارٹ فال ہی ہوگا برکتیں نہیں آئیں گی، اگر ان تمام سیاہیوں کو دھونا ہے تو جس مقصد کے لیے پاکستان بنا تھا اس کی طرف لوٹنا ہوگا۔ نہیں لوٹے تو کوئی تو اٹھے گا، آپ اسے طالبان کا نام دیں، عوامی انقلاب کا یا پاکستانی بہار کا۔ لیکن ایک دن یہ روشن صبح طلوع ضرور ہوگی۔ ان شاء اللہ۔ بس دیکھنا یہی ہے کہ ہم اس کا مصداق بنتے ہیں کہ نہیں۔۔۔ کہ
وہ صبح ہمی سے آئے گی