جون میں گیس کا بحران، کیا یہ بھی مافیا ہے

284

وفاقی بجٹ کے فوراً بعد ملک میں بجلی، پیٹرول اور اب گیس کا بحران سر اُٹھا رہا ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ حکمرانوں کے پاس ہر مسئلے کے دو حل ہیں ایک پابندی اور دوسرے درآمد گیس کے معاملے میں فوری طور پر دونوں حل نافذ کردیے گئے ہیں۔ گیس کی بندش کے نتیجے میں بجلی بنانے والی کمپنیوں نے فرنس آئل کی ضرورت کا اظہار کیا ہے اور انہیں فوری طور پر فرنس آئل درآمد کرنے کی اجازت مل گئی۔ گزشتہ بحران میں بھی نجی پاور کمپنیوں کو فرنس آئل درآمد کرنے کی اجازت مل گئی تھی تاکہ وہ بجلی پیدا کرکے صارفین کو فراہمی برقرار رکھیں لیکن ان کمپنیوں نے کمال کردیا۔ فرنس آئل بھی درآمد کرلیا اور بجلی بھی پیدا نہیں کی۔ اس سلسلے میں کے الیکٹرک کا آڈٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ فرنس آئل درآمد کرکے بجلی کے نرخوں میں اس لیے اضافہ کردیا کہ فرنس آئل سے بجلی تیار کی جارہی ہے لیکن بجلی تیار ہوئی نہ فراہم کی گئی تو پھر فرنس آئل کہاں گیا؟ یہی حال پیٹرولیم مصنوعات کا بھی ہے۔ پاکستان میں عموماً سردیوں میں گیس کی شدید قلت ہوتی ہے اور اس کا سبب بھی ہے کہ اس موسم میں پورے ملک میں گیس کا استعمال بہت بڑھ جاتا ہے لیکن مئی‘ جون کے مہینے میں گیس کی اس قدر شدید قلت سمجھ سے بالاتر ہے۔ گیس کے ساتھ ساتھ پیٹرولیم ڈیلرز اور حکومت کے درمیان تنازع ہے جس کی وجہ سے پیٹرول کی فراہمی بھی متاثر ہو رہی ہے اور بجلی تو کھیل بنی ہوئی ہے۔ کوئی حکومت ہو‘ اس کے وزرا کا دعویٰ یہی ہوتا ہے کہ چند ماہ میں بجلی کی قلت پر قابو پا لیں گے۔ دو ماہ بعد بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کر دیں گے۔ وہ یہ بیانات سوچ سمجھ کر حساب کتاب سامنے رکھ کر دیتے ہیں۔ اکتوبر میں یہ بیان دینا کہ بجلی کی کمی پر جلد قابو پالیں گے۔ ’’لوڈ شیڈنگ دو ماہ میں ختم کردیں گے‘‘ کا مطلب یہ نہیں کہ حکومت کچھ کرے گی بلکہ دو ماہ بعد دسمبر شروع ہو جانے کی وجہ سے بجلی کا استعمال خود بہ خود کم ہو جاتا ہے اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی ضرورت نہیں رہتی۔ لیکن مئی جون میں گیس کی لوڈ شیڈنگ اور صنعتوں کی بندش سے ملک کو بڑا نقصان ہو رہا ہے۔ ایک روزہ بندش سے صرف کراچی میں 25 کروڑ روپے یومیہ کے حساب سے نقصان ہوتا ہے۔ کہا تو یہ گیا ہے کہ گھریلو صارفین کے لیے لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی لیکن یہ کون سے علاقے ہیں جہاں گیس چوری اور لیکج ہو رہی ہے اور وہاں سات گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ کا اعلان کیا گیا ہے۔ ایم ڈی سوئی سدرن گیس کارپوریشن نے دعویٰ کیا ہے کہ گیس چوری ہو رہی ہے لیکن وہ یہ بھی بتائیں کہ گیس چوری سوئی گیس کے عملے کے تعاون کے بغیر کیسے ممکن ہے؟ یہ وہی بہانے ہیں جو کے الیکٹرک کرتی رہی ہے جس کا اپنا عملہ بجلی چوری میں ملوث ہوتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان چینی‘ آٹا اور پیٹرولیم مافیا کے بعد گیس مافیا پر سے بھی پردہ اٹھائیں اور بتائیں کہ گیس مافیا کی قیادت کون کر رہا ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا ہی لگتا ہے کہ وزیراعظم درست کہہ رہے ہیں کہ ان کا مقابلہ مافیائوں سے ہے لیکن خرابی یہ ہے کہ وہ مافیائوں سے نمٹنے کے بجائے انہی کو ساتھ بیٹھا لیتے ہیں۔ اب اس امر پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ پی ٹی آئی اور حکومت کی صفوں میں کون سے نئے لوگ شامل ہو رہے ہیں‘ وہی گیس مافیا ہوں گے۔ گیس کمپنی کو چوری اور لیکج روکنا چاہیے‘ بندش کا نتیجہ تو نقصان ہی کی صورت میں ہوگا۔ دوسری طرف حکومت کو اپنی پالیسیوں کے بارے میں بھی غور کرنا چاہیے۔ صرف چند برس پیشتر یہ پالیسی تھی کہ لوگ اپنی گاڑیوں میں سی این جی لگوائیں تاکہ سبز انقلاب لایا جاسکے‘ دھوئیں سے نجات مل جائے اور ماحول صاف ستھرا ہو جائے۔ پیٹرول اور گیس کے نتیجے میں کثافت پھیلنے کی شکایت تھی۔ چنانچہ لوگوں نے اپنی گاڑیوں میں سی این جی کٹ لگوا لی۔ پاکستان جیسے ملک میں ہر فرد اتنے وسائل نہیں رکھتا کہ بیک و قت سی این جی اور پیٹرول کا نظام اپنی گاڑی میں لگوا کر رکھے۔ چنانچہ اکثریت نے صرف سی این جی کٹ لگوائی لیکن گیس کا بحران اس قدر گہرا ہوا کہ بہت سے لوگ سی این جی کٹ لگوا کر صرف پیٹرول پر واپس آگئے۔ اب ایک ایک ہفتے کے لیے سی این جی کی فراہمی بند کر کے لوگوں کی آمدورفت کا مسئلہ پیدا کر دیا گیا ہے۔ اس مافیا کو پہچاننا تو کوئی مشکل کام نہیں کیوں کہ دیکھنا یہ ہوگا کہ اس بحران کا فائدہ کس کو ہو رہا ہے۔ ادھر گیس کا بحران سامنے آیا ادھر سی این جی پر ہفتوں پابندی کا لازمی نتیجہ ٹرانسپورٹ کا مسئلہ ہے اور اس کا حل ویگنوں میں سفر ہے۔ تو سی این جی بندش سے ٹرانسپوٹرز خصوصاً ویگن مالکان کو فائدہ پہنچایا گیا ہے۔ عام آدمی پیدل تو جا نہیں سکتا اسے لازماً ویگن یا کسی دوسری ٹرانسپورٹ کی ضرورت پڑے گی اور رہی سہی کسر کسی بھی نام نہاد دہشت گردی کے نتیجے میں ڈبل سواری پر پابندی کے ذریعے پوری کر دی جائے گی۔ ایسا لگتا ہے کہ پورا ملک مافیائوں کے قبضے میں ہے۔ ایک مافیا اپنی مرضی کا حکمران مسلط کرتی ہے پھر اس کے سامنے مختلف مافیائوں کو کھڑا کرتی ہے اور دونوں کی لڑائی سے لطف اندوز ہوتی ہے پھر جب جی چاہتا ہے بساط لپیٹ دی جاتی ہے۔ ان سب سے نجات ہی ملک و قوم کے مفاد میں ہے۔ جب تک ان سے جان نہیں چھڑائی جائے گی پاکستان آگے نہیں بڑھ سکے گا۔