امریکا کی شکست اور نیا منظر نامہ

433

افغانستان کو سلطنتوں کا قبرستان کہا گیا ہے اور یہ بات غلط نہیں۔ سلطنت برطانیہ نے افغانستان کو فتح کرنے کی بڑی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہ ہوسکی اور اس کے سیکڑوں فوجی افغانستان میں رزق خاک ہوگئے۔ سوویت یونین وقت کی دو سپر پاورز میں سے ایک تھا وہ افغانستان میں آیا تو پاکستان میں سوویت یونین کے اتحادی کمیونسٹ کہا کرتے تھے کہ سوویت یونین کی تاریخ یہ ہے کہ وہ جہاں جاتا ہے وہاں سے واپس نہیں آتا۔ وہ یہ بات غلط نہیں کہتے تھے۔ سوویت یونین کی تاریخ واقعتا یہی تھی۔ اس نے اپنا کمیونسٹ انقلاب اسی طرح عالمگیر بنایا تھا۔ دوسری بات پاکستان کے کمیونسٹ یہ کہا کرتے تھے کہ سوویت یونین کا مقابلہ جو مجاہدین کررہے ہیں ان کی کوئی بساط ہی نہیں ہے۔ ان کے پاس 19 ویں صدی کے ہتھیار ہیں۔ وہ ان ہتھیاروں سے وقت کی سپر پاور کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔ مگر افغانستان میں ساری دنیا نے سوویت یونین کو ہزیمت سے دوچار ہوتے دیکھا۔ یہاں تک کہ سوویت یونین اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکا اور اس کا نظریہ اس طرح فنا ہوگیا جیسے دنیا میں اس کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔ لیکن افغانستان میں سوویت یونین کی شکست سے اسلام دشمن عناصر نے ایک نئی دلیل نکالی۔ انہوں نے کہا کہ سوویت یونین کی شکست اسلام اور مجاہدین کی فتح تھوڑی ہے۔ سوویت یونین کو امریکا کے اسلحے اور اس کے ڈالر نے شکست دی ہے۔ چناں چہ نائن الیون کے بعد جب امریکا افغانستان میں آیا تو کہنے والوں نے کہا کہ اب افغانستان میں وہی ہوگا جو امریکا چاہے گا۔ امریکا افغانستان میں تنہا نہیں آیا تھا چالیس سے زیادہ ملک اس کے ساتھ افغانستان میں آئے تھے۔ امریکا وقت کی واحد سپر پاور تھا اور اس کے خلاف مزاحمت کرنے والے مجاہدین کو نہ روس کی حمایت حاصل تھی، نہ چین ان کی سرپرستی کررہا تھا اور نہ عالم اسلام کی کوئی حکومت ان کے لیے کلمہ خیر کہنے کے لیے تیار تھی۔ امریکا اور مجاہدین کی طاقت میں انسانی تاریخ کا ہولناک ترین عدم توازن موجود تھا۔ سیاسی اعتبار سے امریکا اور طالبان کی طاقت میں ایک اور ایک لاکھ کی نسبت تھی۔ امریکا کی طاقت ایک لاکھ کے مساوی تھی اور طالبان کی طاقت ایک کے برابر۔ امریکا اور طالبان کی اقتصادی طاقت میں ایک اور ایک کروڑ کی نسبت تھی۔ طالبان کی طاقت ایک کی طاقت تھی اور امریکا کی طاقت ایک کروڑ کی طاقت تھی۔ امریکا اور طالبان کی عسکری طاقت میں ایک اور ایک ارب کی نسبت تھی۔ طالبان کی طاقت ایک کی طاقت تھی اور امریکا کی طاقت ایک ارب کی طاقت تھی۔ چنانچہ امریکا کو یقین تھا کہ وہ طالبان کو شکست سے دوچار کردے گا مگر طالبان کہا کرتے تھے کہ امریکا کے پاس گھڑی ہے اور ہمارے پاس وقت ہے اور طالبان غلط نہیں کہتے تھے۔ حالات نے بالآخر ان کے تجزیے کو درست ثابت کیا۔ افغانستان میں امریکا کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکا طالبان کو ختم کرنے آیا تھا مگر طالبان آج بھی زندہ ہیں بلکہ پہلے سے زیادہ توانا ہیں۔ امریکا افغانستان کو جعلی جمہوریت کا اسیر کرنے آیا تھا مگر امریکا کی جعلی جمہوریت کی کہیں اور کیا خود افغانستان میں کوئی ساکھ نہیں۔ امریکا نے افغانستان میں طالبان کے مقابل ایک بڑی فوج کھڑی کی مگر اس فوج کا یہ حال ہے کہ خود امریکی مبصرین کہہ رہے ہیں کہ امریکی انخلا کے بعد چھ ماہ میں کابل پر طالبان کا قبضہ ہوگا۔ امریکا نے ایک بڑی پولیس فورس کھڑی کی۔ مگر یہ ایک بے حوصلہ فورس ہے اور وہ طالبان کے مقابلے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ امریکا کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ امریکا نائن الیون کے بعد طالبان کو دہشت گرد اور وحشی قرار دیا کرتا تھا مگر افغانستان میں شکست کے بعد ’’مہذب امریکا‘‘ انہی طالبان سے مذاکرات کی بھیک مانگتا ہوا پایا گیا جنہیں وہ دہشت گرد اور وحشی کہا کرتا تھا۔ طالبان خود امریکا سے مذاکرات کے لیے تیار نہ تھے۔ چناں چہ امریکا نے پاکستان سے دبائو دلوا کر طالبان کو مذاکرات پر مجبور کیا۔ مذاکرات میں بھی طالبان نے کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ انہوں نے افغانستان میں امریکا کے پٹھوئوں کو مساوی الحیثیت طاقت تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے صرف دو فریق ہیں۔ ایک امریکا اور دوسرے طالبان۔ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی کوئی بساط ہی نہیں۔ اور امریکا کو طالبان کا یہ مطالبہ تسلیم کرنا پڑا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ امریکا آئندہ گیارہ ستمبر سے پہلے افغانستان سے اپنا انخلا مکمل کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی فطرت کے مطابق دوغلی پالیسی اختیار کرلی ہے۔ اس نے کہا ہے کہ وہ افغانستان سے اپنی فوج نکال لے گا مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اس کے 650 فوجی امریکی سفارت خانے کے تحفظ کے لیے افغانستان میں موجود رہیں گے۔ طالبان نے امریکا کے اس اعلان کو دوحا سمجھوتے کی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور انہوں نے کہا کہ وہ اس سلسلے میں شدید ردعمل ظاہر کرسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کے حکمران طبقے میں بھی ایک کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ ایک جانب پاکستان افغانستان سے امریکا کے انخلا کا خیر مقدم کررہا ہے۔ دوسری جانب وزیراعظم عمران خان کہہ رہے ہیں کہ اگر طالبان نے طاقت کے زور پر کابل پر کنٹرول حاصل کیا تو پاکستان اپنی سرحد بند کرسکتا ہے۔ عمران خان یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ افغانستان کے مسئلے کا حل یہ ہے کہ وہاں ایک قومی حکومت قائم کی جائے، لیکن بدقسمتی سے ان باتوں کی پشت پر کوئی اخلاقی طاقت اور کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ افغانستان طالبان کا داخلی معاملہ ہے۔ طالبان افغانستان میں 20 سال سے مزاحمت کررہے ہیں اور امریکا نے انہیں واحد مزاحمتی قوت تسلیم کرکے ہی ان کے ساتھ مذاکرات کیے ہیں۔ چناں چہ طالبان اگر طاقت کے زور پر کابل کا کنٹرول حاصل کرلیتے ہیں تو ایسا کرنا ان کا قانونی حق ہے اور پاکستان کے حکمرانوں کو اس پرکوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ جیسا کہ ظاہر ہے طالبان نے 20 سال تک امریکا کی مزاحمت اس لیے نہیں کی تھی کہ کل جب وہ امریکا کو شکست دے دیں گے تو پھر وہ افغانستان میں امریکی ایجنٹوں کو شریک اقتدار کرلیں گے بلکہ طالبان نے 20 سال تک اس لیے امریکا کی مزاحمت کی کہ جب امریکا شکست کھا کر افغانستان سے نکلے گا تو پورے افغانستان پر صرف طالبان کی حکومت ہوگی۔ جمہوری اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو قومی حکومت ایک بے معنی تصور ہے۔ پاکستان بدترین سیاسی انتشار کا شکار ہے۔ حکومت اور حزب اختلاف ہر سطح پر دشمنوں کی طرح ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔ چناں چہ عمران خان ایسا کیوں نہیں کرتے کہ وہ آگے بڑھیں اور نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مرکز میں ایک قومی حکومت بنا ڈالیں۔ بلکہ اس تجربے کو صوبوں میں بھی آزمایا جاسکتا ہے، مگر ہمیں معلوم ہے کہ عمران خان ہرگز بھی ایسا نہیں کریں گے۔ چناں چہ بہتر یہی ہے کہ عمران خان افغانستان میں قومی حکومت کے قیام کے مطالبے سے دستبردار ہوجائیں۔ افغانستان کل بھی طالبان کا تھا اور آج بھی وہی اس کے اصل وارث ہیں۔