وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ جو امیر ٹیکس نہیں دے گا وہ جیل جائے گا ہم ریاست مدینہ کی طرف جا رہے ہیں ، غریب کو اپنا گھر ملے گا اس کی آمدنی بڑھے گی ۔ ایف بی آر میں اصلاحات لا رہے ہیں ۔ وزیر خزانہ کا اعلان اس بھتا لینے والے کی طرح ہے جو کہتا ہے کہ بھتا دو ورنہ گولی کھائو ۔ دنیا بھر میں ٹیکس دہند گان کو اس قدراہمیت دی جاتی ہے کہ گویا کوئی وی آئی پی ہو ۔ امیروں سے ٹیکس وصول کرنا بھی حکومت ہی کا کام ہے لیکن دھمکیاں دے کر ٹیکس بڑھے گا نہیں مزید کم ہو گا ۔ ٹیکس جن لوگوں سے لیا جاتا ہے انہیں رعایتیں و آسانیاں دی جاتی ہیں لیکن ایف بی آر ہو یا ایف آئی اے اور نیب وغیرہ یہ ادارے ایک جیسے لگنے لگے ہیں ۔ ایف بی آر کو تو تاجر و صنعتکار اور ٹیکس گزار کا دوست ہونا چاہیے لیکن وزیر خزانہ کی بات سے تو لگتا ہے کہ یہ سیاسی بیان ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اسی قسم کا نعرہ لگایا تھا اس کا تاثر یہ تھا کہ امیروں سے لے کر غریبوں میں تقسیم کیا جائے گا ۔ یہاں بھی وزیر خزانہ ایسا ہی تاثر دے رہے ہیں لیکن اگر امیر جیل چلے گئے تو ٹیکس کون دے گا ۔یہ ٹیکس لینے کا طریقہ نہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ریاست مدینہ کی طرف کیسے جا رہے ہیں اس میں تو جبری ٹیکس نہیں تھے ۔ دھمکی دے کر ٹیکس نہیں مانگے جاتے تھے ۔ ہاں زکوٰۃکا انکار کرنے پر ریاست مدینہ نے کارروائی کی تھی ۔ سود سے جان چھڑائی تھی اور عمران خان کی ریاست مدینہ میں سود بنیادی چیز ہے ۔ اسپیکر صاحب اب بھی سود کے خاتمے کے لیے مذاکرات کی بات کر رہے ہیں ۔ سود کا خاتمہ مذاکرات نہیں فیصلے سے ہو گا ۔ ساری باتیں قرآن نے واضح کر دی ہیں ۔ مذاکرات کے نام پر وقت ضائع نہ کیا جائے ۔