ٹیکس یا بھتا

454

وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ جو امیر ٹیکس نہیں دے گا وہ جیل جائے گا ہم ریاست مدینہ کی طرف جا رہے ہیں ، غریب کو اپنا گھر ملے گا اس کی آمدنی بڑھے گی ۔ ایف بی آر میں اصلاحات لا رہے ہیں ۔ وزیر خزانہ کا اعلان اس بھتا لینے والے کی طرح ہے جو کہتا ہے کہ بھتا دو ورنہ گولی کھائو ۔ دنیا بھر میں ٹیکس دہند گان کو اس قدراہمیت دی جاتی ہے کہ گویا کوئی وی آئی پی ہو ۔ امیروں سے ٹیکس وصول کرنا بھی حکومت ہی کا کام ہے لیکن دھمکیاں دے کر ٹیکس بڑھے گا نہیں مزید کم ہو گا ۔ ٹیکس جن لوگوں سے لیا جاتا ہے انہیں رعایتیں و آسانیاں دی جاتی ہیں لیکن ایف بی آر ہو یا ایف آئی اے اور نیب وغیرہ یہ ادارے ایک جیسے لگنے لگے ہیں ۔ ایف بی آر کو تو تاجر و صنعتکار اور ٹیکس گزار کا دوست ہونا چاہیے لیکن وزیر خزانہ کی بات سے تو لگتا ہے کہ یہ سیاسی بیان ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اسی قسم کا نعرہ لگایا تھا اس کا تاثر یہ تھا کہ امیروں سے لے کر غریبوں میں تقسیم کیا جائے گا ۔ یہاں بھی وزیر خزانہ ایسا ہی تاثر دے رہے ہیں لیکن اگر امیر جیل چلے گئے تو ٹیکس کون دے گا ۔یہ ٹیکس لینے کا طریقہ نہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ریاست مدینہ کی طرف کیسے جا رہے ہیں اس میں تو جبری ٹیکس نہیں تھے ۔ دھمکی دے کر ٹیکس نہیں مانگے جاتے تھے ۔ ہاں زکوٰۃکا انکار کرنے پر ریاست مدینہ نے کارروائی کی تھی ۔ سود سے جان چھڑائی تھی اور عمران خان کی ریاست مدینہ میں سود بنیادی چیز ہے ۔ اسپیکر صاحب اب بھی سود کے خاتمے کے لیے مذاکرات کی بات کر رہے ہیں ۔ سود کا خاتمہ مذاکرات نہیں فیصلے سے ہو گا ۔ ساری باتیں قرآن نے واضح کر دی ہیں ۔ مذاکرات کے نام پر وقت ضائع نہ کیا جائے ۔