ایف اے ٹی ایف کا عالمی کھیل

455

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) نے اپنے لائحہ عمل کے بارے میں پاکستان کی جانب سے پیش رفت کا اعتراف کیا ہے۔ وفاقی وزارتِ خزانہ نے بھی اس پر اطمینان ظاہر کیا ہے۔ اس اہم معاملے پر ایف اے ٹی ایف کے سربراہ کی جانب سے بیان جاری کیا گیا ہے کہ پاکستان آخری ہدف کے حصول تک گرے لسٹ میں رہے گا۔ یہ بیان پاکستان کی جانب سے کی گئی مثبت پیش رفت کے اعتراف کے بعد اب حیران کن اور کسی بڑے اور اہم کھیل کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ پاکستان کا نام بدستور گرے لسٹ میں رکھنا عالمی معیشت اور سیاست پر نظر رکھنے والوں کے لیے بھی حیرت کا باعث ہے۔ اس کھیل اور لٹکتی تلوار کا پس منظر یہ ہے کہ2018ء میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کیا تھا۔ اس فہرست میں اْن ممالک کو شامل کیا جاتا ہے جو مغرب کی تعریف کے مطابق منی لانڈرنگ، اور ’’دہشت گردی‘‘ کے لیے مالی معاونت کی فراہمی روکنے کے لیے مناسب اقدامات کرنے میں ناکام رہے ہوں۔ اکتوبر 2020ء میں ہونے والے اجلاس میں ایف اے ٹی ایف نے 6 سفارشات پر عمل درآمد کو غیر اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے چار ایسے شعبوں کی نشاندہی کی تھی جن میں مزید کام درکار تھا، اور اس کے لیے پاکستان کو فروری 2021ء تک کا اضافی وقت فراہم دیا گیا تھا، جس کے بعد فروری 2021ء کے اجلاس میں ادارے نے تین سفارشات پر کام کرنے کو کہا تھا۔ ایف اے ٹی ایف کے سربراہ کے مطابق پاکستان دہشت گرد تنظیموں کے سینئر کمانڈروں کو سزائیں دینے کا ہدف پورا کرے، اور پاکستان کو نئے ایکشن پلان پر عمل درآمد کرنا ہوگا، انویسٹی گیشن کے طریقہ کار میں بہتری لانا ہوگی اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والوں کی چھان بین بھی کرنا ہوگی۔ جواب میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی ایک بیان میں کہا کہ اس بات کا تعین کرنا ہوگا کہ ایف اے ٹی ایف ایک تکنیکی فورم ہے یا سیاسی؟ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ اس فورم کو سیاسی مقاصد کے لیے تو استعمال نہیں کیا جارہا؟ انہوں نے کہا کہ جہاں تک تکنیکی پہلوئوں کا تعلق ہے تو ہمیں 27 نکات دیے گئے، اور وہ خود تسلیم کررہے ہیں کہ 27 میں سے 26 نکات پر ہم نے مکمل عمل درآمد کرلیا ہے، 27ویں نکتے پر بھی بہت حد تک پیش رفت ہوچکی ہے اور مزید کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’’میری نظر میں ایسی صورتِ حال میں پاکستان کو گرے لسٹ میں رہنے اور رکھنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی‘‘۔ وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ ’’بعض قوتیں چاہتی ہیں کہ پاکستان کے سر پر تلوار لٹکتی رہے، میں یہ بھی واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہم نے جو بھی اقدامات کیے وہ اپنے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیے۔‘‘ وزیر خارجہ کا بیان درست اور اپنے مؤقف کا بروقت اظہار اور ردعمل ہے۔
اب یہ بات عیاں ہوتی جارہی ہے کہ بھارت ایف اے ٹی ایف کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے جس کی اجازت نہیں ملنی چاہیے۔ دیکھتے ہیں پلیمنری اجلاس میں کیا فیصلہ ہوتا ہے! پاکستان کو مزید گرے لسٹ میں رکھنا نامناسب ہوگا۔
وزیر خارجہ کہتے ہیں کہ پاکستان نے عالمی رائے اور قومی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے اہم فیصلے کیے، دیگر ممالک کو اعتماد میں لیا، جو قانون سازی درکار تھی وہ ہم نے کی۔ پاکستان نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے، گرے لسٹ کا تحفہ ہمیں ورثے میں ملا، ہماری حکومت آنے سے پہلے پاکستان گرے لسٹ میں جا چکا تھا، ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ پاکستان نے ایکشن پلان کے 27 میں سے 26نکات پر عمل درآمد کرلیا ہے۔ ایف اے ٹی ایف اور دنیا نے پاکستان کی کارکردگی کو سراہا ہے، امید کی جاسکتی ہے کہ پاکستان گرے لسٹ سے باہر نکل آئے گا، تاہم گرے لسٹ سے نکلنے کا کچھ سفر ابھی باقی ہے، اگلے تین چار ماہ بہت اہم ہیں، اور پاکستان نے بھی یقین دہانی کرائی ہے کہ 27 ویں نکتے کے آخری نکات پر عمل درآمد کرلیا جائے گا۔ اب جب کہ ایف اے ٹی ایف نے بھی وقت کا تعین کردیا ہے کہ نئے ایکشن پلان پر دو سال کے بجائے ایک سال میں عمل درآمد کیا جائے، یوں یہ سال ہمارے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان کو پہلے 82 نکات دیے گئے تھے، ان میں سے 75 نکات پر مکمل عمل درآمد کیا گیا۔ اب پاکستان کو 7 نکاتی نیا ایکشن پلان دیا گیا ہے۔ یہ نیا ایکشن پلان انسدادِ منی لانڈرنگ سے متعلق ہے، لیکن پاکستان نے جس طرح ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر عمل کیا ہے اس کے بعد گرے لسٹ میں رہنے سے پاکستان پر کسی قسم کی پابندیاں عائد نہیں ہونی چاہئیں۔
حالیہ فیصلے اور نیا ایکشن پلان دیے جانے کے بعد ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ ایف اے ٹی ایف ملک کی نظریاتی اور معاشی خودمختاری پر کنٹرول چاہتا ہے، 27میں سے 26شرائط پر عمل درآمد کے باوجود پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھنے سے ادارے کے عزائم واضح ہوگئے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ حکمران ہوش کے ناخن لیں اور اپنا قبلہ درست کریں۔