سب کے ڈیڈی

373

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
’’ڈیڈی کیا حال ہیں آپ کے۔ سب خیریت تو ہے‘‘۔
’’وعلیکم السلام۔ الحمدللہ ظفر بھائی۔ سب خیریت ہے۔ آپ کیسے ہیں‘‘۔
’’آپ بزرگوں کی دعاؤں سے ٹھیک ہوں‘‘۔
’’بزرگ ہوں گے آپ۔ ہم تو ابھی جوان ہیں‘‘۔
اور تہتر سال کے ڈیڈی کی اس بات سے ہمارے اندر بھی جوانی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔
یہ وہ مکالمے ہیں جو اکثر ہمارے اور ڈیڈی کے درمیان ہماری مسجد میں ہوتے رہتے ہیں ہمارا تعلق تو اس مسجد سے 67 سے قائم ہے۔ لیکن ڈیڈی کا تعلق اس سے بھی زیادہ پرانا ہے ہم جب بھی مسجد جاتے ہیں تو ایک ہنستا مسکراتا چہرہ اس پر سفید ڈاڑھی نور بکھیرتی ہوئی نظر آتی ہے تہتر سال کی عمر میں نوجوانوں کی سی پھرتی کے ساتھ ہر وقت مسجد کے کسی نہ کسی کام میں مصروف عمل پائے جاتے ہیں۔ ان کا نام تو ہے ممتاز احمد فریدی۔ لیکن نہ صرف مسجد کے تمام لوگ بلکہ تمام اہل محلہ ہر بچہ بوڑھا جوان عورت مرد سب ہی ان کو ڈیڈی کے نام سے یاد کرتے ہیں یہ جگت ڈیڈی ہیں۔ ہم نے سوچا کہ ان سے تفصیلی تعارف حاصل کیا جائے رمضان کا مہینہ تھا اور آخری عشرہ چل رہا تھا اور ڈیڈی حسب معمول اعتکاف میں بیٹھے تھے۔ گزشتہ بیس بائیس سال سے ڈیڈی مسلسل اعتکاف کررہے ہیں۔ آپ کے لیے مسجد کا حجرہ نمبر1 مخصوص ہے۔ ہم نے انہیں ظہر اور عصر کے درمیانی وقفے میں جا پکڑا جب کہ ڈیڈی قیلولہ کر رہے تھے۔ ہم ان کے آرام میں مخل ہوئے اور ایک عدد انٹرویو کی درخواست کردی جسے ڈیڈی نے خندہ پیشانی سے قبول کرلیا۔ ہم نے پہلا سوال ہی چبھتا ہوا کیا کہ لوگ آپ کو ڈیڈی کیوں کہتے ہیں اور کب سے کہتے ہیں فرمانے لگے ہمارے بچوں کی ایک فوج ظفر موج ہے وہ صبح شام ہمیں انگلش میڈیم کی وجہ سے ڈیڈی کہتے ہیں۔ ان کے دیکھا دیکھی اور لوگوں نے بھی ڈیڈی کہنا شروع کردیا۔
ان کے والد انڈیا کے صوبے یوپی کے شہر بدایوں میں پیدا ہوئے۔ ڈیڈی البتہ کراچی کی پیداوار ہیں۔ 1962 سے عزیزآباد میں رہائش پزیر ہیں۔ اور جب ہی سے ہماری ایک مینارہ مسجد سے منسلک ہیں۔ ڈیڈی نے 19 سال دوحہ قطر میں بسلسلہ ملازمت گزارے۔ واپسی 1987 میں ہوئی۔ واپسی کے بعد آپ نے اپنا گتے بنانے کا کام شروع کیا جو تا حال جاری ہے۔ آپ کے والد کا نام آفتاب احمد فریدی ہے۔ والد بھی ہماری مسجد سے منسلک رہے اور اپنے انتقال تک مسجد کی ہر ممکن خدمت کرتے رہے۔
ڈیڈی نے بتایا کہ ہمارے دو بیٹے جہاد افغانستان اور جہاد کشمیر میں شہید ہو چکے ہیں لہٰذا ان کے سارے دوست احباب اور محلے والے ان کی جگہ ہمیں ڈیڈی کہنا شروع ہو گئے تاکہ ہمیں اپنے ان دو بیٹوں کی کمی محسوس نہ ہو اور ان کی یاد نہ ستائے ہمارے دو بیٹے تو شہید ہو کر اللہ کو پیارے ہوگئے لیکن اب محلے کے سارے نوجوان ہمارے بیٹے ہیں اور ہم سب کے ڈیڈی ہیں۔ اور یہ سلسلہ بیس بائیس سال سے جاری و ساری ہے۔
یوں تو الحمدللہ ہمارے سارے بچے دینی تعلیم سے بھی آراستہ ہیں کچھ عالم دین ہیں کچھ حافظ قرآن ہیں۔ بچیاں بھی عالمائیں ہیں۔ اللہ نے کل نو اولادوں سے نوازا۔ ایک بچہ بچپن میں ہی فوت ہو گیا تھا باقی آٹھ میں سے دو نوجوان بچے شہادت کے مرتبے پر فائز ہو چکے ہیں۔ ایک بیٹا محمد فواد فریدی جو عالم بھی تھا 22 سال کی عمر میں افغانستان کے شہر بامیان میں سرخ پہاڑ کے مقام پر 1998 میں شہید ہوا اور وہیں کہیں تدفین ہوئی یوں ایک اور گمنام قبر کا اضافہ ہوگیا۔
دوسرا بیٹا محمد فہد فریدی جو حافظ قرآن تھا اور جہادی نغمے بہت ہی خوبصورت آواز و انداز میں پڑھتا تھا۔ 2003 میں 27 سال کی عمر میں مقبوضہ کشمیر کے شہر پلوامہ میں شہید ہو ا۔ اور وہیں اس کی تدفین ہوئی۔ ہمیں تو بس ان دونوں کی شہادت کی اطلاع موصول ہوئی۔ جب مجاہدین مٹھائی اور ہار پھول لیکر ڈیڈی کے گھر آئے اور شہادت کی خوشخبری سنائی اور مبارک باد پیش کی۔ پورا محلہ نعرہ تکبیر۔ اللہ اکبر کی آوازوں سے گونج اٹھا۔
اتفاق سے کشمیر میں شہید ہونے والے فہد سے ہمارے بڑے بیٹے کی بھی بہت گہری دوستی تھی ہم نے بھی اس شہید کا اپنی مسجد میں دیدار کیا تھا۔ خوبصورت چہرہ۔ گھنگریالے بال زلفوں کی صورت میں لہراتے ہوئے۔ چہرے پر سنت رسول سجائے ہوئے اور آنکھوں میں کشمیر کی آزادی کے دیپ جلائے ہوئے۔ پرنور چہرہ دل میں شہادت کی تمنا لیے ہوئے۔ اس نوجوان سے آخری ملاقات ہمارے بیٹے نے کروائی۔ جس کے کچھ عرصے بعد ہی وہ شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگیا۔ اس کی شہادت کے بعد شہید کی والدہ نے ہمارے بیٹے کو اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا اور ہمیشہ اپنی دعاؤں میں یاد رکھا ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی ان کا انتقال ہوا ہے ان شاء اللہ جنتوں میں اپنے دونوں بیٹوں سے ملاقات ہوگئی ہوگی۔ یوں ڈیڈی کے چھ بچے حیات ہیں چار بیٹے اور دو بیٹیاں الحمدللہ دو بیٹوں کو چھوڑ کر سب شادی شدہ ہیں۔
ڈیڈی کا گتے بنانے اور ان کے ڈبے بنانے کا کارخانہ ہمارے محلے کے فیکٹری ایریا میں ہے۔ ڈیڈی نے اپنے کام سے فراغت کے بعد تقریباً تمام ہی وقت مسجد کے لیے وقف کر رکھا ہے وہ مسجد کمیٹی کے ایک بہت ہی فعال رکن ہیں۔ مسجد اور مدرسے کے جملہ امور کے علاوہ آپ ہر وقت ہر شخص کے لیے اور خصوصاً ضرورت مندوں کی مدد کے لیے کمر بستہ نظرآتے ہیں۔
ہمارا ان کے ساتھ کئی حوالوں سے تعلق ہے ایک حوالہ تو مسجد اور مدرسے کا ہے دوسرا حوالہ محلے داری کا ہے اور تیسرا حوالہ ہمارے بیٹے کا ہے جو ان کے شہید بیٹے کا دوست ہے۔ اس لیے ہمارے اور ان کے درمیان خلوص و محبت کے رشتے کے ساتھ ساتھ بے تکلف دوستی بھی ہے اور ہم میں اکثر ہنسی مذاق بھی ہوتا رہتا ہے۔ ان کی شخصیت کو دیکھ کر ہمیں بہت ہی رشک آتا ہے کہ دو جوان بیٹوں کی شہادت کے باوجود ان کا حوصلہ بھی جوان ہے اور موقع ملنے پر وہ ناصرف اپنے مزید بیٹوں کی بلکہ خود اپنی بھی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن سے ہمارا معاشرہ زندہ ہے ہماری غیرت زندہ ہے اور کشمیر اور فلسطین کی آزادی کی امید روشن ہے۔