نریندر مودی کا ایک اور ناکام ڈرامہ

247

بھارت کے انتہا پسند سوچ کے حامل وزیر اعظم نریندر مودی نے نئی دہلی میں جمعرات کے روز کل جماعتی مشاورتی کانفرنس کے نام سے ایک ڈھونگ رچایاجس کا مقصد عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنا اور جمہوریت پسند، انسانی حقوق اور انصاف کے علمبردار اقوام کو بیوقوف بنانا تھا۔ یہ عجیب کل جماعتی کانفرنس تھی جس میں کشمیری عوام کی حقیقی نمائندہ حریت کانفرنس کے رہنما گھروں میں نظر بند تھے یا جیلوں میں صعوبتیں برداشت کررہے تھے ، ان رہنمائوں کو کانفرنس میں مدعو تک نہیں کیا گیا تھا ایسی کانفرنسوں کے موقع پر ماحول کو ساز گار بنانے کے لیے عام طور پر مخالف سیاسی رہنمائوں اور متنازعہ خطہ کے عوام پر پابندیوں میں نرمی کی جاتی ہے مگر بھارتی وزیر اعظم کی زیر صدارت نئی دہلی میں ہونے والی اس کانفرنس کے دوران کشمیری عوام پر طویل عرصہ سے جاری مصائب میں مزید اضافہ کر دیا گیا۔ بھارتی فوجیوں نے مقبوضہ علاقے میں محاصرے اور تلاشی کی کارروائیاں تیز اور سخت کر دیں انٹرنیٹ سروس 48 گھنٹے کے لیے معطل کر دی گئی۔ قابض انتظامیہ نے بانہال سے بارہ مولا تک ٹرین سروس کی معطلی میں بھی 30 جون تک توسیع کر دی۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے قائدین اور دیگر حریت رہنمائوں نے اس کانفرنس سے متعلق رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے نئی دلی میں اپنے سابقہ حاشیہ برداروں کے ساتھ کل جماعتی اجلاس کے نام پر رچایا جانے والا ڈرامہ کشمیریوںکے زخموں پر نمک پاشی اور عالمی برادری کو گمراہ کرنے ایک کوشش ہے۔ مودی کشمیریوں سے غداری کی تاریخ دہرا رہے ہیں۔کشمیریوں کے حقیقی نمائندوں کی شرکت کے بغیر تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے کوئی بھی ملاقات یامذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتے۔ کشمیری عوام نریندرمودی پر بالکل بھی اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جنہوں نے کشمیر کو آئین، جھنڈے، شناخت اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر کے خود اپنے زر خریدوں کی تذلیل کی ہے۔اس یک طرفہ اور صرف بھارت نواز کٹھ پتلی کشمیری مدعوعین کی موجودگی کے باوجود یہ نام نہاد کل جماعتی کانفرنس بری طرح ناکام رہی ہے۔ کانفرنس میں بھارتی حکومت کے زیر اثر آٹھ جماعتوں کے کل 14 رہنمائوں نے شرکت کی جب کہ بھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول بھی اپنے وزیر اعظم کی مدد کے لیے موجود تھے۔ تاہم بھارتی وزیر اعظم نریند مودی بھارتی حکومت کے پروردہ رہنمائوں کو بھی اپنے موقف پر قائل کرنے میں قطعی ناکام رہے چنانچہ نسل در نسل بھارتی مقبوضہ کشمیر میں حکمرانی کرنے والے شیخ محمد عبداللہ کے خاندان کی تیسری نسل کے چشم و چراغ سابق وزیر اعلیٰ مقبوضہ کشمیر فاروق عبداللہ کے صاحبزادے عمر عبداللہ نے کانفرنس کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفت گو میں بتایا کہ ہم نے وزیر اعظم نریندر مودی پر واضح کر دیا ہے کہ کشمیری عوام کا بھارت کے ساتھ اعتماد کا رشتہ ٹوٹ چکا ہے کشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی تک ہماری لڑائی جاری رہے گی۔ ہم وادی میں انتخابات کے لیے نئی حلقہ بندیاں قبول نہیں کریں گے۔ عمر عبداللہ کا کہنا تھا کہ ہم نے کانفرنس میں پاکستان کے ساتھ بات چیت کا معاملہ بھی اٹھایا ہم دونوں ملکوں کے مابین مذاکرات کا خیر مقدم کریں گے کیوں کہ پاکستان ہمارا ہمسایہ ملک ہے اور دوست تو بدلے جا سکتے ہیں مگر ہمسائے بدلے نہیں جا سکتے۔ عمر عبداللہ نے مزید بتایا کہ کانفرنس میں وزیر اعظم مودی نے یقین دلایا کہ وہ انتخابات کے بعد کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کرنا چاہتے ہیں۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کی ایک اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کانفرنس میں شرکت کے بعد صحافیوں سے بات چیت کے دوران کہا کہ ہم نے مودی حکومت پر واضح کیا ہے کہ پانچ اگست 2019ء کو بھارتی آئین سے دفعہ 370 کا غیر قانونی طریقے سے خاتمہ کیا گیا ہم نے پاکستان کے ساتھ سیز فائر کو اچھا اقدام قرار دیا اور حکومت پر زور دیا کہ وہ پاکستان سے تجارت اوربات چیت کا آغاز کرے کیونکہ دونوں ملکوں کی تجارت سے کشمیر کے عوام کا روز گار وابستہ ہے اور اس سے کشمیری لوگوں کے معاشی حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ جموں و کشمیر اپنی پارٹی کے الطاف بخاری، کانگریسی رہنما غلام نبی آزاد اور کانفرنس میں شریک دیگر رہنمائوں نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا صرف ساڑھے تین گھنٹے جاری رہنے والی اس کل جماعتی کانفرنس میں اگر کشمیری عوام کے حقیقی نمائندے اور حق خودارادیت کے علم بردار تحریک حریت کے رہنما شریک ہوتے تو نریندر مودی کو نہ جانے کس قدر شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑتا اور شاید اسی سے محفوظ رہنے کے لیے مقبوضہ کشمیر کے عوام کے جذبات کی حقیقی ترجمان قیادت کو کانفرنس میں شریک نہیں کیا گیا مگر بھارتی حکومت کے پروردہ رہنمائوں نے بھی جس طرح نریندر مودی کو کھری کھری سنائی ہیں اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام میں بھارت کے خلاف کس قدر نفرت پائی جاتی ہے خاص طور پر پانچ اگست 2019ء کے اقدام اور اس کے بعد تقریباً دو سال سے مقبوضہ وادی میں کرفیو اور بھارتی فوج کے مسلسل محاصرے نے عام کشمیری کی زندگی کو جس قدر اجیرن بنا دیا ہے، اس کے بعد بھارت کے حامی کشمیری سیاست دانوں کے لئے مودی حکومت کے حق میں کلمہ خیر کہنا ممکن نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودوی کی جانب سے رچایا گیا کل جماعتی کانفرنس کا ڈرامہ بری طرح فلاپ ہو گیا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ایک جانب تو بھارت اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی روشنی میں کشمیری مسلمانوں کو حاصل حق خود ارادیت سے محروم کرنے کے لیے ہر ہر حربہ استعمال کر رہا ہے جب کہ دوسری جانب وطن عزیز کے سیاست دانوں کو اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کی خاطر باہم دست و گریبان ہونے سے فراغت نہیں بھارتی وزیر اعظم کے حالیہ کل جماعتی کانفرنس سے متعلق صرف جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کو رد عمل اور کھل کر اظہار خیال کی توفیق حاصل ہوئی ہے جنہوں نے منصورہ میں جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس کے موقع پر گفت گو کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی حقیقی قیادت اور وہاں کے عوام نے بھارتی دارالحکومت دہلی میں اسٹیج کیا گیا مودی حکومت کا تازہ ڈرامہ بھی مسترد کر دیا ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کی اولین ذمہ داری تھی کہ مودی کے 5 اگست 2019ء کے اقدام کے بعد کشمیریوں کے حق میں تمام قومی اوربین الاقوامی فورمز پر بھر پور آواز اٹھاتے۔ بیرون ملک پاکستانیوں کو متحرک کیا جاتا اور قومی قیادت اور تمام متعلقہ فریقین کی مدد سے کشمیر پر نیشنل ایکشن پلان تیار کیا جاتا مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں کیا گیا۔ کشمیری عوام مسلسل بھارتی ظلم و جبر کے سائے تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے کشمیری عوام اور حریت قیادت کو یقین دلایا کہ پاکستانی قوم اور جماعت اسلامی ان کے ساتھ کھڑی ہے اور کشمیریوں کی قربانیاں ضرور رنگ لائیں گی۔ جناب سراج الحق نے درست طور پر اپنے کشمیری بھائیوں کو یقین دہانی کرائی ہے کہ پاکستانی عوام اور جماعت اسلامی اپنے بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا کشمیر جسے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا، یہ شہ رگ صرف جماعت اسلامی کا مسئلہ اور ذمہ داری ہے، باقی چھوٹی بڑی اقتدار کی رسیا سیاسی جماعتوں کی وطن عزیز کی شہ رگ کے تحفظ اور اسے دشمن کے پنجہ سے آزاد کرانے کے ضمن میں کوئی ذمہ داری نہیں …؟؟؟