سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کے دست راست میاں طفیل محمد

504

سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان

.1957 ء میں اسلامیہ کالج کے طلبہ کا ایک وفد لےکر میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ سے ملاقات کے لیے پشاور کے سیٹھی محلے کے ایک مکان میں حاضر ہوا تھا۔ ہم نے مولانا محترم کی خدمت میں اپنے کچھ اشکالات رکھے جن میں ایک یہ تھاکہ اگر کسی منصب کے لیے امیدوار بننا درست نہیں ہے تو انتخابات میں جماعت اسلامی کا نامزد فرد عوام سے اپنے لیے ووٹ کیسے طلب کرے گا۔ مولانا محترم کا جواب تھاکہ جب جماعت اسے نامزد کردے گی تو اس کا فرض ہو جائے گا کہ وہ اپنے لیے ووٹ طلب کرے ۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت ہم نے اس بارے میں کچھ ضمنی سوالات اٹھائے تو میاں طفیل محمد صاحب بھی اس گفتگو میں شامل ہو گئے ۔ محترم میاں صاحب کے ساتھ ہماری یہ پہلی بالمشافہ گفتگو تھی ۔ اگرچہ غائبانہ شناسائی بچپن سے تھی کیونکہ میرے بڑے بھائی ڈاکٹر عتیق الرحمن صاحب اسلامی جمعیت طلبہ کے اس وقت رفیق بنے تھے جب وہ 1948 ء میں اسلامیہ کالج پشاور کے فرسٹ ایئر کے طالب علم تھے اور میں پرائمری سکول کی چوتھی کلاس کا طالب علم تھا۔
میاں طفیل محمد صاحب نے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل کے طور پر دور دراز کے تفصیلی دورے کیے ، جماعت کی تنظیم کا استحکام ان کا اصل کام تھا اور اس کے لیے ارکان جماعت سے انفرادی ملاقاتوں کا اہتمام ان کامعمول کا کام تھا۔ ان ملاقاتوں میں وہ جماعت کی دعوت کی توسیع اور اس کی مشکلات کا جائزہ لیا کرتے تھے اور یہ کام سارا سال ملکی دوروں میں جاری رہتاتھا ۔ میری ابتدائی ملاقاتیں میاں صاحب کے ساتھ انہی دوروں میں ہوئیں۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی زندگی میں میاں صاحب ان کے دست راست رہے اور جب امیر بنے تب بھی ہر کام میں مولانا سے مشورے کو ضروری سمجھتے تھے اور ہر شوریٰ اور عاملہ کے بعد جب کبھی کسی اہم مسئلے میں جماعت کی رائے بن جاتی تھی تو اعلان سے قبل ذمہ داران کا ایک وفد مولانا مودودی کی ملاقات کے لیے ان کے دفتر میں حاضر ہوتاتھا ۔ مولانا بالعموم جماعت کی اجتماعی رائے سے اتفاق کر لیا کرتے تھے ۔مولانا کی وفات کے بعد میاں طفیل محمد صاحب عیدین کے موقع پر مولانا کی اہلیہ کی خدمت میں عیدمبارک پیش کرنے کے لیے منصورہ سے اچھرہ جاتے رہتے تھے ۔ یہ ایک طرح سے اس قلبی عقیدت کے اظہار کا تسلسل تھا جو انہیں مولانا مودودی سے ہمیشہ کے لیے برقرار رہا اور جس کی وجہ سے مولانا کی اولاد بھی جماعت کے دوسرے لوگوں سے اختلاف کے باوجود میاں صاحب کا احترام کرتی رہی ۔
بھٹو صاحب کی حکومت میں میاں طفیل محمد صاحب پر تشدد کیاگیا۔ بھٹو صاحب منتقم مزاج شخص تھے ۔ اختلاف کو برداشت نہیں کرتے تھے او ران کے خیال میں جماعت اسلامی ان کے آمرانہ عزائم کے راستے میں بھاری پتھر تھا۔ وہ اپنے عزائم کے راستے کی ہر رکاوٹ کو جبر کے ہتھکنڈوں سے ہٹانے کے قائل تھے ۔ سیاسی جماعتوں کے جن کارکنوں کو شاہی قلعے میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا اس تشدد کے نشانات آج بھی ان کے جسموں پر موجود ہیں ۔ ان کے دور میں کارکنوں کے علاوہ لیڈروں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جن میں سرفہرست میاں طفیل محمد صاحب تھے اس کے باوجود میاں صاحب نے کبھی بھی ذاتی انتقام یا ذاتی تلخی کا اظہار نہیں کیا ۔ خاموش طبیعت کے مالک تھے ان کے ساتھ طویل رفاقت کے زمانے میں ہم نے ان سے سنجیدگی اور خاموشی کی تربیت ہی حاصل کی ۔جماعت اسلامی کے بعض لوگ ہر مجلس میں تنقید و محاسبہ کو لازمی سمجھتے ہیں ۔
میاں صاحب کو بھی عموماً اس کا سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن کبھی ناگواری کا اظہار نہیں کیا اور عموماً خاموشی سے بے جا تنقید کو بھی گوارا رکھا ۔ میاں طفیل محمد صاحب کے دور امارت کا اہم ترین باب افغانستان میں روسیوں کے خلاف مزاحمت کی تحریک ہے ۔ اگرچہ اس مزاحمت میں افغان مجاہدین کی حمایت کا بنیادی فیصلہ مولانا مودودی کا تھا۔ جب میں تحریک کے نوجوان رہنما انجینئر حبیب الرحمن شہید کو مولانا کے پاس لے گیا ان کی بات سننے کے بعد مولانا نے ان کی مدد کرنے کی ہدایت فرمائی ۔ میاں طفیل محمد صاحب مولانا کے انتہائی وفادار ساتھی تھے اور کچھ ذمہ داران جماعت کے خدشات کے باوجود انہوں نے مولانا کی ہدایات پر عمل کیا اور اپنے دورامارت میں افغان مسئلے میں کھل کر میری پشتیبانی کرتے رہے اور میرے اوپرمکمل اعتماد کیا ۔ اگرچہ اس وقت میں جماعت اسلامی پشاور کی مقامی جماعت کا امیر تھا لیکن افغان امور میں ہمیشہ انہوں نے میری رائے کو زیادہ اہمیت دی ۔اگر ان کی بھر پور تائید نہ ہوتی تو شایدافغانستان کی اسلامی تحریک کے رہنمائوں کی ہجرت اور اس کے بعد شروع ہونے والی عمومی ہجرت اور جہاد کی نوبت بھی نہ آتی ۔ میاں طفیل محمد صاحب ایک پرعزم اور بہادر آدمی تھے ۔ وہ اللہ کے سوا ہر خوف ، لالچ اور طمع سے آزاد تھے ۔ خوف اور طمع ہی کی وجہ سے انسان میں بزدلی پیدا ہوتی ہے اور اللہ نے انہیں دونوں ہی سے محفوظ و مستغنی رکھا ۔ میں نے بار بار انہیں چیلنجنگ مواقع پر دیکھاہے کہ ان کا چہرہ طمطما اٹھتا تھا ، وہ زیادہ پر عزم ہو جاتے تھے اور چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو جاتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ۔آمین ۔