عرب حکمرانوں کا مسلم امہ سے واسطہ ہے نہ وہ مسئلہ فلسطین کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہیں

318

کراچی (رپورٹ: محمد علی فاروق) عرب اسرئیل کی پشت پر امریکی طاقت سے خوف زدہ ہیں ، عربوںسے ہمیں زیادہ امیدیں نہیں رکھنی چاہیںوہ اس مسئلے کو اپنا مسئلہ نہیں سمجھتے، فی الوقت اکثر مسلم حکمران دینی حمیت اور ایمانی جذبے سے خالی ہیںعرب ریاستوںنے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے ، عربوں کا پیسہ اور وسائل مغر ب کے لیے ہیں ، عرب ریا ستیںامریکا کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتیںاور وہ حماس کو بھی ایک انتہاپسند دہشت گرد تنظیم تصور کرتی ہیں، عربوں کو دنیا کے عیش و عشرت سے محبت ہے اور اللہ کے راستے میں جان ومال سے جہاد کرنے سے خوفزدہ ہیں۔ ان خیالات کا اظہار سابق سفارت کار شمشاد احمد ، نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان اور سابق سینٹر پروفیسر محمد ابراہیم خان اور بین الاقوامی امور کے ماہر پروفیسر ڈاکٹرمونس احمر نے جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہی ۔ سابق سفارت کار شمشاد احمد نے کہا کہ عرب ریاستیں اپنے آپ کو عرب تسلیم کرتی ہیں مسلم امہ سے ان کا کوئی واسطہ نہیںہے، فلسطین پر اسرائیل نے قبضہ کیا ہوا ہے یہ اسلام اور دوسرے مذاہب کا مسئلہ ہو سکتا ہے عرب اس مسئلے کو اپنا مسئلہ نہیں سمجھتے عربوں میں اسلام کی حساسیت نہیں پائی جاتی ،دنیا میںامہ کا تصور ہمارے ہاں ہی پایا جاتا ہے، ہم نے دیکھا ہے کہ دنیا میں کہیں بھی اسلام کے نام پر امت اکھٹی نہیں ہوتی ہر کسی کے اپنے مفادات ہیں ،عربوں پر مغر ب کا غلبہ ہے ان کا تمام پیسہ مغرب میں ہی استعمال ہوتا ہے مسلم دنیا کے لیے ان کا پیسہ اور وسائل استعمال نہیں ہوتے ، عرب ممالک بنگلہ دیشی اور انڈین کو نوکریاں دیتے ہیںعرب ریاستوںنے اسرائیل کی ریاست کو تسلیم کر لیا ہے۔انہوں نے کہا کہ عربوں کا امت مسلم کے لیے منفی رویہ ہے ان کا بس چلے تو یہ دولت کی خاطر اپنے ملک کو ہی فروخت کر ڈالیں ،وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا مستقبل مغرب کے ساتھ ہے ،مسلمانوںکے مقدس مقامات عرب میں ہیں اس لیے ہماری کچھ ہمدردیاں وہاںسے وابسطہ ہیں عرب سے ہمیں زیادہ امیدیں نہیں رکھنی چاہیںاور نہ ہی ہمیں خطے کا چودھری بنا چاہیے،ہمیںصرف پاکستان کو بچانے کی جدوجہد کرنی ہے اس وقت ہمارا وجود ہی خطرے میں پڑا ہوا ہے ،چین کو ہماری ضرورت ہے اور ہمیںچین کی ضرورت ہے ہمارا مستقبل چین کے ساتھ ہے اور فی الوقت ہمیں اسی پر توجہ دینی چاہئے ۔ نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان اور سابق سینٹر پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا کہ اسرائیل کی پشت پر امریکی طاقت کے خوف سے عرب اور مسلمان حکمران اللہ کا حکم بجا لانے اور اہم ترین بنیادی دینی فریضہ جہاد کی انجام دہی پر عملدرآمدسے قاصر ہیںاس لیے ذلت ورسوائی ان کا مقدر بن چکی ہے۔ فی الوقت مسلمان حکمران دینی حمیت اور ایمانی جذبے سے خالی ہیں۔ اللہ پر توکل کرنے کے بجائے مادی وسائل پر ان کا بھروسا ہے۔ اس لیے اللہ کی نصرت سے محروم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بات صرف اسرائیل کے مذمت کرنے کی نہیں ہے بلکہ عرب ریاستوں میں بالخصوص مصر، اردن اور شام پر اسرائیل کے خلاف اعلان جہاد کرنا فرض عین ہے۔ دنیا کے عیش و عشرت سے ان کو محبت ہے اور اللہ کے راستے میں جان ومال سے جہاد کرنے سے وہ خوفزدہ ہیں۔ مسلمان عوام پر لازم ہے کہ وہ ان بے حمیت حکمرانوں کو اپنے کاندھوں سے اتار پھینکیں اور اپنا اقتدار باحمیت اور اللہ پر توکل رکھنے والے افراد کے ہاتھوں میں د ے دیں۔ بین الاقوامی امور کے ماہر پروفیسر ڈاکٹرمونس احمر نے کہا کہ اسرائیل نے غزہ پر جارحیت کی اور بڑی مشکل سے مصر کی جانب سے کچھ دباؤ کے نتیجے میں جنگ بندی کی گئی ،عرب ریا ستوں کو اسرائیل کی جارحیت پر مذمت کرنی چاہیے تھی ،عرب ریاستوں کی جانب سے سے غزہ پر اسرائیلی جارحیت پر مذمت نہ کرنے کی دو وجو ہات ہیں ،سب سے پہلی وجہ تو عرب کی بیشتر ریاستیں جس میں متحدہ عرب الامارات ، سوڈان ، مصر ، اردن ودیگر شامل ہیں انہوں نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہوا ہے جبکہ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ عرب ریاستیں سمجھتی ہیں کہ حماس ہمارے کنٹرول میں نہیں ہے بلکہ اسے ایران کنٹرول کرتا ہے، انہوںنے کہا کہ عرب ریا ستیںامریکا کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتیںاور وہ حماس کو بھی ایک انتہاپسند دہشت گرد تنظیم تصور کرتی ہیں ، عرب ریا ستوں کا یہ تاثر غلط ہے حالانکہ حماس اور اسرائیل کامقابلہ بنتا ہی نہیں ہے ، غزہ کے مظلوم عوام نے اسرائیل کے بہت مظالم سہے ہیں‘ اسرائیل آئے دن فلسطینیوںکو شہید کر رہا ہے ، حالیہ ہلاکتوں میں 90سے زائد معصوم بچے بھی شہید ہوئے تھے ، میڈیا ہاوسز کو بھی نشانہ بنا یا گیا ، اسرئیلی جارحیت پر عرب ریاستوںکی عوام نے بحرحا ل مذمت کی ہے۔