بجلی کی لوڈشیڈنگ اور انٹرنیٹ کی عدم دستیابی سے طلبہ و اساتذہ نفسیاتی مسائل کا شکار

744

کراچی(رپورٹ:حماد حسین)ملک میں آن لائن تعلیم کے لیے بنیادی ڈھانچہ اور امکانات ہر کسی کو دستیاب نہ ہونے سے اس طریقہ تعلیم سے بچوں کے ساتھ ساتھ اساتذہ میں بھی نفسیاتی مسائل پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ملک میں تقریباً ایک تہائی پاکستانیوں کے پاس انٹر نیٹ کی سہولت میسر نہیں اور جن کو میسر ہے ان کے لیے دیگر مسائل ، انٹر نیٹ کی اسپیڈ، لیپ ٹاپ ، کمپیوٹر یا موبائل فونز ، لوڈ شیڈنگ یا بجلی کی عدم دستیابی ۔ پھر ایسی صورت میں آن لائن تعلیم کیسے حاصل کی جاسکتی ہے۔بچوں کے دماغ کو ملنے والی معلومات کی ترجمانی کے لیے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے جو کہ اضافی ذہنی تھکاوٹ کا باعث بنتی ہے اور یہی ذہنی تھکاوٹ ان کے معمولات زندگی میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے جس کی وجہ سے طلبہ مختلف نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ان خیالات کا اظہار سندھ پروفیسرزلیکچررز ایسوسی ایشن کے رہنما سید منور عباس ،آئی بی پاس ہیڈ ماسٹر ایسوسی ایشن کراچی ریجن کے صدرکامران جعفری ،فیلکن اسکول کی پرنسپل سیما نوید اورسابق ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ سندھ گورنمٹ اسپتال ڈاکٹر شبانہ نے ’’جسار ت‘‘ کے سوال’’کورونا وبا کے باعث آن لائن کلاسز کے نتیجے میں بچے کس قسم کے نفسیاتی مسائل کا شکار ہورہے ہیں‘‘ کے جواب میں کیا۔سید منور عباس کا کہنا تھا کہ آپ کا آج کا سوال بہت ہی اہم ہے اور اس کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کو مزید دلچسپ بنانے کے لیے تھوڑا سا اضافہ کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔اس عالمی وبا کے باعث آن لائن کلاسز کے اجرا کے سلسلے میں صرف بچے ہی مختلف قسم کے نفسیانی مسائل کا شکار نہیں ہورہے ہیں بلکہ یقین مانیے اساتذہ بھی آن لائن کلاسز کے سبب مختلف نفسیاتی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں۔اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کووڈ 19نے پوری دنیا کو شدید ترین معاشی ، معاشرتی، دینی، اقتصادی ، حیاتیاتی مشکلات سے دوچار تو کر ہی دیا ہے مگر اس عالمی وبا نے جتنا نقصان تعلیمی شعبے کو پہنچایا ہے نہ اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کی تلافی ممکن ہے۔دنیا بھر کے حکمران عوام کو تحفظ کی خاطر جہاں لاک ڈاؤن میںلوگوں سے دور رہنے کی نئی اصطلاحیں دیں وہیں پر آن لائن کلاسز کی ٹرم نے بھی پوری شد و مد کے ساتھ اساتذہ ، طلبہ اور ان کے والدین کے کان بجائے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ جب ملک میں آن لائن تعلیم کے لیے بنیادی ڈھانچہ اور امکانات ہر کسی کو دستیاب نہ ہوں تو پھر اس طریقہ تعلیم سے نفسیاتی مسائل پیدا نہیں ہوں گے تو کیا ہوگا۔ ملک میں تقریباً ایک تہائی پاکستانیوں کے پاس انٹر نیٹ کی سہولت میسر نہیں اور جن کو میسر ہے ان کے لیے دیگر مسائل ، انٹر نیٹ کی اسپیڈ، لیپ ٹاپ ، کمپیوٹر یا موبائل فونز ، لوڈ شیڈنگ یا بجلی کی عدم دستیابی ۔ پھر ایسی صورت میں آن لائن تعلیم کیسے حاصل کی جاسکتی ہے۔ ملک میں ہر کسی کے لیے انٹرنیٹ کی دستیابی کی ضرورت کا معاملہ تو ایک طرف، پاکستان میں بہت سے شہریوں اور طلبہ و طالبات کے پاس کمپیوٹر یا اسمارٹ فون ہی نہیں ہے۔ والدین اور ان کے بچوں کا ایک اور اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ اکثر گھرانوں میں اسمارٹ فون تو ایک یا 2ہوتے ہیں مگر گھر بیٹھے آن لائن ایجوکیشن کے خواہش مند بچے زیادہ ہوتے ہیں جس کے سبب بھی نفسیاتی مسائل دیکھنے کو ملتے ہیں۔ نفسیاتی طور پر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ آن لائن کلاسوں میں بچے سوالات بہت ہی کم پوچھتے ہیں۔ جبکہ انٹرنیٹ کی کم رفتار مسئلہ بن جاتی ہے تو کہیں اساتذہ کی آواز بچوں تک نہیں پہنچ پاتی۔طلبہ کی جانب سے ایک اور شکایت یہ بھی کی جاتی ہے کہ ٹیچر تیز تیز پڑھا کر چلے جاتے ہیں جس کے سبب انہیں اکثر کچھ سمجھ نہیں آتا، تو ایسی صورتحال میں نفسیاتی طور پر یہ خدشہ بھی بالکل بجا ہے کہ اگر یہی صورت حال رہی، تو وہ امتحانات میں کس طرح کی کارکردگی کا مظاہرہ کرپائیں گے۔ اب اگر دوسری جانب اساتذہ کے نفسیاتی مسائل کا جائزہ لیا جائے تو اس عالمی وبا کے سبب یکدم آن لائن تعلیم پر دیے جانے والے زور نے بھی انہیں مختلف نفسیاتی مشکلات میں مبتلا کر دیا۔زیادہ تر ٹیچرز کو ٹیکنالوجی سے آگاہی نہ ہونے کی بنا پر نئی نسل کے ٹیکنالوجی کے ماہر طلبہ آن لائن کلاس میں انہیں عجیب طریقوں سے الجھا تے ہوئے نظر آئے۔ کبھی کوئی طالب علم ٹیچر کا مائیک میوٹ کر دیتا ہے تو کبھی آن لائن کلاس سے باہر کر دیتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ طلبہ ٹیچرز کو کمپوٹرز کے غلط بٹن دبانے کا مشورہ دے کر انہیں آن لائن کلاس سے ہی باہر کر دیتے ہیں۔ ایسے میں اساتذہ طلبہ کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں اور پڑھائی کا ماحول نہیں بن پاتا۔آئی بی پاس ہیڈ ماسٹر ایسوسی ایشن کراچی ریجن کے صدرکامران جعفری کا کہنا تھا کہ کورونا کی وبا پھیلنے سے بچوں کے لیے سوشل میڈیا اور اسکرین ٹائم محدود کرنے جیسی باتیں زیر بحث تھیں لیکن لاک ڈائون کی صورت میں جس فون اور لیپ ٹاپ سے والدین بچوں کو روکتے تھے آج خود ہی دیکھنے پر اصرار کررہے ہیں۔ جس سے ان کی ذہنی اور جسمانی صحت بھی متاثر ہورہی ہے۔ 2سے 4گھنٹے کی مستقل کلاس لینے کے بعد بچے وقت گزاری کے لیے لیپ ٹاپ پر ہی تفریح کا سامان ڈھونڈنے لگ گئے ہیں۔ جس سے ان میں سماجی فاصلہ بڑھتا جارہا ہے۔ مسلسل لیب ٹاپ اور موبائل فون کے استعمال سے بچوں کو نظر کے مسائل کے ساتھ ساتھ سر درد اور جسمانی تکالیف کا بھی سامنا ہے۔ طلبہ کے اپنے گھر والوں سے برتائو میں تبدیلی چڑ چڑاہٹ اور مزاج میں عدم توازن کی صورت سامنے آرہی ہے۔ آن لائن کلاسز سب سے زیادہ پری پرائمری کے بچوں کے لیے چیلنج اور مسئلہ بن گیا ہے۔ عمر کے لحاظ سے ان بچوں پر سب سے زیادہ دبائو ہے۔ چھوٹے بچے مکمل توجہ اور ماحول چاہتے ہیںجو انہیں گھر پر نہیں مل پارہی۔ والدین زبردستی اگر بچے کو اسکرین کے سامنے بیٹھا بھی دیں تو کبھی آواز غائب ہوجاتی ہے تو کبھی انٹرنیٹ منقطع ہوجاتا ہے۔ جس سے بچے کا سارا شوق اور توجہ ختم ہوجاتی ہے۔ انٹرنیٹ کے مسلسل استعمال سے بچوں میں سستی بھی بڑھتی جارہی ہے۔ وہ کھیل کود سے زیادہ انٹرنیٹ پر وقت گزارنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔نجی اسکول کی پرنسپل سیما نوید کا کہنا تھا کہ آن لائن نظامِ تعلیم بچوں کو مسلسل تعلیم سے دوری کا باعث بن رہا ہے۔ یہ طریق تعلیم متعدد طریقوں سے بچوں کو متاثر کرتا ہے جیسے کہ وہ اپنے اسکول کے کام کو برقرار رکھنے کے لیے سخت پریشانی محسوس کرتے ہیں کیونکہ آن لائن سسٹم وسائل کی کمی کے باعث خاص طور پر غریب طبقے کے لیے مشکل ہے اور دوسرا یہ کہ گھر میں رہتے ہوئے توجہ مرکوز رکھنے کے لیے بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ورچوئل لیرننگ طلبہ کے لیے ذہنی تھکاوٹ کا باعث بنتی ہے کیونکہ وڈیو انٹرایکٹس سے بھرا دن ذہنی طور پر خشک ہوتا ہے اس لیے طلبہ کا دماغ اس طریقہ معلومات پر کارروائی نہیں کرسکتا جس طرح فزیکل(طبعی) کلاس میں کرتا ہے کیونکہ فزیکل کلاس میں انسانی دماغ کو بہت سارے زبانی اشارے ملتے ہیں جیسے آواز اور چہرے کے تاثرات، نظریں ملانا وغیرہ اور اس سے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے جبکہ آن لائن کلاس میں یہ ممکن نہیں۔یہی وجہ ہے کہ بچوں کے دماغ کو ملنے والی معلومات کی ترجمانی کے لیے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے جو کہ اضافی ذہنی تھکاوٹ کا باعث بنتی ہے اور یہی ذہنی تھکاوٹ ان کے معمولاتِ زندگی میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے جس کی وجہ سے طلبہ مختلف نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔سابق ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ سندھ گورنمٹ اسپتال ڈاکٹر شبانہ کا کہناتھا کہ کورونا کی وبا نے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ نہ صرف معیشت پر اس کے برے اثرات پڑ رہے ہیں بلکہ بہت سارے ایسے امور ہیں جن پر اس نے اپنے اثرات مرتب کیے ہیں اور یہ اثرات مستقبل میں اور بھی زیادہ مضر ہوسکتے ہیں۔ ان میں سے سب اہم ہے ہماری نسلوں کی’’تعلیم اور ان کا مستقبل‘‘۔ کورونا کی وجہ سے تمام تعلیمی ادارے بند ہیں اس سے تعلیم کا سلسلہ تو چل رہا ہے لنگڑا لولا ہی سہی۔ کیونکہ یکدم لاک ڈائون کی وجہ سے آن لائن تعلیم کے مسائل میں سب سے بڑا انٹرنیٹ کا مسئلہ ہے کیونکہ 220ملین کی آبادی میں 76.38ملین انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ اب آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں کتنے طالب علم اس علم سے مستفید ہونگے۔ اور جن کے پاس انٹرنیٹ ہے وہاں بھی کلاس کے وقت بجلی کا نہ ہونا۔ اس کے علاوہ طالب علموں کا دوران کلاس دھیان کا بٹ جانا،کھیل میں مصروف ہوجانا ، اپنے اساتذہ سے براہ راست تعلق کا کم ہوجانا، وقت پر کلاس نہ لینا۔ امتحان میں گوگل کا استعمال اور بھی بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ اس میں ضرورت ہے حکومت کی حکمت عملی کی کیونکہ بہت سارے اساتذہ کو انٹرنیٹ اور High Tech کی تربیت کی بھی ضرورت ہے۔ غرض جتنے مسائل ہیں ان کا حل بھی موجود ہے صرف غور وفکر کی ضرورت ہے۔