حکومت کی عدم توجہ پاکستانی جامعات کے عالمی دوڑ میں شامل ہونے میں رکاوٹ ہے

518

کراچی(رپورٹ: حمادحسین)اعلیٰ تعلیم کبھی بھی حکومتی ترجیحات کی فہرست میں شامل ہی نہیں رہی ہے۔ ملکی تاریخ میں کبھی بھی اعلی تعلیم پر اتنی سرمایہ کاری نہیں کی گئی کہ وہ آزادانہ طریقے سے کچھ نتائج دے سکیں۔صنعت کی عدم موجودگی میں ہماری معیشت تعلیم کی بنیاد پرنا ہونے کی وجہ سے جامعات کے اندر تعلیم کا صنعتی اطلاق موجود نہیں جس کی وجہ سے جامعات کو فقط سند حاصل کرنے کا ذریعہ ہی سمجھا جاتا ہے اور اس کے اندر ہونے والی تحقیق کو محض اساتذہ کی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کی جامعات اس طرح ریسرچ، پڑھائی، عالمگیریت اور بین الاقوامی طلبہ کو اپنی طرف راغب کرنے میں ناکام ہے جس کی وجہ سے دنیا کی بلند پایہ 100 جامعات میں نام نہ آسکا۔ان خیالات کا اظہار فپواسا کے مرکزی جنرل سیکرٹری ڈاکٹر کلیم اللہ،پنجاب یونیورسٹی اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر ڈاکٹر ممتاز انور چوہدری،مرکزی نائب صدر فپواسااور پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر فضل ناصر اورفپواسا سندھ چیپٹر کے جنرل سیکر ٹری اور سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن(سمیوٹا) کے صدر آصف حسین سموں نے جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کے مرکز ی جنرل سیکرٹری ڈاکٹر کلیم اللہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کی کوئی یونیورسٹی دنیا کے 100 یونیورسٹیز میں اس لیے شامل نہیں کہ پاکستان کی یونیورسٹیز کو مطلوبہ فنڈز جاری ہی نہیں کیا جاتا، جس سے یونیورسٹیوں میں تدریس خصوصا تحقیق پر مکمل توجہ دے سکے۔آج بھی ہماری اکثر یونیورسٹیاں ریسرچ کے حوالے سے ہر شعبہ خصوصا سائنس کے مضامین میں دنیا بھر یہاں تک کہ ہمسایہ ممالک سے بھی پیچھے ہیں، یونیورسٹیاں جہاں مالی مشکلات میں مبتلاہیںوہاں انتظامی بحران کا شکار ہیں۔ بیشتر جامعات کے وائس چانسلرز کی تقرری میرٹ کے بجائے سفارش اور تعلقات کے بناء پر ہوتی ہیں جن کا نہ تو کوئی وژن ہوتا ہے نہ کوئی منصوبہ بندی اور ارادہ، جسکی وجہ سے جامعات اپنے پالیسی ساز اداروں یعنی اکیڈ مک کونسل، سینٹ، سینڈیکٹ اور دیگر اہم اداروں میں آزادانہ فیصلے نہیں کرسکتے۔یونیورسٹیاں جو خودمختار ادارے ہوتے ہیں انکی کی خومختاری مسلسل مداخلت کی وجہ سے ختم ہو چکی ہے، جامعات میں فیصلہ سازی کے وقت بنیادی اسٹیک ہولڈر یعنی اساتذہ اور طلبہ و طالبات کی منتخب نمائندگی یونیورسٹیوں کی پالیسی ساز اداروں سے ختم کی جاچکی ہیں نتیجے میں فیصلے تعلیمی و تحقیقی ترقی کے مطابق نہیں ہوتی۔پنجاب یونیورسٹی اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کے صدر اور فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن پنجاب کے سابق صدر پروفیسر ڈاکٹر ممتاز انور چودھری کا کہنا تھا کہ پاکستان کی کوئی بھی جامعہ دنیا بھر کی بلند پایہ 100 جامعات میں اس لیے شامل نہیں کیونکہ اعلیٰ تعلیم کو حکومتی سرپرستی حاصل نہیں رہی یا پھر وہ حکومتی ترجیحات کی فہرست میں اوپر نہیں ہے۔ اعلیٰ تعلیم کی سرپرستی کے ساتھ ساتھ اعلی تعلیم اور جامعات کو درکار فنڈنگ بھی مہیا نہیں کی جاتی رہی۔ اس کے علاوہ جامعات میں ریسرچ کلچر فروغ نہیں پاسکا۔ اسکولوں اور کالجوں کی جانب سے طلبہ پر اس طرح توجہ نہیں دی گئی جس کا نقصان یہ ہوا کہ طلبہ جامعات میں آکر مطلوبہ نتائج دینے سے قاصر رہتے ہیں۔ہم جن علوم میں تقابلی فائدہ لے سکتے ہیں وہ بھی نہیں لے سکے جس سے جامعات کی درجہ بندی میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ مختلف اسٹیک ہولڈرز جن میں اساتذہ، والدین اور طلبہ شامل ہیں۔ ان کو پالیسی سازی میں شامل نہیں کیا جاتا اور نہ ہی پاکستان کی اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے مستقبل پالیسی رہی ہے۔ 2005ء میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے تحت مختلف پروگرامات اور پروجیکٹ کا آغاز ہوا تھا مگر ان میں سے بھی اکثر تعطل کاشکار ہیں۔اس لیے ہمارا انسانی سرمایہ اس طرح ترقی حاصل نہ کرسکا اور ان وجوہات کی بنیاد پر میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی جامعات اس طرح ریسرچ، پڑھائی، عالمگیریت اور بین الاقوامی طلبہ کو اپنی طرف راغب کرنے میں ناکام ہے ۔مرکزی نائب صدرفیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن( فپواسا)اور پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر فضل ناصر کا کہنا تھا کہ پاکستانی جامعات کی 100 جامعات میں شامل نہو ہونے کی بڑی وجہ مستقل مزاجی کا نہ ہونا ہے۔ جو مشرف کے دور میں جامعات کو جو گرانٹ اور فنڈز، اسکالر شپس، پی ایچ ڈی اور اساتذہ کی ترقی کے حوالے سے مہیا کیے گئے تھے۔ ایسی تمام کو ششیں جو پچھلے 4،5 سال سے جاری تھیں ختم کردیا گیا ہے۔آپ اگرایک نظر 2017-18کے بجٹ پر ڈالیںجوشعبہ تعلیم کا 1کھرب 4 ارب روپے تھا اور پچھلے سال 2020-21 میں اس بجٹ کوصرف 64 ارب روپے تک محدود کردیا گیا۔ اس بات سے اندازہ لگالیں کہ حکومت وقت کی تعلیم اور تحقیق پر کتنی نظر ہے اس بجٹ کٹوتی کے باعث جامعات کے پاس اپنے اساتذہ کو تنخواہیں اور پنشن ادا کرنے کے لیے پیسے نہیں ہے۔ اگر جامعات کا بجٹ کو دیکھیں تو اس میں 85 فیصد تنخواہوں کی مد میں مختص ہے۔ ریسرچ کی مد میں ایک فیصد بھی بجٹ مختص نہیں ہے۔ لہٰذا ہم تحقیق پر مبنی کام نہیں کریں گے تو ہم دنیا بھر کی جامعات کی فہرست میں کبھی شامل نہیں ہوپائیں گے۔ ہماری جامعات اکیڈمک کم ریسرچ ہے یہاں تدریس بھی دی جاتی ہے اور تحقیق بھی ہوتی ہے۔ لیکن اگر اس کا موازنہ فیکلٹی سے کریں وہ انتہائی کم ہے۔ دنیا بھر کی جامعات میں فیکلٹی کا تناسب تدریس اور ریسرچ میں ہم سے کہیں زیادہ ہے۔ تحقیق کے لیے ہمیں بہت سے مواد۔مشنری اور کیمیکل تک رسائی بہت مشکل ہے۔ ہم خود سے بہت سی چیزیں خرید کر لاتے ہیں۔ FATF کی پابندیوں کے باعث ہر ریسرچ پر بہت منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ہم پروجیکٹ کے سامان جس میں کیمیکل، مشینری چاہیے ہوتی ہیں وہ بہت مشکل سے importکروا پاتے ہیں۔ حکومت کی سرپرستی اس طرح نہیں ہے جس طرح ہونی چاہیے تھی۔ پاکستان میں جامعات اور انڈسٹریز کا تعلق آپس میں نہیں ہے۔ دنیا بھر کے ممالک اپنی مارکیٹ میں کوئی بھی مسئلہ دیکھتے ہیں تو ان کو پہلی ترجیح جامعات پر اس پر تحقیق ہوتا ہے۔ معاشرے سے مسائل آنے چاہیے۔ ہمیں اس پر تحقیق کرنی چاہیے۔ اس وقت دنیا بھر کا مسئلہ کورونا ہے۔ ہمیں اس پر ریسرچ کرنی چاہیے۔ اس کے 2 فائدے ہیں۔ اپنی حقیق کا شعبہ ترقی کرے گا اور معاشرے کو بھی اس کا فائدہ ہوگا۔ مارکیٹ پر مبنی تحقیق نہیں کریں تب تک ہماری جامعات صف اول کی جامعات میں نہیں آسکے گی۔فپواسا سندھ چیپٹر کے جنرل سیکر یٹری اور سندھ مدرستہ لاسلام یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن (سمیوٹا) کے صدر آصف حسین سموںکا کہنا تھا کہ اس کی چند بنیادی وجوہات ہیں۔ اول تو ملکی تاریخ میں کبھی بھی اعلی تعلیم پر اتنی سرمایہ کاری ہی نہیں کی گئی کہ وہ آزادانہ طریقے سے کچھ نتائج دے سکیں۔ دوسرا یہ کہ مختلف سیاسی ادوار میں اعلی تعلیم کو اسٹیٹس کو کے بھینٹ چڑھایا گیا اور اس کو پنپنے نہیں دیا گیا۔ تیسرا یہ کہ صنعت کی عدم موجودگی میں ہماری معیشت نالیج بیسڈ نا ہونے کی وجہ سے جامعات کے اندر تعلیم کا صنعتی اطلاق موجود نہیں جس کی وجہ سے جامعات کو فقط سند حاصل کرنے کا ذریعہ ہی سمجھا جاتا ہے اور اس کے اندر ہونے والی تحقیق کو محض اساتذہ کی زمہ داری سمجھا جاتا ہے۔