لیاری 16سال سے ترقیاتی کام کے لیے ترس رہا ہے،عبدالرشید

219

کراچی (اسٹاف رپورٹر) رکن سندھ اسمبلی اور جماعت اسلامی کے رہنما سید عبدالرشید نے جمعرات کو سندھ اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ پر بحث کے دوران اپنے خطاب میں کہا کہ ایوان میں پیش کردہ ہماری تجاویز کا مرکز یہ ہونا چاہیے کے سندھ کا پیسہ سندھ پر کیسے خرچ کریں۔ انہوں نے کہاکہ وفاق ہو یا صوبائی حکومت، کھربوں کے بجٹ ایوانوں میں پیش کیے
جاتے ہیں سندھ حکومت کے محکمہ تعلیم کے 36 یونٹس کو مکمل ہونا تھا ان کا کیا ہوا؟ 2021ء میں قوم کے مستقبل کا دارومدار تعلیمی نظام پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈویلپمنٹ فنڈ ریلیز کرنے کی رفتار اتنی کم ہو تو کیا ہوگا۔ سید عبدالرشید نے کہا ہے کہ 16 سال سے لیاری کے بعض علاقے کی سڑکیں کارپیٹنگ اور گلیاں پیور بلاک کے لیے ترس رہیں، بجٹ منظور اور جاری ہوتاہے لیکن ہڑپ کرلیا جاتاہے جسکی لاٹھی اسکی بھینس والا نظام ہے،لیاری شاہ عبدالطیف بھٹائی روڈ کا پیسہ ہڑپ کیا گیا فوری پروجیکٹ مکمل کیا جائے، لیاری جنرل اسپتال کی ترقی کو غنڈہ عناصر سے رکوادیا گیا اب وہاں پھر سے غنڈہ راج ہے جس کی سرپرستی کی جارہی ہے۔ سید عبدالرشید کا کہنا تھا کہ نوکریاں فروخت کی جارہی ہیں بیروزگاری حکومتوں کے منہ پر طمانچہ ہے، روٹی کپڑا مکان کا نعرہ صرف الیکشن میں یاد رہتا ہے، ہماری تجاویز کا مرکز یہ ہونا چاہیے کہ سندھ کا پیسہ سندھ پر کیسے خرچ کریں، وفاق ہو یا سندھ حکومت کھربوں کے بجٹ ایوانوں میں پیش کیے جاتے ہیں ،2021میں سندھ حکومت نے محکمہ تعلیم کے36 یونٹس کو مکمل کرنا تھا ،قوم کی ترقی اور مستقبل کا دارومدار تعلیمی نظام پر ہے، سید عبدالرشید نے کہا کہ ترقیاتی فنڈز جاری کرنے کی رفتار ایک تو کم ہو ہے لیکن جب پیسے ریلیز ہوجاتے ہیں تو لگتے نہیں، کیا حکومتیں ملازمین کو تنخواہ نہیں دیتیں، پھر پرچی سسٹم کا سہاراکیوں لیتے ہیں؟، اسکلز ڈیولپمنٹ کے لیے رقم مختص ہونی چاہیے ،16/17 ہزار میں کسی کے گھر کا چولہا کیسے جل سکتا ہے؟ ،کم ازکم تنخواہ 25ہزار روپے تجویز کرتاہوں۔ جماعت اسلامی کے رہنما کا کہنا ہے کہ 40 روپے کلو گندم کسان سے اٹھانے کے بعد 80 روپے کلو مارکیٹ میں بیچی جارہی ہے، عوام کا مسئلہ پانی بھی ہے مکان بھی ہے اور سستا علاج بھی لیکن سب سے بڑا مسئلہ خوراک بنتا جارہاہے ، مڈل مین سے نجات کے لیے کسان بازار ہونا چاہیے تاکہ منافع خوروں سے بچا جا سکے۔ سندھ حکومت ٹیکس ایک ڈیجیٹ میں لائے، کورونا فنڈز 50 فیصد سے زیادہ براہ راست مانیٹرنگ پر بیٹھے لوگ ہڑپ کر رہے ہیں، حقائق بتا رہا ہوں جس کا خمیازہ سندھ حکومت اور عوام کو برداشت کرنا پڑے گا۔ عبدالرشید کا کہنا تھا کہکورونا کے باعث ملازمتیں آئیں لیکن چار چار لاکھ روپے میں ملازمتیں بیچ دی گئیں، صرف آرڈر نکالنے کے لیے 3,3 لاکھ رشوت لی جاتی ہے تو سروسز کیسے ملیں گی۔