تیرہواں سبق: امر بالمعروف و نہی عن المنکر

673

مرتب: عتیق الرحمن

’’دنیا میںبہترین گروہ تم ہو جسے انسان کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میںلایا گیا۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ (آل عمران: 11) امر بالمعروف ونہی عن المنکرکا مطلب ہے نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا اور یہ امت مسلمہ پر واجب ہے، اسی وصف کو اپنانے سے ہی امت محمدیہ ’’خیر امت‘‘ کے قرآنی لقب سے سرفراز ہوسکتی ہے۔ اس آیت اور سورہ آل عمران کی آیت نمبر102 میں یَامرون اور تَامْرون کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جس کے معنی ہیں حکم دیتے ہو۔ یْبَّلِغْون اور تْبَّلِّغْون کے الفاظ استعمال نہیں کیے گئے جس کا معنیٰ ہے پہنچا دینا، گویا دین کو صرف پہنچا دینا اور تبلیغ کرنا کافی نہیں بلکہ ربّ کائنات کے دین کو قوت سے نافذ کرنا مقصود ہے۔ اور یہ اس امت کی اہم ترین ذمے داری ہے، اس آیت میں بعثت رسول کی غرض یہ بتائی گئی ہے کہ جس ہدایت و دین حق کو وہ ربّ کی طرف سے لائے ہیں اسے زندگی کے تمام شعبوں پر غالب کردیں (دین کی نوعیت رکھنے والے طریقوں اور قاعدوں پر غالب کردیں)۔ دوسرے الفاظ میں رسول کی بعثت کبھی اس غرض کے لیے نہیں ہوئی کہ جو نظام زندگی لے کر وہ آئے وہ کسی دوسرے نظام زندگی کے اتباع اور اس سے مغلوب بن کر اور اس کی دی گئی رعایت اور گنجائشوں میں سمٹ کر رہے بلکہ وہ بادشاہ ارض و سما کا نمائندہ بن کر آتے ہیں اور اپنے بادشاہ کے نظام کو غالب دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی دوسرا نظام زندگی دنیا میں رہے بھی تو اسے خدائی نظام کی بخشی ہوئی گنجائشوں میں سمٹ کر رہنا چاہیے۔ جیسا کہ جزیہ ادا کرنے کی صورت میں ذمیوں کا نظام زندگی رہتا ہے۔ شاہ ولی اللہ نے اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں مختلف عنوانات کے تحت بار بار یہ حقیقت دہرائی ہے کہ اللہ تعالیٰ انبیا کرام کو ’’اقامت دین‘‘ ہی کے لیے مبعوث فرماتا رہا ہے۔ اور نبی کریم ؐ کو بھی اسی لیے مبعوث فرمایا تھا کہ وہ دین حق کو قائم کریں اور اسے دوسرے ادیان پر غالب کریں۔ گویا غلبہ دین کے لیے اجتماعی جدوجہد اور جماعت کا قیام لازمی ہے۔
امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی اہمیت: دین اسلام کا مدار امر بالمعروف و نہی عن المنکر پر ہے۔ یہ انبیاء کا وظیفہ و ذمے داری تھی۔ انبیاء کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے، لہٰذا اب یہ امت مسلمہ کی ذمے داری بن گئی ہے۔ قرآن میں ایک مقام پر اس فریضہ کو ترک کرنے والے پر لعنت، دوسری جگہ ترک پر سزا کی وعید اور تیسری جگہ ترک کرنے والوں کو منافق قرار دیا ہے۔ ارباب اقتدار کو سختی سے اس فریضہ پر کاربند رہنے کا حکم ہے۔ (سورہ الحج: 41) امر بالمعروف و نہی عن المنکر یہ دونوں کام ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، صرف ایک کے کرنے سے توازن و اعتدال ختم ہوجاتا ہے۔ منکرات و فواحش کو دیکھنے کے باوجود اس کو روکنے کی کوشش نہ کرنے پر عذابِ الٰہی کے نزول کی وعید ہے۔ (حدیث) امر بالمعروف و نہی عن المنکر پر کاربند رہنے سے معاشرے کی بقا و ترقی اور ترک کرنے سے تباہی و بربادی کا نزول ہوتا ہے۔ جب تک اصلاح احوال کا کام ہوتا رہے تو بستیوں پر آ کا عذاب نازل نہیں ہوتا۔ (سورہ ھود: 117) امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ ترک کرنے سے دعائیں قبول نہیں ہوتیں، اور مدد روک دی جاتی ہے۔ (ترمذی)
مطالعہ حدیث: تم لوگ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرتے رہو ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر اپنی جانب سے عذاب نازل فرمادیں گے اور تم دعائیں مانگو گے تو تمہاری دعائیں قبول نہیں ہوںگی۔ (ترمذی، ابن ماجہ) سیدنا نعمان بن بشیرؓ کی روایت میں ارشاد نبوی ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ اللہ کی حدود پر قائم رہنے والوں اور مداہنت کرنیوالوں کی مثال ایسی ہے کہ کچھ لوگ جہاز پر سوار ہوئے ان میں بعض کو نچلے حصے میں جگہ ملی اور بعض کو اوپر کے حصے میں۔ جب نیچے والے پانی لینا چاہتے تو اوپر جاتے جس سے اوپر والوںکو تکلیف ہوتی اور وہ انہیں روکتے۔ اس پر نیچے والوں نے مشورہ کیا کہ ہم اپنے حصے میں جہاز میں ایک سوراخ کردیں اور وہاں سے پانی لے لیا کریں تاکہ اوپر والوں کو تکلیف نہ ہو۔ اب اگر اوپر والے ان کو یہ کام کرنے دیں (جہاز میں پانی بھر جانے سے) تو سب ہلاک ہوجائیںگے اور اگر ان کو روک لیں تو سب (غرق ہونے سے) بچ جائیںگے۔ (بخاری)
سیرتِ تابعین: حق گوئی اور بے باکی۔۔۔ خلیفہ معتصم باللہ جب خلق قرآن کے سلسلے میں امام احمد بن حنبلؒ کا موقف بدلنے سے عاجز آگیا تو اس نے ان پر مزید سختی شروع کردی۔ آلہ تعذیب نصب کروایا، ظالم اور جابر جلاد مقرر کیے اور بے پناہ تشدد کرایا۔ جلاد کے سخت زدوکوب کی وجہ سے امام صاحب کا کندھا مبارک اکھڑ گیا، پیٹھ مبارک سے خون کے فوارے جاری ہوگئے۔ خلیفہ معتصم آگے بڑھا اور گویا ہوا۔ ’’احمد! صرف یہ ایک کلمہ کہہ دو (کہ قرآن مخلوق ہے) میں اپنے ہاتھوں سے تمہاری بیڑیاںکھول کر تمہیں آزاد کردوں گا اور تمہیں دنیا جہان کی نعمتوں سے مالا مال کردوں گا‘‘۔ جواب میں امام احمد صرف یہ فرماتے۔ ’’قرآن کی کوئی آیت یا حدیث کی کوئی نص اس کی دلیل کے طور پر پیش کردو، میں فوراً اپنی رائے تبدیل کرلوں گا‘‘۔ خلیفہ معتصم نے دانت پیستے ہوئے جلاد سے کہا۔ یہ میری بات نہیں مان رہا۔ تمہارے ہاتھ ٹوٹ جائیں تم نے اس پر زیادہ سختی نہیں کی اور زیادہ قوت سے مارو! جلاد نے پوری قوت سے تازیانہ مارنا شروع کیا۔ امام صاحب کا گوشت پھٹ گیا۔ خون کا فوارہ نکلا۔ خلیفہ کا ایک درباری عالم آگے بڑھا اور گویا ہوا۔ احمد بن حنبل! کیا اللہ تعالیٰ نہیں فرماتا۔ ’’اپنی جانوںکو قتل نہ کرو‘‘۔ پھر کیوں خوامخواہ اپنی جان کے درپے ہو اور خلیفہ کی بات نہ مان کر اپنے آپ کو ہلاک کررہے ہو؟ امام احمدؒ نے فرمایا۔ ’’باہر نکلو اور دروازے کے باہر دیکھو تمہیں کیا نظر آتا ہے؟‘‘ اس نے محل کے صحن سے نکل کر جھانکا، دیکھا بے شمار لوگ کاغذ اور قلم پکڑے انتظار کررہے ہیں۔ درباری عالم نے اس مجمع سے پوچھا۔ کس چیز کے منتظر ہو؟ لوگوں نے کہا ’’ہم خلق قرآن کے مسئلے میں امام احمد کے جواب کے منتظر ہیں تاکہ اس کو لکھ سکیں‘‘۔ وہ درباری عالم واپس آیا اور امام احمدؒ کو جب خبردی تو امام صاحب نے فرمایا۔ ’’کیا میں ان تمام کو گمراہ کردوں؟ اپنے آپ کو قتل کروالینا منظور ہے مگر ان کو گمراہ کرنا منظور نہیں‘‘۔ امام احمدؒ پر اللہ کی کروڑوں رحمتیںہوں۔