تعلیمی اداروں میں مخلوط پارٹیاں اور میوزیکل پروگرامات منشیات پھیلانے کا سبب ہیں

582

کراچی(رپورٹ:حماد حسین) ہمارے ڈراموں، فلموں اور اشتہارات میں سگریٹ ،شراب اور نشہ آور چیزوں کو اسٹیٹس سمبل بنا کر پیش نہ کیا جائے۔تعلیمی اداروں میںطلبہ کے لیے دینی ،سماجی اور فلاحی سرگرمیوں میں شامل ہونے کی ترغیب دی جائے۔منشیات کا استعمال کرنے والوں کے عبرت ناک انجام اور ان سے متعلق آگاہی مہم کے پروگرامات کا انعقادکرنا چاہیے تا کہ عوام کے دل میں ان مضر عادات کے لیے نفرت پیدا ہو اور وہ اس سے دور رہیں۔مخلوط تعلیم اور ڈانس پارٹیاں میوزیکل پروگرامات بھی منشیات بڑھانے اور نشے کا عادی بنا رہے ہیں ان پر تعلیمی اداروں میں پابندی لگائی جائے۔جن اداروں میں یہ مسائل ہیںوہاں داخلے سے قبل طلبہ کا منشیات کا ٹیسٹ کرکے داخلہ دیا جائے،ان خیالات کا اظہار لیاری کے علاقے سے جماعت اسلامی کے ممبر صوبائی اسمبلی سید عبدالرشید ، علماء یونیورسٹی کے شعبہ میڈیافیکلٹی کی ڈین ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی، ابراہیم حیدری میںقائم سرکاری اسکول کی ہیڈ مسٹریس مس فائزہ فاطمہ،بحریہ یونیورسٹی کے شعبہ عمرانیات کے ڈاکٹر فیض رسول اور کیرئیر کونسلراورماہر نفسیات اسماعیل ذیشان نے جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ لیاری کے علاقے سے جماعت اسلامی کے ممبر صوبائی اسمبلی سید عبدالرشید کا کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ کو منشیات کے استعمال سے محفوظ بنانے کے لیے ضابط اخلاق بنایا جائے ۔تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو حالات کی خرابی کا ذمے دار سمجھا جائے ۔مخلوط تعلیم اور ڈانس پارٹیاں میوزیکل پروگرامات بھی منشیات بڑھانے اور نشے کا عادی بنا رہے ہیں ان پر تعلیمی اداروں میں پابندی لگائی جائے،تعلیمی اداروں میں غیر رجسٹر طلبہ کی آمد اور بیرونی عناصر کی آمدورفت روکی جائے ۔جن اداروں میں یہ مسائل ہیں طلبہ کا ٹیسٹ کرکے ایسے طالبعلم جو نشے کے عادی ہیں،نشہ چھوڑنے تک ان کے تدریسی عمل کو معطل کرکے ان کے سرپرستوں کو ان کا علاج کروانے کے لیے پابند کیا جائے،تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو سخت اقدامات اٹھانے ہونگے بصورت دیگر ایسے تعلیمی اداروں جہاں منشیات کا استعمال زیادہ ہے انسداد منشیات کے خصوصی ٹاسک فورس کی تحویل میں دیا جائے اور انتظامیہ کے خلاف بھی کارروائی کی جائے ۔حکومت کی ذمے داری ہے کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات کرے اور اس میں سنجیدگی سے سخت اقدامات کے بغیر انسداد منشیات ناممکن ہے۔علماء یونیورسٹی کے شعبہ میڈیافیکلٹی کی ڈین ڈاکٹر یاسمین فاروقی کا کہنا تھا کہ یہ ہمارے معاشرے کا انتہائی اہم موضوع ہے اور انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ارباب اختیار اور دیگر متعلقہ افراد اس طرف بالکل بھی توجہ نہیں دے رہے۔ انسداد منشیات کے ادارے منشیات بیچنے اور پھیلانے والی مافیائوں کو جب تک قانون کے دائرے میں نہیں لائیں گے انہیں سزائیں نہیں دلوائیں گے تب تک ہماری قوم کے افراد بالخصوص نوجوان، طلبہ و طالبات اس عفریت سے نہیں بچ سکتے۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ ہیروئن کا نشہ کیا جاتا ہے۔ تقریباً ایک کروڑ سے زیادہ افراد جن میں کم عمر بچوں سے لے کر بڑی عمر تک کے افراد شامل ہیں جو نشہ آور ادویات اور دیگر منشیات کا استعمال کرتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں چرس، ہیروئن اور آج کل آئس نامی نشہ بہت تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ تعلیمی اداروں میں نہ صرف طلبہ بلکہ طالبات بھی بڑی تعداد میں اس مہلک مرض میں مبتلا ہیں۔ نوجوان اس ملک کی آبادی کا بہت بڑا حصہ ہیں جنہیں ملک کی باگ ڈور سنبھالنا ہے۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ اس اہم ترین مسئلے کی جانب کسی نے بھی سنجیدہ کوششیں نہیں۔ طلبۃ کی بڑی تعداد روز بروز نشے کی لت میں مبتلا ہورہی ہے اور اس سلسلے میں میڈیا کا بھی کردار بہت اہم ہے۔ اگر ڈراموں، فلموں اور اشتہارات میں سگریٹ اور شراب وغیرہ کو اسٹیٹس سمبل بنا کر پیش نہ کیا جائے اور ایسی پارٹیاں نہ دکھائی جائیں جہاں اعلیٰ عہدے داروں اور دولت مندوں کا شراب پینا ان کی امارت، ان کے رہن سہن کا حصہ ہو، کیوں کہ کم عمر بچے جلدی اثرات قبول کرتے ہیں۔ صرف یہ کافی نہیں ہے کہ ” شراب نوشی صحت کے لیے مضر ہے”۔ شراب کو ہمارے دین میں ’’ام الجنائث‘‘ کہا گیا ہے۔ ظاہر ہے اس کو پینے کے بعد انسان ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے اور پھر وہ تمام برائیاں کرتا ہے جو ہوش مندی میں نہیں کرسکتا۔ اسی لیے اس سے دور رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔ میڈیا پر نشہ کرنے والوں کے عبرت ناک انجام اور ان کے متعلق آگاہی مہم کے پروگرام تواتر سے پیش کیے جانے چاہئیں تا کہ عوام کے دل میں ان مضر عادات کے لیے نفرت پیدا ہو اور وہ اس سے دور رہیں۔ بچے خاص طور پر طلبۃ اس ملک کا مستقبل ہیں۔ عمر کا سب سے بہترین حصہ جو تخلیقی صلاحیتوں سے بھرپور ہوتا ہے وہ ہماری نسل کو نشے میں برباد کررہا ہے۔ جس عمر میں والدین کا سہارا بننا ہے وہ اس عمر میں والدین پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ جو عمر سیکھنے کی، خود کو منوانے کی ہے نوجوان اس عمر میں نشے کے عادی ہوجاتے ہیں اور نتیجتاً ان کی یادداشت، جسمانی صحت اور کارکردگی بری طرح متاثر ہوجاتی ہے اور وہ زندگی کی دوڑ میں کہیں بہت پیچھے چلے جاتے ہیں اور معاشرے پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ پھر ان کے نزدیک قانون، اخلاقیات، وغیرہ کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی اور ہر قسم کی برائی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔طلبۃ کو منشیات کے استعمال سے روکنے کے لیے سب سے پہلے اسکولوں، کالجوں، جامعات اور دیگر اداروں میں تشہیری مہم چلانا چاہیے کہ کوئی طالب علم کسی بھی قسم کے نشے کو استعمال کرتا ہوا نظر آیا تو اس کو اسکول و کالج میں جرمانے کے علاوہ اصلاح کی جائے اور ذہنی و جسمانی بحالی کے اداروں سے اس کا علاج کروایا جائے۔ دوسرے یہ کہ تعلیمی اداروں کے قریب کوئی پان، سگریٹ وغیرہ کی دکان نہیں ہو۔ اب تو جامعات میں سگریٹ پینے کے لیے الگ زون بنادیے گئے ہیں جہاں طلبہ و طالبات مزے سے سگریٹ کے دھویں میں غرق رہتے ہیں۔کینٹینوں پر سگریٹ ملتے ہیں اور کھلے عام ہماری نسل نو اپنے مستقل کے سپنوں کو دھویں میں اڑاتی نظر آتی ہے۔ منشیات کا بڑھتا ہوا استعمال روکنے کے لیے سب سے پہلے والدین کو اپنے بچوں کی کڑی نگرانی کرنا ہوگی۔ ان کے دوستوں اور ملنے جلنے والوں پر نظر رکھنا ہوگی اور اپنے بچوں کو بھی بار بار تاکید کرنی ہوگی اس کے ساتھ اساتذہ پر بھی بھاری ذمے داری عاید ہوتی ہے۔ مگر اس پْرآشوب دور میں اچھے اساتذہ بھی ہیں جو تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی توجہ دیتے ہیں۔ طلبۃ کی اصلاح کرتے ہیں۔ ان کے مسائل حل کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ منشیات کے استعمال کو روکنا کسی ایک ادارے یا فرد واحد کا کام نہیں اس میں سب کو شامل ہونا ہوگا۔ حکومت، متعلقہ ادارے، اساتذہ، والدین اور خود طلبۃ یہ پاکستان کے مستقبل اور نئی نسل کے تحفظ کا معاملہ ہے اس کا حل سب کو مل کر نکالنا ہوگا۔ حکومت کو اپنی ذمے داری نبھانی چاہیے۔ابراہیم حیدری میںقائم سرکاری اسکول میںبطورہیڈ مسٹریس خدمات انجام دینے والی مس فائزہ فاطمہ کا کہنا تھا کہ جس سرکاری اسکول میں خدمات انجام دے رہی ہوں ۔ اس علاقے میں منشیات فروشی عام ہے جہاں کی بڑی آبادی کا پیشہ ماہی گیری ہے اورخواتین گھروں میں ماسی کا کام کرتی ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کے بچے محبت و شفقت سے محروم رہتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے وہ غلط صحبت اور بے راہ روی کا شکار ہو جاتے ہیں اور شاید اسے بھی اس چیز کا اندازہ نہیں ہوتا۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر ہم نے اپنے بچوں کو اس لعنت سے محفوظ رکھنا ہے تو ان کو دینی ، سماجی ، فلاح اور صحت مندانہ کاموں میںمصروف رکھنا چاہیے۔بچوں کو ہنر سکھانے کے لیے تعلیمی اداروں کا جال بچھانا چاہیے۔ ان تمام عوامل کی وجہ سے بچے نشے کی لعنت سے دور رہیں۔ وہ ایک پڑھا لکھا اور ملک کے لیے بہتر اور کارآمد شہری بنے۔بحریہ یونیورسٹی کے شعبہ عمرانیات کے ڈاکٹر فیض رسول کا کہنا تھا کہا اگر ہم کسی چیز کی روک تھام کرنا چاہ رہے ہیں تو سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ ہو کیوں رہا ہے۔اب اگر جاننا چاہتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ منشیات کا استعمال کیوں کر رہے ہیں۔ اگر اس کے اسباب جانیں تو اس کا حل بھی انہی وجوہات سے مل جائے گا۔ کالجز اور جامعات کے طلبہ جس عمر کی حد میں ہوتے ہیں اس عمر میں بہت تجربات کرنا چاہتے ہیں۔ دوسروں کو متاثر کرنے کے لیے اور بہت ہی جلد مایوسی ، احساس محرومی کے جذبات حاوی ہو جاتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں جس طرح منشیات کی ممانعت ہے اسی طرح اس کے نقصانات کی آگاہی کے لیے سیمینار اور ورکشاپ کا انعقاد بھی کروانا ضروری ہے اور اگر کسی کو بھی یہ لت لگ گئی ہے تو اس سے کس طرح چھٹکارا پایا جائے۔ یہ بھی اس کو پتا ہونا چاہیے۔ میڈیا کی جانب سے ملک کے مستقبل کومایوس کن دکھانے سے بھی نوجوان نا امید ہو رہے ہیں۔کیرئیر کونسلراورماہر نفسیات اسماعیل ذیشان کا کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ کو منشیات کے استعمال سے ایسے محفوظ رکھا جاسکتا ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ ان میں آگاہی پیدا کریں۔تعلیمی اداروں میںنشے سے بچائو اور اس کے عوامل کے حوالے سے سیمینار کا انعقاد کریں۔کیونکہ آج کل زیادہ تر معاشرہ میں دوستوں کے دبائواورد یگر عوامل کی بناء پر نشے کی جانب اکسایا جاتا ہے۔جس سے طلبہ نشے کی طرف راغب ہوتے ہیں۔