بچوں میں سگریٹ نوشی رجحان ختم کرنے کیلیے سخت قوانین اور آگاہی کی ضرورت ہے

678

کراچی(رپورٹ:حماد حسین) نو عمر بچوں میں سگریٹ نوشی کے رحجان کا سبب عدم توجہی ہے، والدین سے دوری کی وجہ سے غلط صحبت کا شکار ہو جاتے ہیں پہلے سگریٹ نوشی اوردیگر نشہ آور اشیاکا استعمال شروع کردیتے ہیں ،سگریٹ نوشی کے رجحان کو ختم کرنے کے لیے اس کی سپلائی چین کو روکنے کی ضرورت ہے،اور اس کے بعدتعلیمی اداروں میںتمباکو نوشی کے مضر اثرات سے متعلق آگاہی کی اشد ضرورت ہے۔کیونکہ اساتذہ اس رجحان کوروکنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ان خیالات کا اظہار سندھ بوائز اسکائوٹس ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری اختر میر،سینئرصحافی اورماہر نفسیات ڈاکٹر سدرہ اورجامعہ کراچی کے شعبہ سوشیالوجی کی پروفیسر ڈاکٹر رعنا صبا نے نمائندہ جسارت کے سوال نو عمر بچوں میں سگریٹ نوشی کے بڑھتے ہوئے رحجان کو کیسے ختم کیا جائے کے جواب میں کیا۔سندھ بوائز اسکائوٹس ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری اختر میر کا کہنا تھاکہ نو عمر بچوں میں سگریٹ نوشی کے رحجان کا سبب عدم توجہی ہے، جو بچے والدین کی توجہ سے دور ہوتے ہیں وہ غلط صحبت کا شکار ہو جاتے ہیں اور پہلے سگریٹ نوشی اور پھر دیگر نشہ آور اشیا کا استعمال شروع کر دیتے ہیں۔اس کے عادی صرف لڑکے نہیں بلکہ لڑکیاں بھی ہوجاتی ہیں۔ جوائنٹ فیملی سسٹم میں بے راہ روی کے امکانات کم ہیں کیونکہ ہر وقت کوئی نہ کوئی بچوں پر نگاہ رکھتا ہے۔ اچھی صحبت بھی اس رحجان کو کم کر سکتی ہے۔ دراصل بیرونی سرگرمیاں ختم ہو نے کے باعث بچے ہم عمر دوستوں کے ساتھ بند کمروں میں پڑھنے کے بہانے بیٹھ کر سگریٹ پینے کے عادی بن جاتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسکولوں میں بچوں کو منفی اور مثبت چیزوں سے روشناس کرایا جائے ۔ سگریٹ کے پیکٹ پر صرف تصویر بنا کرآپ اس کے استعمال سے نہیں روک سکتے ۔بچوں کی اچھی تربیت سے ہی انہیں سگریٹ نوشی سے دور رکھا جا سکتا ہے ۔سینئر صحافی اورماہر نفسیات ڈاکٹر سدرہ کا کہنا تھا کہ سگریٹ کا دھواں ہر سال 7لاکھ زندگیوں کے چراغ گل کر دیتا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق ہر روز 1300 لوگ تمباکو نوشی کی وجہ سے جان سے چلے جاتے ہیں۔ اس لت سے سالانہ اموات کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان میں روزانہ 1200بچے تمباکونوشی میں مبتلا ہونے لگے ہیں۔ نوجوان نسل میں تمباکو نوشی کی روک تھام کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے سب سے پہلے اس کی سپلائی چین کو روکنے کی ضرورت ہے اگر اس کی دستیابی ممکن نہیں ہوگی تو اس کی روک تھام پر یقینی طور پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔اس کے علاوہ تمباکو نوشی کے مضر اثرات کے لیے ہر سطح پر آگاہی کی ضرورت ہے خاص طور پر تعلیمی اداروں میں آگاہی کی اشد ضرورت ہے اس کے علاوہ والدین اور اساتذہ کی توجہ ،تمباکو نوشی کی روک تھام کے حوالے سے قوانین کو سخت کرنے سے ہی بچوںمیں سگریٹ نوشی کے رجحان کو ختم کیا جا سکتا ہے ۔جامعہ کراچی کے شعبہ سوشیالوجی کی پروفیسر ڈاکٹر رعنا صباکا کہنا تھا کہ نو عمر بچوں میں سگریٹ نوشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کا خاتمہ آسان نہیں۔ اس کے لیے ری آرگنائزیشن اور ری کنسٹرکشن کی ضرورت ہے۔اگر ہم سب سے پہلے اپنی فیملی سے اس کا آغاز کریں۔والدین کا اپنی مصروفیات کی وجہ سے بچوں سے اس حد تک دوستانہ ماحول رکھا ہوا ہے کہ بچے اب والدین کی باتوں کو اس طرح ترجیح نہیں دیتے جس طرح پہلے والدین کی باتوں کو دی جاتی تھی۔دوسری بات والدین کو اب پتا ہی نہیں ہو تا کہ بچہ گھر کے باہر کن لوگوں اور کس طرح کی صحبت میں بیٹھ رہا ہے اس کی کیا مصروفیات ہیں۔بچہ بری عادتوں کا آغاز سگریٹ نوشی سے کرتا ہے اور پھر دیگر نشہ آور اشیا کا استعمال کرتا ہے ۔نوعمر بچوں میں سگریٹ نوشی کے رجحان کی بڑی وجہ خاندان میں موجود سگریٹ نوشی کرنے والے ہی ہوتے ہیں۔گھر میں موجود افراد سگریٹ نوشی بالکل نہ کریں کیونکہ بچے والدین سے ہی سیکھتے ہیں۔اس حوالے سے اسکول اور اساتذہ کے کردار سے کوئی انکارِ نہیں کرسکتا۔بچہ سب سے زیادہ وقت اسکول میں گزرتا ہے ،اساتذہ کو چاہیے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کی اخلاقی تربیت کا بھی خیال کریں۔