سیٹھ اسحاق صاحب

948

لوگوں نے پوچھا سیٹھ صاحب آپ میٹنگ میں گئے تھے کیا ہوا۔ بولے ’’میٹنگ پوسٹ مین ہوگئی‘‘ سب نے حیرانی سے پوچھا کیا مطلب؟ بولے چیئرمین صاحب کے نہ آنے کی وجہ سے ملتوی ہو گئی۔ سیٹھ صاحب انگوٹھا چھاپ تھے اور حادثاتی طور پر اسحاق سے سیٹھ اسحاق بن گئے تھے۔ ہوا یوں کہ اسحاق صاحب بھی دیگر بہت سارے مہاجروں کی طرح پاکستان بننے سے پہلے ہی کراچی آگئے تھے ایک ہندو سیٹھ کے یہاں ملازم ہو گئے۔ تھے تو انگوٹھا چھاپ مگر محنتی آدمی تھے۔ تقسیم کے وقت ہندوستان میں فسادات شروع ہوئے تو اس کے رد عمل میں کراچی میں بھی فسادات پھوٹ پڑے۔ اور یہاں بھی ہندوؤں کی جائداد اور جانوں کو خطرات لاحق ہوگئے۔
ان کا ہندو سیٹھ صورتحال کو دیکھ کر اپنا کارخانہ سیٹھ صاحب کے حوالے کر کے ہندوستان چلا گیا کہ جب حالات ٹھیک ہوں گے تو میں واپس آ جاؤں گا اور تم سے اپنی امانت واپس لے لوں گا۔ مگر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ دن بدن حالات خراب ہی ہوتے چلے گئے اور ہندو سیٹھ کو واپس نہ آنا تھا نہ آیا۔ لہٰذا اسحاق صاحب ملازم سے مالک بن گئے اور اسحاق سے سیٹھ اسحاق بن گئے۔ گویا ان کی لاٹری نکل آئی انگوٹھا چھاپ اور نودولتیہ ہونے کی وجہ سے روزانہ ہی لوگ ان کے لطیفوں سے محظوظ ہونے لگے۔ اللہ جب حسن دیتا ہے تو نزاکت آ ہی جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کے گرد انہی جیسے چمچے اکٹھے ہو جاتے ہیں لہٰذا جب ایوب خان اور فاطمہ جناح کے الیکشن قریب آئے اور ایوب خان نے بنیادی جمہوریتوں کا نظام متعارف کرایا جسے عرف عام میں بی ڈی سسٹم کہا جاتا تھا۔ تو ان کے چمچوں نے انہیں بھی کھمبے پر چڑھا دیا۔ اور بی ڈی کے الیکشن میں کھڑا کردیا۔ اور ستم ظریفی یہ کہ ایوب خان کی کنونشن لیگ نے انہیں ٹکٹ بھی دے دیا۔ ایک طرف پیسے نے رنگ دکھایا دوسری طرف کنونشن لیگ کا ٹکٹ کام آیا جس کے پیچھے حکومت کی طاقت تھی اور چمچے تو پہلے ہی ان کی بارات میں شامل تھے۔ ظاہر ہے ایسے حالات میں کون ان کو ہرا سکتا تھا لہٰذا وہ بی ڈی ممبر بھی منتخب ہو گئے۔
ایک دن سیٹھ صاحب کسی مسئلے پر کہنے لگے کہ جب عوام ہی ایسے ہیں تو پبلک کیا کرے۔ ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ جب عوام ہی ایسے ہیں تو لیڈر کیا کرے۔ لیڈر سے ان کا اشارہ خود ان کی طرف تھا۔ یعنی عوام جب ساتھ نہیں دے رہے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔ سیٹھ صاحب بی ڈی ممبر بننے اور سیٹھ بن جانے کی وجہ سے کوشش کرتے کہ اپنی جہالت کو چھپائیں۔ لہٰذا وقت بے وقت انگریزی بولنے کی ناکام کوشش کرتے۔ جس کی وجہ سے لوگ ان کی باتوں پر نہ صرف یہ کہ سر۔ اپنا سر پکڑ لیتے تھے بلکہ رونے کے بجائے ہنسنے پر مجبور تھے کیونکہ باپ بڑا نہ بھیا سب سے بڑا روپیا۔ اور روپے میں بڑی طاقت ہے۔ اور روتوں کو ہنسنے پر مجبور کردیتا ہے۔ دوسری طرف سیٹھ صاحب اور پھول جاتے کہ شاید لوگ مجھے داد دے رہے ہیں۔
بہرحال ان کا بی ڈی کا زمانہ اسی طرح ہنستے کھیلتے گزر گیا۔ دیگر امور ویسے کے ویسے ہی رہے۔ البتہ ان کے فیض عام سے ایک زمانہ فیض یاب ہوا۔ اور بہت سے غریبوں کو کم از کم دو وقت کی مفت کی روٹی نصیب ہو جاتی تھی۔ لیکن واہ رے میرے مولا۔ تیرے دینے اور کھلانے کے انوکھے اور اچھوتے انداز ہیں۔ ہر وقت ان کے گھر پر چمچوں کا ہجوم جمع رہتا اور دیگیں چڑھی رہتی تھیں۔ اور ایک زمانہ ان کے لطیفوں اور کھانوں سے بیک وقت لطف اندوز ہوتا رہتا تھا۔ دور سے دیکھتے ہی پتا لگ جاتا تھا کہ یہی سیٹھ صاحب کا لنگر خانہ ہے۔ شاید ایسی ہی مثالوں کو دیکھ کر آج کل کے حکمرانوں نے لنگر خانے بنائے ہیں۔ تاکہ ان کی مقبولیت کا سورج نصف النہار پر رہے۔ مگر اصل واردات تو تب ہوتی ہے جب پیروں کے نیچے سے قالین سرک جاتا ہے۔ مگر۔
اب کیا ہووت ہے جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
بس رہے نام اللہ کا۔