خدمت کا استعارہ!

661

یہ گزشتہ سال کی بات ہے۔ فون کی گھنٹی بجی، دیکھا تو جماعت کے ایک ذمّے دار کا فون تھا۔ حال احوال کے بعد انہوں نے کورونا ریلیف فنڈ کے حوالے سے تعاون کے لیے ایک پوسٹر بنانے کی خواہش کا اظہارکیا۔ جب کہ میری معلومات کے مطابق گزشتہ 10 دنوں میں وہ 35 لاکھ کا راشن مستحقین میں تقسیم کرچکے تھے۔ میں نے دل میں سوچا کہ جب اتنی بڑی تعداد میں راشن کی تقسیم وہ کرچکے ہیں تو پھر کیا ضروری ہے مزید راشن کی مد میں تعاون حاصل کرنے کے لیے اہل ِ خیر کے در پر حاضری دے کر تعاون کی درخواست کرنا، کہیں درخواست قبول ہوجانا، کہیں نامراد لوٹنا۔ کیوں یہ لوگ اتنی مشقّت اٹھاتے، در در جاتے، تعاون حاصل کرتے، لوگوں کے لیے راشن کی تیاری بعدازاں اس کی تقسیم۔ کیا چیز ہے جو انہیں اس مشقّت بھری سرگرمی کے لیے آمادہ کرتی ہے؟؟ کبھی تھرکے غریبوں کے لیے کنویں کھدوا کر، کبھی پورے ملک میں واٹر فلٹر پلانٹ کے ذریعے صاف پانی کی سہولت فراہم کرکے، کبھی مختلف میڈیکل کیمپوں کے ذریعے مفت میں علاج کرکے، اور کبھی کبھی حکومتی سطح کے بڑے بڑے منصوبوں کے تحت لوگوں کو مشقت سے بچانے کی کوشش کرکے، اور اب ’’حق دوکراچی کو‘‘ کے عنوان سے کراچی کے عوام کے جائز حقوق کے لیے رات دن سڑکوں پر موجود ہیں اور حکمرانوں کو خوابِ غفلت سے جگانے اور انہیں بھولا ہوا سبق یاد دلانے کی جسارت کررہے ہیں۔
وہ کیا عوامل ہیں جو خدمت ِ خلق کے لیے ان کے جذبات کو مہمیز دیتے ہیں؟ وہ کیا حاصل ہے جس کے لیے یہ اتنی تگ و دو کرتے، اور لوگوں کی مدد کرکے خوشی اورمسرّت کے نور سے ان کے چہرے منوّر ہوجاتے ہیں۔ لیکن جب تاریخ کے جھروکوں میں جھانکا تو معلوم ہوا کہ خدمت ِ خلق کا یہ جذبہ تو ہمارے اسلاف کے پہچان اورعلامت ہے۔
یہی ہے عبادت، یہی دین وایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ جذبہ اور احساس اللہ تعالیٰ اپنے چنیدہ اور منتخب لوگوں میں پیدا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلی وحی کے نزول کے بعد سیدہ خدیجہؓ نے نبی کریمؐ کی جن صفات کا ذکرکیا، وہ ایک مسلمان کے لیے زادِ راہ سے کم نہیں۔ آپؓ نے فرمایا: ’’اے اللہ کے رسولؐ! بے شک آپؐ صلۂ رحمی کرتے ہیں، لوگوں (کم زوروں، یتیموں اور غریبوں) کا بوجھ اٹھاتے ہیں، ناداروں کی مددکرتے ہیں، لوگوں کی مشکلات کو دورکرتے ہیں‘‘۔
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرّو بیاں
شاید سیدنا ابوہریرہؓ سے مروی یہ حدیث ایسے لوگوں کو اس کارِخیر کے لیے وقف ہوجانے کے لیے آمادہ کرتی ہے جس میں نبی اکرم ارشاد فرماتے ہیں کہ جو شخص دنیا میں کسی مسلمان کی تکلیف،پریشانی کو دورکرے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کی تکلیف،پریشانی کو دورکرے گا۔ اور اللہ تعالیٰ اس شخص کی مدد کرتا رہتا ہے جو دوسروں کی مدد کے لیے کوشاں رہتاہے۔ غالباً خلیفہ دوم سیدنا عمر بن خطاب کا رات میں مدینے کی گلیوں میں گشت کرنا اور ضرورت مندوں کی خبرگیری کرنا انہیں خدمت خلق کے کاموں میں آگے بڑھاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خدمت خلق کا راستہ وہ راستہ ہے جس پر چل کر رب کی رضا کا حصول ہوتا ہے۔ جس راستے کے راہی کی منزل صرف اور صرف جنت ہوتی ہے۔ یقینا موجودہ حالات میں خدمت ِ خلق کرنے، لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کی جدوجہد کرنے اور ان کے حقوق کے لیے صدا بلندکرنے والوں کو اللہ تعالیٰ اپنی شان سے نوازے گا، انہیں جنت کے محلات کا حقدار بنائے گا اور اپنے دیدار سے مشرّف بھی کرے گا۔
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے