’’حقیقت میں بدلتا خواب‘‘

401

ہماری نظر میں نہ تو گزشتہ صدی میں اس حوالے سے کوئی دو رائے تھی اور نہ آج ہے کہ ہمارے پاکستان اور پاکستانیت میں جتنی صلاحیت، اہلیت، قابلیت و لیاقت ہے، اتنی کسی دوسرے کو مقدر نہیں ہو سکی۔ اس کی ایک ادنیٰ ترین مثال ’’اوٹا‘‘ ہے۔ سب تو نہیں مگر ہمارے بعض ہم وطن شاید سوچ رہے ہوں گے کہ نجانے یہ ’’اوٹا‘‘ کیا شے ہے چنانچہ ’’دفع تذبذب‘‘ کے لیے یہاں مختصر وضاحت کی جا رہی ہے، توجہ فرمائیے:
آج سے 55 برس قبل جیسے ہی ہم اسکول جانے کی عمر کو پہنچے تو ہماری والدہ نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، ہمارا ہاتھ پکڑ کر قدرے گھسیٹنے کے انداز میں ہمیں لے کر گھر سے 2.6فرلانگ کے فاصلے پر واقع لال چہار دیواری میں داخل ہوئیں اور ہمیں ایک خاتون کے حوالے کر دیا جو ہمیں ’’ہانکتے‘‘ ہوئے ایک ایسے کمرے میں لے گئیں جہاں ایک ’’عمر رسیدہ‘‘ کرسی اور ایک چوپایہ یعنی 4ٹانگوں والی میز موجود تھی جبکہ باقی ماندہ کمرے میں گنجائش سے کہیں زیادہ بچے فرش پر بچھے ٹاٹ پر ’’آلتی پالتیانہ‘‘ انداز میں پھسکڑا مار کر بیٹھے شور مچا کر وقت گزار رہے تھے۔ اس خاتون نے ہمیں ان معصوموں کے جھنڈ میں دھکیل دیا اور پھر ہماری والدہ سے مخاطب ہو کر کہنے لگیں کہ ایک بجے لے جائیے گا۔ والدہ کو جاتے دیکھ کر ہماری آنکھوں نے آنسوئوں کے بہاؤ کا بندوبست کیا مگر اْسی لمحے کرسی پر براجمان خاتون نے ہمیں اپنے پاس بلایا اور سب بچوں کو مخاطب کر کے انہیں آگاہ کیا کہ یہ آپ کے نئے ساتھی ہیں۔ ہم نے موقع غنیمت جان کر اْس خاتون سے استفسار کیا کہ ’’محترمہ! آپ اپنے بارے میں بھی کچھ فرمائیے کہ کون ہیں، کیا ہیں، کیوں ہیں، کہاں ہیں، کب سے ہیں؟ انہوں نے جواب عطا کرنے سے قبل فرمایا کہ پالنے میں دکھائی دینے والے پوت کے پاؤں اس امر کی گواہی دے رہے ہیں کہ آپ ’’اخباری طینت‘‘ کے حامل ہیں چنانچہ امکان یہی ہے کہ مستقبل میں آپ صحافتی دنیا کے ہی کسی کونے کھدرے میں سرگرداں دکھائی دیں گے۔ پھر گویا ہوئیں کہ یہ چہار دیواری سرکاری اسکول ہے اور یہ کمرہ اس اسکول کی ’’کچی جماعت‘‘ ہے جہاں ناخواندگانِ وطن کو ٹاٹ پر بٹھا کر فہم و فراست عطا کی جاتی ہے۔ میں شکیلہ ہوں، آپ کی استانی ہوں، آپ کو تعلیم کا زیور پہنانا میری ذمے داری ہے۔
یقین جانئے، ہمارے ہاں کے ٹاٹ اسکول ماضی میں بھی اپنی مثال آپ تھے اور آج بھی ہیں۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ہماری مس شکیلہ نے کچی کی کلاس ٹیچر ہونے کے ناتے ہمارے کچے ذہن کو صرف10 ماہ میں اس قابل کر دیا تھا کہ ہم پکی میں پہنچ گئے تھے۔ وہاں ہر استاد اور ہر استانی اپنے مضمون کے ماہر تھے۔ ہماری مس شکیلہ اور ان کی دیگر ہمجولیوں کی فطانت کا یہ عالم تھا کہ جب وہ ہم جیسے ’’مذکروں‘‘ کو سزا دیتیں تو گرجدار آواز میں کہتیں کہ چلو فوراً ’’مرغا‘‘ بن جاؤ۔ اسی طرح جب وہ ’’مونثوں‘‘ کر سزا سناتیں تو کہتیں کہ چلو، سب کی سب فوراً ’’مرغی‘‘ بن جاؤ۔ یہی نہیں بلکہ وہ لڑکیوں اور لڑکوں دونوں کو بیک وقت سزا دینے سے بھی احتراز کرتی تھیں۔ اس کے برخلاف جب ہم نے ٹاٹ اسکول سے نکل کر ’’فرنگی اسکول‘‘ میں داخلہ لیا تو وہاں کی استانیاں کسی بھی ’’تذکیر و تانیث‘‘ کی تمیز کے بغیر سب کو ایک ہی چھڑی سے ہانکتی تھیں۔ جب انہیں غصہ آتا تو وہ کمرۂ جماعت میں موجود طلبہ و طالبات سے مشکل سوالات کرتیں ا ور جب وہ جواب نہ دے پاتے تو انہیں بیک جنبشِ لب’’تَمرّْغ‘‘ یعنی مرغا یا مرغی بننے کی سزا سنا دیتیں۔ یوں یہ کسی اسکول کے کمرے سے زیادہ ’’مرغبانی کی مخلوط محفل‘‘ دکھائی دیتی تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ آج ہمارے پاس تعلیم کے جتنے بھی گہنے، کڑے، چوڑیاں، ہار، گلوبند، بالیاں، جھمکے، جھانجھریں، پائلیں، انگشتریاں ٹیکے اور جھومر وغیرہ ہیں، یہ سارے کا سارا تعلیمی زیور وہی ہے جس سے ٹاٹ اسکول کی مس شکیلہ نے ہمیں آراستہ کیا تھا۔ بفرضِ محال اگر ہماری قسمت میں مس شکیلہ اور ٹاٹ اسکول نہ ہوتا توشاید ہم بھی راتوں رات امیر بننے کے لیے کوئی ایسی حرکت کر بیٹھتے جو ’’بدعنوانی‘‘ قرار پاتی مگر ٹاٹ اسکول نے ڈنڈا، جوتا، لات، تھپڑ، طمانچے، طعن تشنیع، تلخ گوئی، عیب جوئی، تضحیک و تذلیل کے ذریعے ہماری انا کو اس انداز میں پامال کیا کہ آج ہم سٹھیانے کو ہیں مگر مجال ہے کہ ہمارے اندر کی ’’میں‘‘ یا ’’انا‘‘ نے زندگی کے کسی بھی موڑ پر ذرا سر اٹھانے کے بارے میں سوچنے کی جرأت کی ہو۔ ٹاٹ اسکول سے ’’عطا ہونے والی سزاؤں‘‘ نے ہمارے قلب و ذہن میں ایسی دہشت بٹھائی کہ آج بھی اگر ہم ان سزاؤں کے بارے میں کوئی خواب دیکھ لیں تو دھڑام سے چارپائی یا مسہری سے نیچے فرش پر جا گرتے ہیں۔ ہماری یہ بات اتنی عام ہو چکی ہے کہ دھڑام کی آواز سے جب اپنا کوئی بچہ ہڑبڑا کر اپنی ماں کی گود میں پناہ لینے کے لیے دوڑتا ہے تو ماں کہتی ہے کہ ’’بیٹے سو جا، کچھ نہیں ہوا، تیرے باوا نے ٹاٹ اسکول میں مرغ بننے کی سزا پر مبنی خواب دیکھا ہوگا‘‘۔
ٹاٹ اسکول کی عظیم تربیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج بھی ہم مس شکیلہ کے گْن گاتے ہیں۔ ہم نے شادی کے بعد اپنی بیوی کو بھی مس شکیلہ سے مرعوب کرنے کی ہر طور کوشش کی اور اْن کی عظمت ثابت کرنے والے واقعات سنائے۔
مس شکیلہ نے ٹاٹ اسکول میں قریباً 30سال تک معمارانِ قوم کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رکھا۔ سرکاری ’’ٹاٹیانہ اعداد و شمار‘‘ کے مطابق مس شکیلہ نے اپنی 30سالہ مدت ِ ملازمت کے دوران 1600سے زائد لڑکے لڑکیوں کو ’’کچی تا دہم‘‘ تعلیم دی۔ گزشتہ دنوں ہم وطن عزیز میںدستیاب ’’ٹیکنالوجی‘‘ سے محظوظ ہو رہے تھے کہ اسی دوران ہمارے ’’چالاک فون‘‘ کی اسکرین پر ایک پیغام نمودار ہوا۔ ہم نے فوراً ہی اسے وا کیا۔ اس میں لکھا تھا کہ ہم ’’ٹاٹیانہ تربیت و تعلیم سے آراستہ شاگردانِ مس شکیلہ ہیں جنہوں نے ٹاٹ اسکول کے قدیم طلبہ کی تنظیم ’’اولڈ ٹاٹینز ایسوسی ایشن‘‘ یعنی ’’اوٹا‘‘بنائی ہے۔ اس کا پہلا اجلاس 2روز کے بعد شہر لاہور کے 7ستارہ ہوٹل میں ہو گا، اس میں شرکت ضرور کیجیے‘‘۔ یہ پیغام پڑھ کر ہماری باچھیں کھل گئیں۔ دوروز کے بعد ہم اجلاس میں پہنچ گئے۔
ہوٹل کے انتہائی عالی شان ہال کا ماحول دیکھ کر ہماری تو گھگی بندھ گئی، 21ویں صدی کا 21واں سال اور ٹاٹ نشینوں سے معمور ہال، ہر مونث باحجاب، ہر مذکر بے نقاب، اسٹیج پر بھی فرشی نشست، سب کے سب لگ رہے تھے راہروانِ بہشت۔ شرکا میں زیادہ تر ’’جوڑے‘‘ تھے، جو تنہا آئے تھے، بہت ہی تھوڑے تھے۔
وہاں پرانے ہمجولیوں سے مل کر ایسا لگا جیسے وقت تھم گیا ہے، بیسیوں برس لمحوں میں ڈھل گئے ہیں، ہرکوئی ایک دوسرے کو دیکھ کر کہہ رہا تھا کہ آپ کتنے بدل گئے ہیں۔ اسی دوران اسٹیج کی بائیں جانب رکھے فرشی مائیک پر ایک ادھیڑ عمر محجوب ہستی نے حاضرین کی توجہ چاہی اور اپنا تعارف پیش کرتے ہوئے گویا ہوئیں کہ میں ’’اولڈ ٹاٹینز ایسوسی ایشن‘‘ کی صدر ہوں۔ یہ سن کر ہم پہلے تو ورطہ حیرت سے بے قرار ہوئے اور پھر ’’سکتہ حیرت‘‘ کا شکار ہوگئے کیونکہ ’’اوٹا‘‘ کی صدر فرما رہی تھیں کہ آپ سب کو یہ حقیقت جان کر خوشگوار حیرت ہو گی کہ مس شکیلہ کی تمام شاگردائیں اور شاگرد یا تو اعلیٰ مقام اور عہدوں پر متمکن ہیں یا مدت ملازمت مکمل کر کے پر وقار زندگی گزارنے میں مگن ہیں۔ اس سے بھی زیادہ ششدر کر دینے والی سچائی یہ ہے کہ مس شکیلہ سے پڑھا ہوا کوئی’’ٹاٹیا‘‘ کبھی کسی مالی بدعنوانی میں ملوث رہا ہے نہ خیالی بدعنوانی میں، نہ کسی سیاسی بدعنوانی میں ملوث رہا ہے نہ ازدواجی بدعنوانی میں، نہ کسی ثقافتی بدعنوانی میں ملوث رہا ہے نہ صحافتی بدعنوانی میں، نہ کسی وزارتی بدعنوانی میں ملوث رہا ہے نہ تجارتی بدعنوانی میں، حتیٰ کہ نہ کسی زنانی بدعنوانی میں ملوث رہا ہے نہ مردانی بدعنوانی میں۔ اسی لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ملک سے ’’بدعنوانوں اور بدعنوانیوں‘‘ کا صفایا کرنے کے لیے آئندہ انتخابات میں ’’اوٹا‘‘ بھی حصہ لے گی۔ ہماری ایسوسی ایشن برسرِ اقتدار آگئی تو مس شکیلہ کی دلی خواہش کے مطابق قومی سطح پر ملک کے گلی کوچوں میں روزانہ صبح 9بجے سے رات 9بجے تک 12گھنٹے کے لیے تمام ’’کرپٹوں‘‘ کو مرغا اور تمام ’’کرپٹنوں‘‘ کو مرغی بننے کی سزا دے گی۔
اجلاس کے اختتام کے بعد ہم گھر آئے اور سونے کے لیے لیٹ گئے۔ آنکھ لگتے ہی مستقبل کا حَسیں خواب دکھائی دینے لگا۔ دل گواہی دے رہا تھا کہ ملک میں ’’اوٹا‘‘ کی حکمرانی قائم ہو چکی ہے۔ مس شکیلہ کے حکم کے مطابق ہمارے شہر کے چوراہوں میں کہیں کوئی بدعنوان مرغا بنا ہوا ہے اور کہیں کوئی ’’بدعنوانی‘‘ مرغی بنی ہوئی ہے۔ حقوقِ انسانی کے ’’ڈھنڈورچی‘‘ بھی یہ سوچ کر خاموش ہیں کہ اس ’’سزائے تمرغ‘‘ یعنی ’’مرغ بننے کی سزا‘‘ میں خواتین بہر حال مردوں کے شانہ بشانہ ہیں اور یہی ان کی خواہش ہے کہ تذکیر و تانیث کی تمیز کے بغیر تمام مونثوں کو مذکروں کے مساوی حقوق دیے جائیں۔ اسی اثنا میں دھڑام کی آواز سنائی دی اور ہماری آنکھ کھل گئی۔ ہماری ماسی چلائی ’’بیگم صاحبہ! صاحب جی منجی تو تھلے ڈگ پئے نیں‘‘۔ وہ بڑبڑائیں کہ انہوں نے پھر بدعنوانوں کو دی جانیوالی سزا کا خواب دیکھ لیا ہوگا۔ میں انہیں کتنا سمجھاتی ہوں کہ یہ خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔ یہ سن کر ماسی بولی ’’مگر بیگم صاحبہ! اب تو صاحب کا خواب ’’حقیقت میں بدلتا دکھائی دے رہا ہے، بس ذرا انتظار اور کر لیں‘‘۔
ماسی کی یہ باتیں سن کر سونے کی ضرورت ہی نہیں رہی، ہم نے کھلی آنکھوںہی خواب دیکھنا شروع کر دیا۔