’’میری مرضی، میرا جسم ‘‘

526

8مارچ کو دنیا میں ہر کہیں اور پاکستان میں کہیں کہیں زنانہ اور ’’نیم زنانہ‘‘ آوازوں میں ہا ہا کار بلند ہوتی ہے جس کے زیر و بم ہمارے فشار الدم کو تہ و بالا کر دیتے ہیں اور ہمارے ذہن و دل میں موجود ’’تصویر کائنات‘‘ کا منہ کالا کر دیتے ہیں۔
پیر فرتوت کا زریں قول ہے کہ:
اگر کسی ہستی کے ’’سر سے پاؤں تک حَسین ہونے کا دعویٰ کیا جائے تو اس دعوے کی سچائی کے لیے ضروری ہے کہ یہ ہستی ’’پاؤں سے سر تک بھی حَسین ہو‘‘۔ اگر یہ سر سے پاؤں تک حَسین مگر پاؤں سے سر تک بد صورت ہو تو یہ دعویٰ بے بنیاد ہوگا۔ اسی طرح عورت مارچ والوں کا دعویٰ ہے کہ ’’میرا جسم، میری مرضی‘‘ یعنی میرا جسم میری مرضی کے مطابق ہوگا تو پھر یہ بھی لازمی ہونا چاہیے کہ ’’میری مرضی، میرا جسم ‘‘ یعنی میری مرضی بھی میرے جسم کے مطابق ہی ہونی چاہیے لیکن حقیقتاً ایسا بالکل بھی نہیں۔ مردانہ برانگیختگی کا حامل یہ نعرہ بلند کرنے والے وجود اگر حقیقت جاننا چاہیں تو ذرا قدآدم آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر خود سے سوال کریں کہ کیا میرا یہ جسم میری مرضی کے مطابق ہے؟ جواب ملے گا ’’قد ذرا سا اور اونچا ہوتا، کلائی اتنی پتلی نہ ہوتی بلکہ ذرا صحت مند پہنچا ہوتا، زلف بھی ذرا دراز ہوتی، خمِ کاکل سے اس کی ساز باز ہوتی، ’’خد‘‘ ذرا اور عیاں ہوتے ’’خال‘‘ ذرا اور پنہاں ہوتے، قطن کا گھیرا ذرا ہلکا ہوتا، بطن بھی اتنا نہ ڈھلکا ہوتا، دانتوں کی رنگت بھی اتنی نہ پیلی ہوتی، آواز بھی ذرا سریلی ہوتی۔ پھر جو نظر مجھ پر پڑتی وہ کہتی کہ میرا دل یہی کہہ رہا ہے کہ ’’تیرا جسم، میری مرضی‘‘، مگر زمینی حقیقت اس کے بالکل برعکس ہوتی ہے، ہر نظر یہی کہتی ہے کہ ’’تیرا جسم، تیری مرضی‘‘ چنانچہ وہ ہستی مبینہ ’’مظلومیت‘‘ کی آڑ میں اپنی جسمانی ’’کم صورتی یا بدصورتی‘‘ کے احساس کو کم کرنے کے لیے یہ نعرہ لگانے پر مجبور ہوتی ہے کہ ’’میرا جسم، میری مرضی‘‘۔
پھر ایسا ہوا کہ 8مارچ کو ہم عورت مارچ دیکھنے پہنچ گئے جہاں ہم نے دیکھیں ’’جسم‘‘ کو مرکز مان کر بنائے جانے والے نعروں پر مبنی پلے کارڈز اور تختیاں، کتبوں پر تحریر مردوں کی سختیاں، خال خال دکھائی دینے والی خوش بختیاں، ان کے درمیان موجود تھے کچھ شادی شدہ اور کچھ کنوارے، انہوں نے تھام رکھے تھے کچھ ہودہ اور کچھ بے ہودہ فن پارے جن میں تمام زور ’’مرضی‘‘ پر دیا گیا تھا۔ اس مارچ کو دیکھ کر، سن کر اور پڑھ کر ذہن ودل میں ایک ہی بات راسخ ہو رہی تھی کہ ہمارے ملک میں کیسی ’’مدر، فادر لبرٹی‘‘ ہے، تحریر کی، تقریر کی، تفکیر کی، تدبیر کی، تحقیر کی، تقصیر کی۔ کیسی بات ہے، اگر کوئی سیاستداں اپنے قول سے ہٹ کر چلے تو اسے ’’ابلاغِ ساکت‘‘ اور ’’ابلاغِ متحرک‘‘ یعنی اخبارات اور ٹی وی چینلزساسوں اور نندوں کی طرح ’’یوٹرن، یو ٹرن‘‘ کے طعنے دے دے کر ناطقہ بند کر دیتے ہیں مگر ان ’’اَٹھ مارچنوں‘‘ نے تمام مشرقی روایات و اخلاقیات سے ’’اَباؤٹ ٹرن‘‘ کر لیا ہے مگر کوئی ان کا ناطقہ بند نہیں کر رہا۔
پھر یوں ہوا کہ میری زندگی میں اک لمحہ تحیر آگیا، میری سوچوں میں تغیر آگیا۔ مجھے ’’جسم اور مرضی‘‘ کی رٹ لگانے والے انتہائی مفلس و نادار دکھائی دینے لگے۔ میرا وجود اپنی ہی نظروں میں مسمار ہونے لگا اور میں نے اسے سنبھالا دینے کی چنداں کوشش نہیں کی۔ ہوا یوں کہ میں اپنے ایک دوست کی 16سالہ بیٹی کی عیادت کے لیے شہر کے معروف اسپتال پہنچا۔ میں اسے دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کا ایک بازو کاٹ دیا گیا تھا۔ میں نے سبب دریافت کیا تو پتا چلا کہ سرطان اتنا پھیل چکا تھا کہ بازو کاٹنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ میں جو عمر کے لحاظ سے اس معصوم کے والد سے بھی بڑا تھا، ریختہ دانی، شعلہ بیانی، مہارت لسانی اور جذبہ انسانی سبھی کو کرید رہا تھا تاکہ اس کی ڈھارس بندھانے کے لیے چند الفاظ میسر آجائیں تاکہ انہیں جملے کی لڑی میں پِرو کر اس سے یہ ’’جھوٹ‘‘ بول سکوں کہ میری پیاری گڑیا! فکر نہ کرنا، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ میں اپنی تمام ’’ہمم‘‘ مجتمع کر کے اس کے سرہانے کے قریب پہنچا ہی تھا کہ اس کے سنہرے کمان دار ابروؤں کے زیرِ سایہ مسکراتی نیلی آنکھوں نے سفید نیم وا حجاب کی اوڑ سے میرا استقبال کیا اور ایک انتہائی ناعم صدا نے میری سماعتوں پر یوں دستک دی کہ ’’چاچا! آپ کیسے ہیں؟ آپ اپنی بیٹی کو ساتھ نہیں لائے، آئندہ آپ اسے لے کر نہ آئے تو میں ناراض ہو جاؤں گی‘‘۔ میں نے اس سے کہا کہ آپ کا بازو کاٹ دیا گیا، میری بچی کو کیسا محسوس ہو رہا ہے؟ اس نے جواب دیا ’’انکل! یہ زندگی، کیا ہے، سب کچھ اللہ کریم کی مرضی۔ میرے جسم سے ایک بازو جدا ہو گیا تو کیا ہوا، یہ بھی اللہ کریم کی مرضی۔ ہمارا اپنا تو کچھ بھی نہیں، جو ہے، اللہ کریم کی مرضی۔ ہمارا کام تو یہ ہے کہ رب کریم کی مرضی میں ہم راضی رہیں، یہی تو ادائے زندگی ہے اور یہی تقاضائے بندگی ہے۔
یقین جانئے، اس بچی کی باتیں سن کر میں اپنا نطق گنوا بیٹھا۔ وہ مجھے صبر و شکرکا ہمالہ لگ رہی تھی اور اس کے سامنے میں خود کو اک ایسی مشت ِ خاک سمجھنے پر مجبور تھا کہ جس کا ذرہ ذرہ محض یہ سوچ کر اپنے وجود سے نفرت کر رہا تھا کہ میں ایک روز قبل ہی ’’عورت مارچ‘‘ دیکھنے کا جرم کر کے آیا تھا۔ کاش ’’مکمل جسم‘‘ والیاں، ایک مرتبہ اس نامکمل وجود کے ’’ایوانِ فکرو تدبر‘‘ میں چند لمحے گزار لیں تو ان کی زندگی میں مارچ کا مہینہ تو ہر سال آئے گا مگر 8مارچ کبھی نہیں آئے گی۔