ایف اے ٹی ایف جیسے مسائل کمزور خارجہ پالیسی کانتیجہ ہیں

213

اسلام آباد (تجزیہ : میاں منیر) کشمیر کے مسئلہ کی حساسیت اور خطہ میں قومی سلامتی کے امور کی بہتر نگرانی، ریاستی مفادات کی بے مثال نگہبانی اور مثبت نتائج کے لیے ماضی میں پارلیمانی کشمیر کمیٹی کو قومی سلامتی کمیٹی میں ضم کرنے اور غیر مبہم پالیسی اپنانے، خارجہ، دفاع، معیشت، اطلاعات و نشریات کی وزارتوں کو پوری یکسوئی کے ساتھ اس معاملہ کا مسلسل جائزہ لیتے رہنے کی تجویز اور سفارشات دی گئی تھیں، تاکہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے کشمیر کے مسلئہ کو اجاگر کرنے کے لیے ایک بہترین فورم کے طور پر استفادہ کیا جاسکے، یہ سفارشات کمیٹی نے2018 میں اس خطہ میں بڑے معاشی منصوبے سی پیک کی روشنی میں اور اس خطہ میں امن کے قیام کے لیے دی گئی تھی سوچ یہ تھی کہ چونکہ بھارت، اسرائیل اور امریکا ٹرائکا پاکستان کی معاشی لائف لائن کے لیے اہمیت رکھنے والے منصوبے سی پیک کے خلاف باہمی گٹھ جوڑ میں ملوث ہے، اسی لیے پاکستان کو امن کے قیام کے لیے پہلے سے بڑھ کر کوشش کرنا ہوگی اسی لیے سی پیک کے خلاف عالمی سازش اور اس خطہ کے حالات کے پیش نظر اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے حوالے سے بھارتی حکومت کی تنگ نظری اور ایف اے ٹی ایف جیسے چیلنج کے مقابلے کے لیے کشمیر کمیٹی سے نہایت عرق ریزی کے بعد سفارشات مرتب کی تھیں، یہ بات قابل ذکر ہے کہ دو روز قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی سیکورٹی کانفرنس میں اپنے خطاب میں انہی خطوط پر گفتگو کی تھی، کشمیر کمیٹی کے سابق چیئرمین جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے آرمی چیف کی گفتگو کو سراہا ہے اور بات پر زور دیا کہ سیاسی جماعتوں اور قومی سلامتی کے اداروں کو باہم مل کر ملکی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے مشترکہ سوچ آگے بڑھانی چاہیے، کشمیر کمیٹی نے2018ء میں جن سفارشات کو پارلیمنٹ اور حکومت کے سامنے پیش کیا تھا ان کا بنیادی نکتہ یہی تھا کہ اس خطہ میں امن کے قیام کے لیے ہر ممکن حد تک کوشش ہونی چاہیے، کیونکہ یہ بات محسوس کی گئی جارہی تھی کہ عالمی دنیا اس خطہ میں اپنے معاشی مفادات کے پیش نظر کشمیر میں بھارت کی جانب سے اٹھائے مظالم پر خاموش رہتی ہے، اور دنیا میں اس وقت ہر خطہ میں معاشی مفادات کی اپنی ایک اہمیت ہے لہٰذا انہی حقائق کے پیش نظر کمیٹی نے کشمیر کے مسئلہ پر مربوط کوششوں اور یکسوئی اختیار کرنے کی سفارشات مرتب کی تھیں، اور پارلیمانی کشمیر کے اس وقت کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن کی جانب سے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو خط بھی لکھا گیا جس میں سفارشات کی بنیاد کی وضاحت کی گئی تھی تاہم اس وقت حکومت ان سفارشات پر عمل درآمد سے گریز کرتی رہی کشمیر کمیٹی نے یہ بات بہت سوچ سمجھ کر طے کی تھی کہ ایف اے ٹی ایف جیسے مسائل کمزور خارجہ پالیسی کے باعث پیش آئے، ذرائع کے مطابق کشمیر کمیٹی کی یہ سفارشات اور پانچ اگست کے واقعہ کے بعد اس بات کی اشد ضرورت محسوس کی گئی کہ بھارت کو مجبور کیا جائے کہ وہ کشمیر کا مسئلہ سنجیدگی کے ساتھ باہمی بات چیت کے ساتھ حل کے لیے تیار ہو اور اس مسلئہ کے حل کے لیے سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کی قراردادیں بہترین رہنماء اصول فراہم کرتی ہیں، خطہ کے حالات اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کے تکلیف دہ واقعات اقوام عالم کے سامنے اجاگر کرنے لیے یہ سفارش کی گئی کہ کشمیر کمیٹی جیسے اہم پارلیمانی فورم کو قومی سلامتی کمیٹی کا حصہ بنایا جائے تاکہ خارجہ پالیسی کے یہ کمیٹی بہترین رہنمائی فراہم کرے اور پارلیمنٹ کے فورم سے فائدہ اٹھایا جائے کیونکہ دنیا بھر میں پارلیمانی فورم کی اہمیت تسلیم شدہ ہے، کمیٹی نے یہ بھی سفارشات مرتب کی تھیں کہ پاکستان کے لیے سی پیک جیسا منصوبہ بہتر معاشی مستقبل کے لیے بہت ضروری ہے اور اس کے خلاف بھارت، امریکا اور اسرائیل کی ٹرائیکا کا مقابلہ اسی صورت کیا جاسکتا ہے کہ خارجہ پالیسی اور کشمیر کے ایشوز کو کشمیر کمیٹی اور قومی سلامتی کمیٹی کو ایک سوچ اور ایک آنکھ سے دیکھا جائے اور یہ مسئلہ یکسوئی کے ساتھ دیکھا اور اس کا مسلسل جائزہ لیا جائے، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کی جانے والی قرارداوں میں بھی بہت رہنمائی اور مسئلہ کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے سیر حاصل بحث کی گئی تھی اور کمیٹی کی سفارشات تھیں کہ بھارت جس طرح جارحانہ انداز میں اجیت دودل کی ڈاکٹرائن آگے بڑھا رہا ہے اس کا راستہ روکنے کے لیے خارجہ محاذ پر بھرپور سعی کی ضرورت ہے، کشمیر کمیٹی کی یہ سفارشات مرتب کرتے ہوئے یہ بات ذہن میں موجود تھی کہ پاکستان پر سی پیک کے باعث بہت دبائو ہے اور اس کے مقابلے کے لیے قومی سلامتی کمیٹی اور پارلیمانی کشمیر کمیٹی کو ایک کردینا بہت ضروری ہے تاکہ عالمی دبائو کے خلاف ایک بہتر حکمت عملی تیار کی جاسکے، امریکا اور بھارت سی پیک کے خلاف ہیں انہیں اسرائیل کی بھی حمایت اور تائید حاصل ہے اسی لیے کمیٹی نے سفارشات کی تھیں کہ سی پیک کی تکیمل تک کوئی ایسا لائحہ عمل بنایا جائے یہ منصوبہ اپنی طے شدہ رفتار کے ساتھ بڑھتا رہے یہ منصوبہ پاکستان کی معیشت کے لیے بہت ضروری ہے مضبوط معیشت کے باعث ہی پاکستان عالمی دبائو سے آزاد ہوسکتا ہے۔