قصہ ڈھائی ارب کا

334

لاک ڈائون کے دوران صوبائی حکومتوں نے راشن تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان دنوں سندھ حکومت کے ڈھائی ارب کا خوب چرچا ہوا۔ صوبائی حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ اُس نے یہ خطیر رقم بانٹ دی ہے۔ ان کے مخالف یہ کہہ رہے ہیں کہ اتنی بڑی رقم اتنی جلدی کیسے بٹ گئی۔ راقم نے بھی اس پر خوب سوچ بچارکی۔ اگرآپ کسی فلور مِل کو صرف پانچ کروڑ روپے کے آٹے کا آرڈر دیتے ہیں تو وہ آپ سے دو ہفتے کا وقت لیں گے۔ کیونکہ آپ نئے گاہک ہیں۔ پہلے وہ پچھلے آرڈر پورے کریں گے۔ پھر خیال آیا ہو سکتا ہے کہ رقم تقسیم کر دی ہو۔ ہم اس مخمصے میں تھے کہ انہی دنوں سندھ کی سیاسی شخصیت سے ملاقات ہوئی۔ یہ صاحب سندھ حکومت کے افسران ِ بالا کے ہم نوالہ بھی رہتے ہیں۔ تاہم انہوں نے ہمارا کام آسان کردیا۔ وہ بتلانے لگے کہ رقوم واقعی ماتحت افسران میں تقسیم ہوتی ہیں۔ مثلاً ایک تحصیل میں اسسٹنٹ کمشنر کے پاس دو کروڑ آتے ہیں۔ اس میں سے چالیس لاکھ رکھ لیے جاتے ہیں اور بقیہ رقم پلٹا دی جاتی ہے۔ یوں آڈٹ میں بھی آسانی ہو جاتی ہے۔ آڈیٹر جنرل یہ دیکھتے ہیں کہ رقم ضلعی انتظامیہ کے اکائونٹ میں آئی یا نہیں آئی۔
یہ تو صرف ایک مثال ہے اس طرح کے سیکڑوں ہزاروں واقعات آپ کو مل جائیں گے۔ حکومت اور افسران یہ ڈھائی ارب ہڑپ کرنے کے بعد اپنے آپ کو کامیاب لوگ سمجھ رہے ہوں گے۔ وہ اپنے اندر کے Evil Genius پر احساس تفاخر سے معمور ہوں گے۔ وہ سمجھ رہے ہوں گے کہ لوگ دوسرے معاملات میں الجھے ہوئے ہیں۔ یہ معاملہ بھی رفع دفع ہو جائے گا۔ ایسا نہیں ہے۔ ڈھائی ارب کا یہ معاملہ کئی طرح کے سوالات کو جنم دے گیا ہے۔ کیا یہ لوگ مسلمان ہیں؟ یا اتفاقاً مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہو گئے؟ کیا اہلِ ایمان کا ان لوگوں کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا جائز ہے؟ میری مفتی حضرات سے مودبانہ درخواست ہے کہ ان حضرات کے مسلمان ہونے اور نہ ہونے کا تجزیہ کریں۔
اس وقت صورتحال وہیں آن پہنچی ہے جب ایک مسلمان حکمران حج کے لیے مکہ پہنچے۔ اس کو پتا چلا کہ ایک جید عالم مکہ شہر میں اپنے ہجرے میں ہیں۔ جب وہ حاکم ان سے ملا تو وہ رونے لگے۔ اللہ کے ولی نے روتے روتے کہا کہ مجھے یہ سوچ کر دکھ ہوتا ہے کہ جہنم میں تمہارے یہ نرم و نازک ہاتھ جلائے جائیں گے۔ یہ تو تھا پرانے زمانے کا ایک واقعہ۔ اب موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ہر سرکاری افسر روزانہ لاکھوں بنانے کے چکر میں ہے۔ یہ افسران اپنے دفتروں میں کم اور اسٹیٹ ایجنٹس یا پراپرٹی ڈیلروں کے ہاں زیادہ پائے جاتے ہیں۔ ہر افسر درجنوں بنگلوں کا مالک ہے۔ ہر حکومتی عہدیدار اور سرکاری افسر ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ میں شامل ہو گیا ہے۔ ایسے میں ڈھائی ارب تو کیا ڈھائی کھرب بھی ہوتے تو انہوں نے ایک ہفتے میں آپس میں بانٹ لینے تھے۔
آپ کسی بھی پراپرٹی بلڈر سے رابطہ کر کے تسلی کر سکتے ہیںکہ اگر اس ڈھائی ارب کی آدھی رقم سے زمین خرید کر گھر بنا لیے جاتے تو کراچی کے علاوہ بھی سندھ کے کئی فقیروں کو گھر مل جاتا۔ صرف یہی نہیں بلکہ انہیں مستقل روز گار کی سہولت بھی حاصل ہو جاتی بات ہے نیت کی۔ آپ نے دیکھا ہو گا آج تک کسی نے غریب کو گھر کی چابی لا کر نہیں دی ہو گی۔ یہ وہی حکمران ہیں جو اٹلی اور برطانیہ کو اپنا رول ماڈل کہتے ہیں مگر عمل کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جو کرپٹ جمہوری نظام اور خلیفتہ اللہ فی الارض کو الگ کرتا ہے۔ اسلامی نظام میں حکمران نہیں ہوتا، اللہ کا نائب ہوتا ہے۔ وہ ہمہ وقت ڈر اور خوف کی کیفیت میں رہتا ہے کہ کہیں اس سے کوئی ناانصافی نہ ہو جائے۔ خلیفہ ٔ وقت ہمیشہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ اسے دنیا کا کوئی خوف و رنج نہیں ہوتا۔ ہماری اسلامی تاریخ انصاف کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ مگر دجالی قوتیں آج مسلم نوجوانوں کو گمراہ کر رہی ہیں کہ ایسا کچھ نہیں بس ہر وقت مار دھاڑ چلتی رہتی تھی۔ قتل وغارت جاری رہتی تھی۔ یہ بکائو میڈیا آپ کو قرطبہ، قسطنطنیہ، بغداد اور بخارہ کے عروج کے بارے میں نہیں بتائے گا۔ دو وقت کی روٹی کی فکر نہیں ہوتی تھی۔ مسلم نوجوان لائبریریاں کھنگال رہے ہوتے تھے۔ خلیفہ عوام کے لیے مسافر خانے بناتے تھے تا کہ مسافر بھی باعزت طریقے سے سفر کر سکے۔ عروجِ اسلام میں ہر دور میں شفاخانے بنائے جاتے تھے۔ آج کے حکمران ہاتھی نما گاڑیوں پر نازاں ہیں جبکہ انسانیت کا جنازہ نکل چکا ہے۔ آج لوگ صاف پانی خرید رہے ہیں، تعلیم خرید رہے ہیں۔ ایسے حکمرانوں کو حساب دینا ہو گا۔