کراچی کا ڈیڈ لاک

490

پچھلی چار دہائیوں سے کراچی شہر کے ساتھ عجیب وغریب کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ تعلیم، امن و امان، ٹرانسپورٹ غرض کسی شعبے کو دیکھ لیں، انتہائی براحال ہے۔ بڑے کاروباری حضرات شہر کراچی کو ایک بڑی ورکشاپ کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ جہاں افرادی قوت بھی سستے داموں مل جاتی ہے۔ ہر طرح کا ہنر مند یہاں دستیاب ہے۔ پورٹ ساتھ ہونے کی وجہ سے بڑے کاروباری حضرات کا یہ پسندیدہ شہر ہے۔ تاہم ان کاروباری سرگرمیوں کی وجہ سے کراچی کے لوگوں کو کن مسائل سے دو چار ہونا پڑتا ہے اس کا صاحب اقتدار کو ادراک نہیں۔ ٹرانسپورٹ کا مسئلہ انتہائی بھیانک شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ کسی ایک بھی روٹ پر کوئی ڈھنگ کی بس یا ٹرین نہیں چلتی اور ارباب ِ بست وکشاد نے کبھی اس بارے میں سوچا ہی نہیں۔ وہ خود تو ہاتھی جیسی بڑی گاڑیوں میں سوار ہوتے ہیں۔ اور عوام کو کھٹارہ بسوں کے ڈنڈے پکڑا دیتے ہیں۔ آج بہت سی بچیاں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس لیے نوکری نہیں کر پاتیں کہ آنا جانا کیسے ہوگا۔ ایک مرتبہ راقم نے محکمہ ٔ ریلوے کو کراچی کے مخصوص روٹ کے لیے ایک جامع منصوبہ بھیجا تا ہم جواب ندارد۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ وفاقی حکومت تمام تر ذمے داری صوبائی حکومت پر ڈال رہی ہے اور جبکہ صوبائی حکومت وسائل کا رونا رو رہی ہے۔ اس صوبائی حکومت میں کراچی سرکلر ریلوے کی باتیں مذاق بن کر رہ گئی ہیں۔ عدالت اگر سنجیدہ ہے تو دیگر ادارے کام نہیں کرنے دے رہے۔ سندھ کی صوبائی بیوروکریسی نے کچھ نہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ اس تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگلے دس سال تک کراچی سر کلر ریلوے نہیں چلنے والی۔ کراچی کے لیے کسی بڑے منصوبے کا اعلان نہیں کیا گیا۔ حتیٰ کہ پچھلی حکومت کا گرین لائن کا منصوبہ بھی کھٹائی میں پڑ گیا۔ ایسے میں نقصان عوام کا ہو رہا ہے۔
اگر کراچی کا شہری سندھ حکومت سے بہتری کا سوال کرتا ہے تو اس کو یہ جواب دیا جاتا ہے کہ آپ لوگ سکھر اور لاڑکانہ کے لوگوں سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔ اس پس منظر میں کراچی کی سیاسی حیثیت تقسیم ہو کر رہ گئی ہے۔ ایک تنظیم ماضی کا قِصہ بن گئی ہے، پیپلز پارٹی اندرون سندھ سے نشستیں لے لیتی ہے، جماعت ِ اسلامی پھر سے پُرامید ہے، پی ٹی آئی والے ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ ن لیگ کراچی سے آئوٹ ہے۔ لہٰذا سیاسی طور پر کراچی ایک تقسیم شدہ شہر ہے۔ ایسے حالات میں لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوا۔ کراچی کی اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے گورنر راج کا عندیہ بھی دیا گیا تاہم اس کو نا قابل عمل قرار دیا۔ فوج اور نیم فوجی ادارے اب کسی اور ایڈونچر کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اب اس کا حل کیا ہے۔ فی الحال کوئی حل پیش نہیں کیا گیا۔ کراچی کو جہاں ہے جیسے ہے کی بنیاد پر رکھا گیا ہے۔
اس منظر نامے میں لوگوں کا کیا ردِ عمل سامنے آیا۔ سب سے پہلے امن و امان کو دیکھتے ہیں کراچی کے پوش علاقوں کے لوگوں نے بہت عرصہ پہلے ہی نجی سیکورٹی اداروں کی خدمات لے لی تھیں۔ یہ سیکورٹی کمپنی گھر کے باہر ایک عدد تختی لگا دیتی ہے یعنی یہ گھر فلاں سیکورٹی ایجنسی کی طرف سے محفوظ ہے۔ اور یہ سیکورٹی ایجنسیاں وقت آنے پر ڈاکووں کی خوب گوش مالی کرتی ہیں۔ رات کے وقت ان کی گاڑیاں قریبی چوکوں پر آجاتی ہیں۔ گھر کے صرف ایک خفیہ بٹن دبانے سے جدید اسلحہ لیے حاضر ہوتے ہیں۔ یہ تو ہو گیا اپنے گھر کو محفوظ بنانے کا طریقہ اب گھر سے باہر بھی نکلنا ہے۔ تو ایسے میں آپ کی اشرافیہ نے گارڈ کی گاڑیاں بھی الگ سے رکھی ہوئی ہیں۔ سُننے میں آیا ہے کہ پی ٹی آئی کے ایک رکن پارلیمنٹ پچیس گارڈز کی فوج ظفر موج کے ساتھ گھومتے ہیں۔ اب آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ عام آدمی کس کے رحم و کرم پر ہو گا۔ اب آئیے تعلیم کی طرف اشرافیہ نے کراچی میں اپنے لیے الگ تعلیمی ادارے رکھے ہوئے ہیں۔ راقم کو ایک نامی گرامی چین اسکول کی پرنسپل نے بتایا کہ ان کی بیٹی ایلیٹ اسکول میں پڑھتی ہے۔ راقم نے جب کھوج لگائی کہ یہ ایلیٹ اسکول کون سے ہوتے ہیں تو پتا چلا کہ ان کی ماہانہ فیس تیس ہزار تک ہے۔ باقی معاملات الگ ہیں۔ ایلیٹ اسکول، مڈل کلاس اسکول اور پھر گلی محلے کے انگلش اسکول۔ ایسے میں ہمارے سرکاری اسکول کہاں ہیں۔ کراچی جو دنیا کا بڑا کاسموپولیٹن شہر ہے اپنے لوگوں کو معیاری تعلیم بھی نہیں دے سکتا۔ اب آپ خود فیصلہ کیجیے کہ اگر سب کچھ لوگوں نے خود ہی خریدنا ہے تو وہ سیاستدانوں کو ووٹ کیوں دیں گے۔ اور کراچی کے بہت سے اسٹیک ہولڈرز اس بات کو سمجھ چکے ہیں کہ جب ہم کچھ ڈیلیور ہی نہیں کیا تو عوام سے کیا اُمید رکھیں۔