بچوں کو کسی کام سے روکنا یا کرنے پر مجبور کرنا بھی نفسیاتی امراض کو جنم دیتا ہے

429

لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر) ہمارے معاشرے میں نفسیاتی امراض میں اضافے کے بڑے اسباب میں اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے نظام فطرت سے دوری، معاملات میں عدم اعتدال، ذہنی دبائو، مختلف نوعیت کے صدمات، احساس گناہ، ضرورت سے زیادہ توقعات، بچوں کی شادی میں تاخیر، میاں بیوی کی سماجی حیثیت، تعلیم اور عمر میں تفاوت، باہم کشیدگی اور وراثت میں ملنے والے نفسیاتی مسائل شامل ہیں۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز ماہرین معروف ماہر نفسیات، تربیت کار اور متعدد کتب کے مصنف اختر عباس، غذائیات اور نفسیات کی ماہر ڈاکٹر نوشین ناز، ممتاز کلینیکل سائیکا لوجسٹ پروفیسر ارشد جاوید نے ’’روزنامہ جسارت‘‘ کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’معاشرے میں نفسیاتی امراض کیوں بڑھ رہے ہیں؟‘‘ اختر عباس نے بتایا کہ نفسیاتی عوارض میں اضافے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ معاشرے کا ہر فرد آرزووں اور توقعات کا ایک پہاڑ اپنے ساتھ لیے پھرتا ہے مگر وہ ضرورت سے زیادہ ان توقعات کی قیمت دینے اور محنت کرنے پر تیار نہیں‘ اسی طرح لوگ اپنے آپ کو جائزآمدن تک محدود رکھنے اور اس پر مطمئن ہونے کے بجائے ناجائز کمانے والوں کی عیش و عشرت دیکھ کر کڑھتے ہیں اور عموماً اپنا غصہ اپنے گھر والوں اور بچوں پر نکالتے ہیں‘ اس طرح نفسیاتی مسائل جنم لیتے ہیں‘ گھریلو تعلقات میں خرابی اور کشیدگی بھی خانگی اور خاندانی بحران کا سبب بنتی ہے جس سے میاں، بیوی، بچوں، والدین اور بہن و بھائی کے مابین تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے‘ بچوں کی شادی میں تاخیر بھی نفسیاتی مسائل میں اضافہ کی وجہ ہے‘ بچوں خصوصاً بچیوں کی شادی کی عمر 22 سے 24 سال ہے مگر جب آئیڈیل کی تلاش، موزوں رشتہ نہ ملنے یا دیگر وجوہ سے بچی کی عمر 35-30 سال ہو جاتی ہے تو پھر اسے لڑکی نہیں‘ عورت سمجھا جانے لگتا ہے اور اس کے لیے کنوارہ اور موزوں نوجوان نہیں ملتا تو سمجھوتے کرنا پڑتے ہیں جو نفسیاتی بحران کا سبب بنتا ہے‘ اسی طرح اعلیٰ عہدوں اور اعلیٰ تعلیم کی حامل لڑکی کے اونچے خواب جب پورے نہیں ہو پاتے تو اس کو اپنے سے کم تر تعلیم یافتہ، مالی اور سماجی حیثیت کے نوجوان سے شادی کرنا پڑتی ہے‘ زوجین کا یہ عدم توازن عملی زندگی میں دو طرفہ چپقلش، مارکٹائی اور ایک دوسرے کو قبول نہ کرنے کا باعث بنتا ہے‘ ان مسائل کا ایک اور بڑا سبب دولت مند خاندانوں کے بچوں کا ذمہ داری قبول کرنے سے گریز، عیش و آرام طلبی اور محبت کی شادی کے چکر میں والدین کے لیے پریشانیاں پیدا کرتے ہیں‘ والدین عام طور پر اس صورتحال پر قابو نہیں پا سکتے‘ ایسی کم و بیش آدھی شادیاں ناکامی سے دو چار ہوتی ہیں اور معاشرے میں نفسیاتی امراض میں اضافے کی وجہ بنتی ہیں۔ ڈاکٹر نوشین ناز نے کہا کہ خالق کائنات نے انسانوں کے لیے زندگی گزارنے کا بھی ایک نظام مقرر کیا ہے‘ اس نظام فطرت کے مطابق عمل کیا جائے تو انسانی نفسیات اور رواج اطمینان اور سکون میں رہتی ہیں مگر جب ہم جدت پسندی کے نام پر اپنی فطرت کے خلاف کام کرتے ہیں تو انسان کے اندر سے بھی ردعمل سامنے آتا ہے‘ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک جداگانہ مزاج دیا ہے‘ اسی طرح جب وہ اپنی فطرت سے ہٹ کر چلتا ہے تو نفسیاتی امراض کا شکار ہو جاتا ہے۔ قرآن حکیم میں انسان کو نظم و ضبط، سادگی، صاف ستھرے ماحول، باہم محبت و یگانگت، چھوٹوں سے شفقت، بڑوں کی عزت اور والدین کا ہر حال میں احترام کرنے کی ہدایت دی گئی ہے‘ دین ہمیں اعتدال اور توزان قائم رکھنے کی تعلیم دیتا ہے جب ہم اسے ترک کرتے ہیں تو نفسیاتی مسائل سے دو چار ہو جاتے ہیں‘ انسانی رویوں میں توازن و اعتدال بہت سی پریشانیوں اور نفسیاتی الجھنوں سے محفوظ رکھتا ہے‘ بچوں پر سختی ہونا چاہیے مگر سختی اور بے جا سختی میں فرق ہے‘ اسی طرح آزادی اور بے جا آزادی میں بھی فرق پیش نظر رکھ کر اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہیے جو کامیابی کی ضمانت ہے‘ گھر میں ملازموں پر سختی، دوسروں پر حکم چلانے اور چیخنے کی عادت انسانی فطرت سے ہٹے ہونے کی نشانی ہے‘ نفسیاتی امراض سے محفوظ رہنے کے لیے ہمیں اپنے رب کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے فطرت کے مطابق اعتدال کا رویہ اپنانا ہو گا۔ پروفیسر ارشد جاویدنے بتایا کہ ہر نفسیاتی مرض کے پیچھے الگ وجہ ہوتی ہے‘ ذہنی دبائو، خود کو سزا دینے کا جذبہ، احساس گناہ، کسی واقعے یا صدمے کے اثرات، والدین کے سیرت و کردار یا ان کی ناکامی وغیرہ کے باعث ان کی نفسیاتی بیماریوں کی وراثت میں منتقلی ہمارے معاشرے میں نفسیاتی امراض میں اضافے کے بڑے اسباب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بعض اوقات کوئی ذہنی صدمہ یا جسمانی خرابی نفسیاتی امراض کا باعث بنتی ہے‘ یہ خرابی ٹھیک ہو جاتی ہے مگر اس کے اثر سے پیدا ہونے والے نفسیاتی مسائل ختم نہیں ہوتے‘ کوئی فرد کوئی کام کرنا چاہتا ہے مگر معاشرہ اس میں رکاوٹ بن جاتا ہے‘ بچوں کو کسی کام سے زبردستی روکنا یا کوئی کام کرنے پر مجبور کرنا بھی نفسیاتی امراض کو جنم دیتا ہے‘ بعض لوگ مخصوص مقاصد یا توجہ کے حصول یا کوئی فائدہ اٹھانے کے لیے بھی خود پر نفسیاتی امراض کے طاری ہونے کا اظہار کرتے ہیں حالانکہ وہ بیمار نہیں ہوتے‘ میاں بیوی کے مابین کشیدگی، زوجین کے تعلقات میں کسی کام کو گناہ سمجھنا، ماضی کے بعض واقعات اور تجربات اور شدید مایوسی بھی ذہنی امراض میں اضافے کا سبب بنتے ہیں‘ ان امراض سے انسانی جسم میں بعض کیمیائی تبدیلیاں بھی رونما ہوتی ہیں جن کا علاج ادویات سے ممکن ہے۔