دل کی بات

528

علامہ اقبال نے کہا ہے:
ہزار خوف ہو لیکن، زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
وزیر اعظم جناب عمران خان اپنے جذبات کے اظہار میں بعض اوقات مصلحت کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور نتائج کی پروا کیے بغیر جو جی میں آئے کہہ دیتے ہیں، چنانچہ انہوں نے 29جنوری کو اسلام آباد میں پانی کے حوالے سے ڈاکومنٹری کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جو کچھ کہا، اس کا خلاصہ یہ ہے:
’’ہم چین گئے تو وہاں ہمیں دس اور بیس سال کے منصوبے دکھائے گئے، یعنی انہیں معلوم ہے کہ آئندہ دس بیس سال میں انہوں نے کیا کرنا ہے، بدقسمتی سے ہمارے جمہوری نظام میں ہر پانچ سال بعد انتخابات ہوتے ہیں، حکمران مختصر مدتی منصوبے بناتے ہیں تاکہ وہ پانچ سالہ دورانیے میں مکمل ہوجائیں، پھر اربوں روپے کے اشتہارات دے کر ان منصوبوںکی مارکیٹنگ کی جائے اور ان کی بنیاد پر آئندہ انتخابات جیتے جائیں، (روزنامہ دنیا: ’’شہ سرخی‘‘ میں شائع شدہ خبرکے متعلقہ حصے کا خلاصہ)‘‘۔ الغرض وزیر اعظم دل کی بات زبان پر لے آئے۔
اقتدار میں آنے سے پہلے وہ سودنوں میںکرپشن کو مٹانے کے دعوے کر تے رہے، اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے اس مدت کو بڑھاکر پہلے چھ ماہ کیا اور پھر ایک سال میں تبدیلی لانے اور نیا پاکستان بنانے کے دعوے کرتے رہے، لیکن اب انہوں نے حقائق کا ادراک کرتے ہوئے ایسے دعووں سے ہاتھ کھینچ لیا ہے،اب وہ کہتے ہیں: ’’میرے ہاتھ میں الہ دین کا چراغ نہیں ہے کہ جسے جلاکر پل بھر میں انقلاب لے آئوں‘‘۔ اب وہ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ملک میں جوہری تبدیلی لانے کے لیے دیرپا یا مستقل اقتدار چاہیے، جیسا کہ چین میں شی جن پنگ تاحیات صدر ہیں، انہیں اپنے اقتدار کے زوال کی فکر نہیں ہوتی، اسی لیے وہ یکسو ہوکر منصوبہ بندی کرتے ہیں اور ملک کو آگے بڑھاتے ہیں، ترکی کے صدر رجب طیب اردوان اور روس کے صدر ولادی میر پیوٹن بھی اسی شعار کو اختیار کر رہے ہیں۔ لیکن جمہوریت میں ایسا ممکن نہیں ہے، بادشاہت کی بات الگ ہے۔ جنابِ وزیر اعظم کی یہ سوچ ایک طرح سے جمہوریت سے مایوسی کی علامت ہے۔ وزیرِ اعظم کے مخالفین طعن کرتے ہوئے موجودہ جمہوری سیٹ اپ کوہائی برِڈ سے تعبیر کرتے ہیں۔ ہائی برِڈ کے معنی ہیں: ’’مادہ سے پیدا ہونے والا مخلوط النسل بچہ‘‘، یعنی وہ موجودہ جمہوری نظام کو حقیقی جمہوریت تسلیم نہیں کرتے، اس لیے وہ اس پر سلیکٹڈ کی پھبتی بھی کستے ہیں۔ ماضی میں ہمارے فوجی آمروں کی خواہش بھی یہی رہی کہ انہیں تاحیات اقتدار کی لذتیں نصیب ہوں، لیکن غالب کے بقول انجام یہ رہا:
ہزاروں خواہشیں ایسی، کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارماں، لیکن پھر بھی کم نکلے
نکلنا خُلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں، لیکن
بہت بے آبرو ہو کر، ترے کوچے سے ہم نکلے
دراصل ہمارے عوام ہر نئے صاحبِ اقتدارسے بلند وبالا امیدیں باندھتے ہیں، امیدیں پوری نہ ہونے پر انہیں مایوسی ہوتی ہے، جلد اکتا جاتے ہیں اور پھر نفرت کرنے لگتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں صرف پی ٹی وی تھا، اس وقت ایک لطیفہ مشہور ہوا تھا: ’’ایک شخص ٹی وی مکینک کے پاس گیا اور کہا: ’’میرے ٹی وی میں خرابی ہے، اسے ٹھیک کردو‘‘، مکینک نے ٹی وی چلا کر ہر طرح سے دیکھا، وہ ٹھیک کام کر رہا تھا، اس نے ٹی وی کے مالک سے کہا: ’’یہ تو بالکل ٹھیک ہے، اس میں کوئی خرابی نہیں ہے‘‘، ٹی وی کے مالک نے جواب دیا: ’’اس کے اسکرین میں بھٹو صاحب پھنس گئے ہیں، انہیں نکال دو‘‘۔ یہ دراصل اس بات پر طنز تھا کہ بھٹو صاحب کی نمود ٹی وی پر بہت زیادہ ہورہی ہے، پھر یہی کثرتِ نمود نفرت کا باعث بنتی ہے۔ چودھری پرویز الٰہی نے صدر جنرل پرویز مشرف کے بارے میں کہا تھا: ’’ہاں! ہم دس بار انہیں وردی میں منتخب کریں گے اور پرویز مشرف پر اس بیان سے جو کیفیت طاری ہوئی ہوگی، غالب کا یہ شعر اس کی تصویر ہے:
دیکھنا تقریر کی لذت، کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا، کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
لیکن نہ تو ماضی کے آمروں کی تاحیات اقتدار کی خواہشیں پوری ہوئیں اور نہ انہیں اقتدار سے باعزت رخصت ہونا نصیب ہوا، اس کے برعکس انجیلا مرکل جمہوری طریقے سے 2005 میں جرمنی کی چانسلر منتخب ہوئیں اور ان کا اقتدار 2023 کو ختم ہوگا، لیکن انہوں نے جب آئندہ انتخاب کے لیے اپنی پارٹی ’’کرسچین ڈیموکریٹک یونین‘‘ کی قیادت سے دستبرداری کا اعلان کیا تو ان کی پارٹی نے چھ منٹ تک اپنی نشستوں پر کھڑے ہوکرتالیاں بجائیں اور انہیں زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔ جنابِ عمران خان اپنے کرکٹ کیرئیر میں کہا کرتے تھے: ’’کھلاڑی کو اُس وقت ریٹائر ہونا چاہیے، جب وہ اپنے عروج پر ہو تاکہ اس کی یاد لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ باقی رہے‘‘، کیونکہ جب کوئی کھلاڑی ’’آئوٹ آف فارم‘‘ ہوجائے، اس کا فن زوال پزیر ہوجائے، لوگ اُسے دیکھنے سے اکتا جائیں اور آخرِ کار اُسے ٹیم سے باہر کردیا جائے تو پھر لوگوں کے دلوں میں اُس کی وہ محبت باقی نہیں رہتی۔
حدیثِ پاک میں ہے: ’’سہل بن سعد ساعدی بیان کرتے ہیں: نبی ؐ نے ( میدانِ جنگ میں) ایک شخص کو مشرکوں سے قتال کرتے ہوئے دیکھا، وہ مسلمانوں کی طرف سے بہت بڑا دفاع کرنے والا تھا، آپؐ نے فرمایا: جو کسی جہنمی شخص کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ اس شخص کو دیکھے۔ پھر ایک شخص (اس کی حقیقت جاننے کے لیے) مسلسل اُس کا پیچھا کرتا رہا، یہاں تک کہ وہ زخمی ہوگیا، سو اُس نے (تکلیف سے بے قرار ہوکر) جلد موت سے ہمکنار ہونے کی کوشش کی، وہ اپنی تلوار کی دھار کی طرف جھکا اور اُسے اپنے سینے کے درمیان رکھ کر اپنے پورے بدن کا بوجھ اس پر ڈال دیا، یہاں تک کہ تلوار (اُس کے سینے کو چیر کر) دوشانوں کے درمیان سے نکل گئی، اس پر رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’بندہ لوگوں کے سامنے اہلِ جنت کے سے عمل کرتا چلا جاتا ہے، حالانکہ درحقیقت وہ اہل جہنم میں سے ہوتا ہے، اسی طرح ایک بندہ لوگوں کے سامنے بظاہر اہل جہنم کے سے کام کرتا چلا جاتا ہے، حالانکہ درحقیقت وہ اہل جنت میں سے ہوتا ہے اور اعمال کے نتائج کا مدار اُن کے انجام پر ہوگا، (بخاری)‘‘۔
(جاری ہے)