حلوے کی پیشکش سے آنسوگیس کی دھمکی تک

421

حکومت اور اپوزیشن احتجاج، بیانات، آریا پار جیسی دھمکیوں، طعن واستہزا کے ذریعے اعصاب کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ اپوزیشن حکومت کے حوصلے اور اعصاب توڑنا چاہتی ہے اور حکومت اپوزیشن کو تھکا دینا چاہتی ہے۔ اپوزیشن کے جلسے جلوس کا حکومت کو یوں بھی کوئی نقصان نہیں کہ ایک دن میں ایک جلسے سے کاروبار حیات میں تھوڑا بہت خلل آتا ہے مگر یہ مہم خود اپوزیشن کے رگِ جاں کی حیثیت رکھتی ہے۔ اپوزیشن خود کو زندہ رکھنے کا تاثر دیتی رہے گی تو اس کے حامیوں کے حوصلے بھی بلند رہیں گے وگرنہ کمزور دل حامی تو اعصاب کی اس جنگ میں زیادہ دیر اور دور تک ساتھ چلنے سے قاصر رہیں گے۔ اس لیے اپوزیشن کو لہو گرم رکھنے کا بہانہ درکار ہے جو جلسے، جلوس اور مظاہروں سے حاصل ہو رہا ہے۔ اپوزیشن اور حکومت میں اصل اسٹیج لانگ مارچ سے سجنا ہے۔ نجانے کیا ہوا کہ وزیر داخلہ شیخ رشید نے اپوزیشن کو دیسی گھی کا تڑکا لگے باداموں والے حلوے کی پیشکش واپس لیتے ہوئے آنسو گیس سے تواضع کرنے بات کی ہے۔ شیخ رشید نے یہ بھی کہا ہے اچھا ہوا پولیس کے اسٹوروں میں آنسو گیس کے شیل بے کار پڑے پڑے ضائع ہو رہے تھے۔ اگر وہ آنسو گیس کے شیل ملازمین پر ٹیسٹ کرنے بات نہ کرتے تو اچھا ہوتا۔ جس طرح بچہ ماں سے دودھ مانگتا ہے اسی طرح بے چارے ملازمین ریاست ماں سے اپنا حق مانگ رہے تھے۔ اس سے پہلے سابق وزیر داخلہ بریگیڈئر اعجاز شاہ ایک گہری بات کر چکے تھے کہ امید ہے اپوزیشن قانونی اور آئینی حکومت کے خلاف دھرنا نہیں دے گی۔ اس پر اپوزیشن عمران خان کے دھرنے کی مثال بھی دے سکتی ہے۔
مولانا کے متوقع دھرنے کا سیدھا سبھائو فوج سے مطالبہ ہے کہ حکومت کو ختم کریں۔ حکومت وہ تمام قانونی اور آئینی تقاضے پورے کرتے ہوئے بنی ہے جن کے تحت ماضی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتیں قائم ہوتی تھیں۔ جتنی جمہوری اور قانونی حکومت وہ تھیں اتنی ہی جمہوری اور قانونی حکومت موجودہ بھی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اپوزیشن فوج کو ماورائے آئین اقدام کی دعوت دیتی ہے۔ عمران خان کا دھرنا ایک مخصوص مطالبے سے شروع ہوا تھا۔ اس کا بنیادی مقصد حکومت کو گرانا نہیں تھا بلکہ چار انتخابی حلقوں میں دھاندلی کی تحقیقات تھا۔ یہ تو بعد میں کبھی کبھار عمران خان کنٹینر پر رنگ محفل جمانے کے لیے نوازشریف کے استعفا دینے اور امپائر کی اُنگلیاں اُٹھنے کی باتیں کرتے رہے۔ عمران خان جب لاہور سے چلے تھے ان کا مطالبہ نوازشریف کا استعفا یا جنرل راحیل سے ماورائے آئین اقدام نہیں تھا۔ مولانا جس مارچ کی قیادت کرنے چلے ہیں وہ تو گھر ہی سے فوج سے حکومت کو گرانے کا مطالبہ لے کر چلنے والے ہیں ان کی فوج سے ناراضی اور خفگی کی اعلانیہ وجہ ہی یہ ہے کہ فوج عمران خان کو گھر کا راستہ دکھا انہیں اقتدار کے ایوان کی دہلیز تک نہیں پہنچاتی۔ اگر وہ براہ راست فوج کو حکومت گرانے کا نہیں کہہ رہے تب بھی وہ فوج سے اپنے بندے ہمارے حوالے کرو یا اپنا وزن ہمارے پلڑے میں ڈالو کہہ کر فوج ہی سے ایک کردار ادا کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ گویا کہ کان کو سیدھا پکڑیں یا بازو گھما کر مقصد ایک ہی ہے فوج حکومت کی حمایت سے دست کش ہو کر اپوزیشن پر مہربان ہوجائے۔ حکومت ان مطالبات اور بیانات کی فائل عدالت میں بھی پیش کر سکتی ہے کہ اپوزیشن فوج کو براہ راست سیاست میں مداخلت کی دعوت دے رہی ہے۔
سردست اپوزیشن کا مقصد عمران خان حکومت کو مصروف رکھنا ہے۔ عمران حکومت کو قبل از وقت گرانے کے نتائج سے پیپلزپارٹی کے راہنما اعتزاز احسن نے اپوزیشن کو آگاہ کردیا ہے۔ عمران حکومت کا غیر فطری انجام انہیں دوبارہ مقبولیت کہ بلندیوں پر پہنچادے گا اور وہ مجھے کیوں نکالا نہیں پوچھیں گے بلکہ خود بتائیں کہ مجھے اس وجہ سے نکالا کہ میں چوروں کا احتساب کر رہا تھا۔ اس لیے اپوزیشن کا حکومت کو مصروف رکھ کر اعصاب کی جنگ لڑنا تو ٹھیک مگر حکومت کو غیر فطری انجام سے دوچار کرنا ملک کو مستقل طور پر سیاسی عدم استحکام کی راہ پر ڈال دے گا کیونکہ حکومت کا مجبوریوں اور مصلحت کی دیواروں کے پیچھے اور سمجھوتوں اور برداشت کرنے والا عمران خان جب ان زنجیروں سے آزاد ہوگا تو اپوزیشن کا حکومت چلانے اور بنانے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہونا ممکن نہیں رہے گا۔ شیخ رشید کی طرف سے حلوے کی پیشکش واپس لے کر آنسو گیس کی دھمکی فرد واحد کا پیغام نہیں بلکہ ریاست کے ایک مخصوص رنگ اور رخ کا پتا دیتا ہے۔ مریم نواز کا غم وغصہ اپنی جگہ، بلاول کی فریاد اپنی جگہ کیونکہ ان دونوں جماعتوں نے آنے والے زمانوں کے لیے حکومتیں بنانے اور چلانے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ میثاق جمہوریت کے بعد تو دونوں نے لڑنے بھڑنے کی روش ترک کرکے مخلوط حکومت کے نام پر مل بانٹ کر معاملات چلانے کا عہد بھی کیا تھا۔ اس طویل المیعاد شراکت داری کو عمران خان نے نقصان پہنچایا۔ اس شراکت داری کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں خود پاکستانی سیاست کے کتنے ہی مضبوط اور توانا کردار نقصان کا شکار ہوتے رہے۔
مولانا کی کشتیاں جلانے اور جلائو گھیرائو کی دھمکیاں ناقابل فہم ہیں۔ مولانا میثاق جمہوریت کا حصہ نہ ہوتے ہوئے اس معاہدے کے تیسرے شراکت دار بن کر اُبھرے۔ مولانا کے دو بڑی جماعتوں کے تیسرے اور سدا بہار مستقل شراکت دار بننے کا ثبوت یہ ہے کہ وہ کشمیر کمیٹی کی سربراہی کے لیے آصف زرداری کا حُسنِ انتخاب تھے اور بعد میں نوازشریف کی بھی پسند بھی ٹھیرے۔ یہ رتبۂ بلند مولانا کے علاوہ اسحاق ڈار ہی کو ملا اور پیپلزپارٹی کی حکومت نے مختصر مدت تک وزیر خزانہ رہنے اور استعفا دینے کی بعد بھی ان سے اقتصادی امور پر مشاورت کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔ آر یا پار کی طرح حلو ے کی پیشکش سے آنسو گیس کی دھمکی تک سب اعصابی جنگ کے دائو پیچ ہیں اور مظاہر ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کس کے اعصاب چٹختے ہیں؟۔