سینیٹ انتخابات سیاسی کلچر کی بربادی کی داستان

728

جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کی کوکھ سے جنم لینے والی پارلیمانی جمہوریت کے خمیر ہی میں بددیانتی دولت کی ریل پیل اور چکاچوند تھی۔ غیر جماعتی انتخابات کے دوران پیسے کا سب سے بڑا ریلا شمالی پاکستان میں مری کہوٹا میں داخل ہوا تھا اور غالباً پاکستان کی سیاست نے انتخابات کے دوران دولت کی یہ ریل پیل پہلی بار دیکھی ہوگی۔ یہ تاریخی معرکہ ایک سعودی پلٹ ائر کموڈور اور معروف کاروباری شخصیت خاقان عباسی اور جنرل ضیاء الحق کی کابینہ کے اوپننگ بیٹسمین کہلانے والے رکن راجہ ظفر الحق کے درمیان ہوا تھا۔ اس وقت خاقان عباسی کی دولت کے انتخابی عمل میں جھونکے جانے کی کہانیاں زبان زدِ خاص وعام تھیں۔ دروغ بر گردن راوی ایک ایسی کہانی سینہ بہ سینہ مشہور ہوئی تھی کہ خاقان عباسی نے انتخابی مہم چلانے کے لیے پچھتر سوزکی لوڈر گاڑیاں منگوائیں الیکشن کے بعد وہ اپنے سیاسی کارکنوں میں بانٹ دیں۔ دولت کے اس طوفانی ریلے میں جنرل ضیاء کے اوپننگ بیٹسمین ہی نہیں ان کی انتخابی سیاست بھی ہمیشہ کے لیے بہہ گئی۔ یوں سیاست کا مرکز کہوٹا سے مری منتقل ہوگیا۔ چند برس بعد گجرات کے چودھریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پیپلز پارٹی چن کر ایک دولت مند شخصیت اور سروس شو کمپنی کے مالک چودھری احمد مختار کو سامنے لائی تھی۔ انتخابی عمل میں روپے پیسے کا بے جا استعمال بھی جائز نہیں مگر اعلیٰ ایوانوں میں بیٹھنے والوں کا اپنے ماتھے پر ’’برائے فروخت‘‘ کا اسٹکر چسپاں کرنا تو شرمناک ہے۔
غیر جماعتی اسمبلی کا انتخاب کسی اصول اور سیاسی معیار کے بجائے محض روپے پیسے اور ذات برادری کی بنیاد پر ہوا تھا تھوڑے ہی عرصے بعد اس جمہوریت نے جب غیر جماعتی سے جماعتی رنگ اختیار کیا تو یہ قباحتیں بڑھتی چلی گئیں۔ سیاست برائے خدمت کا تصور اور سیاست کے عبادت ہونے کے مقولے قصہ ٔ ماضی بن گئے۔ گھر سے کھا اور لگا کر سیاست کرنے کا رواج کمزور ہوتا چلا گیا۔ ایک دو انتخابات میں یہ تصور جڑ پکڑ گیا کہ سیاست فلاح ِ آخرت یا فلاح انسانیت کے بجائے مالی حالت مستحکم کرنے کی غرض سے کی جاتی ہے اور کی جانی چاہیے۔ اس کے بعد تو سارا سیاسی کلچر ہی بدل کر رہ گیا اور سیاست میں ایک نیا کلچر رواج پا گیا۔ سیاست میں قدم رکھنے کا مقصد عزیر واقارب اور اس کے بعد کارکنوں کو نوکریاں اور ٹھیکے دینا اور بڑے سودوں میں کمیشن حاصل کرنا بن کررہ گیا۔ اس کے ساتھ ہی دو جماعتی سسٹم معرض وجود میں آتا چلا گیا اور پھر دونوں جماعتوں میں ہر میدان میں نمبر ون بننے کی دوڑ سی لگ گئی اور مال ودولت بھی ایسا ہی ایک میدان تھا۔ غیر جماعتی اسمبلی کے مرنجان مرنج وزیر اعظم فوج افسروں کو چھوٹی گاڑیوں پر بٹھاتے بٹھاتے سیاست دانوں کو خلائی سیاروں میں بٹھانے کی طرح ڈال گئے۔ اس اسمبلی نے سیاسی طاقت کے مراکز کو تبدیل کر دیا۔ ستر کی دہائی میں پیپلزپارٹی کے مقابلے میں مولانا مفتی محمود، ائر مارشل اصغر خان، میاں طفیل محمد، پیر پگارہ کی صورت میں بکھری ہوئی طاقت تھی جو وقتی طور پر قومی اتحاد کی چھتری تلے جمع ہوئی تھی مگر ضیاء الحق کے مارشل لا کا ڈھکن اُٹھا تو سیاسی ہنڈیا کا ذائقہ اور رنگ سب کچھ تبدیلی کی زد میں تھا۔ پیپلزپارٹی تو اپنی جگہ موجود تھی اور پارٹی کی قیادت اور نعروں کا رومانس قائم تھا مگر اس کے مقابل سیاسی طاقت کا نیا مرکز ماڈل ٹائون اور اتفاق امپائر کی صورت میں ہولے ہولے اُبھر تا جا رہا تھا۔ مسلم لیگ کے’’چھانگا مانگا ‘‘کے مقابلے میں پیپلزپارٹی کے ’’سوات‘‘ سجنے سے سیاست کے پرانے طور طریقے کلی متروک ہو گئے اور سیاسی طاقت کے دو بڑے مراکز میں کھیل کا نتیجہ اپنے حق میں کرنے کے لیے ہر فاؤل پلے بھی جائز ہو گیا۔ عدم اعتماد کی تحریکوں کو کامیاب اور ناکام بنانے کے لیے ارکان کو گاڑیوں میں بھر کر ان پر آسائش مقامات پر مقفل کردیا جاتا رہا اور اس دوران خور ونوش کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ ارکان کی مالی معاونت بھی کی جاتی تھی۔ یوں سیاست کا کلچر بدل جانے سے سیاست میں روپے پیسے کا استعمال بڑھ گیا۔ سیاست ایک نفع بخش کاروبار بن گیا۔ بڑے سرمایہ دار بھی اس کھیل میں کود پڑے تو رنگ ِمحفل کچھ مزید جمتا چلا گیا۔ ایک موقع پر قاضی حسین احمد جیسے صاحب کردار انسان سینیٹ کو گندگی کا ڈھیر کہہ کہتے ہوئے استعفا دے کر چل دیے۔
سینیٹ ملک کا ایوان بالا ہے۔ یہ برطانوی جمہوریت کے دارالامرا یعنی ہائوس آف لارڈز سے لیا گیا تصور ہے۔ اس ایوان میں وہ صاحب الرائے اور دور اندیش لوگ بیٹھتے ہیں جو اپنے شعبوں میں یکتا اور جانے مانے ہوں مگر انتخابی سیاست کے جھنجھٹ میں پڑنے سے گریزاں ہیں۔ یہ معاشرے کی اجتماعی دانش سے فائدہ اُٹھانے کا تصور ہے۔ انتخابی میدان کے ذریعے اگر قانون اور فیصلہ ساز ایوانوں میں باصلاحیت لوگ آنے سے رہ جائیں تو انہیں معاشرے سے چھانٹ کر نکالا جائے۔ ہمارے ہاں سب سے محترم اور معتبر جمہوری ایوان کو منڈی بنا کر رکھ دیا گیا۔ سیاسی جماعتوں پر ٹکٹ بیچنے کے الزامات لگے اور پھر امیدواروں پر ووٹ خریدنے کے الزامات نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ اب جو سرمایہ دار دو جگہوں پر پیسہ لگا کر ایوانوں میں آئیں گے وہ محض سینیٹر کی تختی گاڑی کے آگے لگوانے کے لیے یہ تو بھاری اخراجات کرنے سے رہے۔ ظاہر ہے ان کا مقصد خرچ کردہ رقم سے دوگنا زیادہ کمانا ہوتا ہوگا۔ سینیٹ انتخابات آتے ہی ملک بھر سے صاحب ثروت افراد اسلام آباد کی راہداریوں میںگھومتے پائے جاتے ہیں۔ انہی تجربات نے اوپن بیلٹ کی ضرورت کا احساس اجاگر گیا تھا۔ ضمیروں کی منڈی لگانے سے روکنے کا یہ فیصلہ حکومت نے کر لیا ہے تو اب اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جانا چاہیے تھا مگر سیاسی جماعتیں اس عمل کی مخالفت پر کمر بستہ ہوچکی ہیں۔ ضمیروں کی منڈی لگنے کی ایک خفیہ وڈیو بھی میڈیا میں زیر گردش ہے۔ اسی وڈیو کی وجہ سے عمران خان نے خیبر پختون خوا اسمبلی سے اپنے بیس ارکان صوبائی اسمبلی کو پارٹی سے خارج کر دیا تھا۔ ملک کا وزیر اعظم اگر کہتا ہے کہ بلوچستان میں سینیٹ کے ووٹ کا ریٹ پچاس سے ستر کروڑ ہے تو یہ موجودہ انتخابی سسٹم کی ساکھ اور وجود کے لیے سوالیہ نشان ہے۔ سیاسی سسٹم کو صاف کرنا ہے تو اس بار سینیٹ میں اوپن بیلٹ کا کڑوا گھونٹ پینا ہوگا۔