اسلام اور جماعت

1445

اسلام کے بغیر جماعت نہیں اور جماعت کے بغیر اسلام نہیں۔ سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو (آل عمران: 103) ۔
’’جو کوئی اطاعت (امیر کی) سے کنارہ کشی اختیار کرے گا، جماعت (اسلامی؛ مسلمانوں کی اسلامی جماعت) سے الگ ہو کر رہے گا اور اسی حال میں مر جائے گا، اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی‘‘۔ (مسلم) (اسلامی) جماعت کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رہو اور انتشار سے پوری طرح الگ رہو۔ (ترمذی) جو شخص الجماعت سے بالشت بھر بھی الگ ہو رہا، کوئی شک نہیں کہ اس نے اسلام کا حلقہ اپنی گردن سے نکال پھینکا، تا آنکہ وہ رجوع کر لے‘‘۔ (احمد و ترمذی) ۔
امیر (بااختیار) کے بغیر جماعت کا کوئی تصور نہیں ہے۔جس نے امیر کی فرمان برداری کی اس نے میری فرماں برداری کی، اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی‘‘۔ (مسلم)جماعت کی کیفیت کو ہر حال ہر مقام پر برقرار رکھنے کا حکم ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’ایسے تین آدمیوں کے لیے، جو کسی بیابان میں ہوں، جائز صرف یہ بات ہے کہ وہ اپنے میں سے ایک کو اپنا امیر بنا کر رہیں‘‘۔ (اسلام اور اجتماعیت از مولانا صدرالدین اصلاحی) سیدنا ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے تین آدمی (بھی) سفر کے لیے نکلیں تو چاہیے کہ ایک کو اپنا امیر بنا لیں‘‘۔ (ابو داوْد) اسلام کا منشا ہے کہ ا جتماعیت مسلمانوں کا مزاج بن جائے۔ یہ ان کے رویوں اور ان کی عادات سے ظاہر ہو۔ اس لیے تمام فرائض عبادات کو بھی اجتماعیت کا مظہر بنا دیا گیا ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ یہ سب اجتماعیت کے مظاہر ہیں۔ ہر روز پانچ وقت نماز با جماعت سے اجتماعیت کی مشق کرائی جاتی ہے۔ امام کی اطاعت، امام کے پیچھے مامور کا صف بندی کرنا، کاندھے سے کاندھا، اور ٹخنے سے ٹخنے ملا کر کھڑا ہونا، درمیان میں کوئی خلا نہ چھوڑنا، امام کی غلطی پر لقمہ دینا، امام کا سجد سہو، وغیرہ وہ اجتماعیت کی پریڈ ہیں جو ہر روز پانچ وقت کرائی جاتی ہیں۔اجتماعیت کے بغیر اسلام ایسا ہی ہے جیسا کہ جل بن مچھلی۔ جس طرح پانی کے بغیر مچھلی کا وجود نہیں اسی طرح اجتماعیت کے بغیر اسلام کا وجود نہیں۔
مسلمانوں کے زوال کی درجنوں وجوہات گنوائی جاتی ہیں۔ لیکن اس کی اصل وجہ ’’اجتماعیت‘‘ کا ٹوٹنا کوئی نہیں بتاتا۔ مسلم ملوک اپنے چند خوشامدی درباریوں کی رائے پر حکومتیں چلا رہے تھے، ان کا اپنا تعلق، علم سے، علماء سے اور اہل الرائے سے ٹوٹ چکا تھا۔ ان کا اجتماعی نظام ہر سطح پر منتشر ہو چکا تھا۔ دوسری طرف مغرب میں ساری توجہ تنظیم سازی اور ادارہ سازی پر تھی، سیاسی، فوجی، اور تجارتی تنظیمیں، اور کارپوریشنیں تیزی سے مضبوط ہو رہی تھیں اور آگے بڑھ رہی تھیں۔ برطانیہ کی ایک تجارتی کارپوریشن ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان، تجارت کے غرض سے آتی ہے، قدم مضبوطی سے جماتی ہے، بنگال پر کئی گنا (جو سب سے بڑا تھا) ٹیکس کی وصولی کا ٹھیکہ بادشاہ وقت سے لیتی ہے اور بالآخر آہستہ آہستہ ایک سو سال میں پورے ملک پر قابض ہو جاتی ہے۔ اس وقت تک مسلم حکمراں شمشیر وسناں چھوڑ چکے تھے اورطاؤس و رباب پکڑ چکے تھے۔
اللہ کے رسولؐ نے وارننگ دے دی تھی کہ جماعت سے ٹوٹنے کا انجام انتہائی خطرناک ہوگا۔ ’’جماعت سے چمٹے رہو، کیونکہ بھیڑیا اس بکری کو کھا جاتا ہے جو دور نکل جاتی ہے‘‘۔ (ابو داود) ’’شیطان انسان کا بھیڑیا ہے۔ جس طرح کہ بکریوں کے لیے (یہ معروف) بھیڑیا ہوا کرتا ہے۔ یہ بھیڑیا اسی بکری کو پکڑتا ہے جو الگ جا بھاگتی ہے۔ یا دور نکل جاتی یا کسی طرف علٰیحدہ ہو رہتی ہے‘‘۔ (مسند احمد) ’’الجماعت کو مضبوطی سے تھامے رہو اور پھوٹ کے قریب بھی نہ پھٹکو کیونکہ شیطان اکیلے شخص کے ساتھ ہوتا ہے جب کہ دو سے بہت دور ہوتا ہے‘‘۔ (ترمذی) ملک پہلے ایسٹ اندیا کمپنی کے قبضہ میں آیا، اس نے بھاری سرمایہ کمایا، اس سرمایے سے ہندوستان کے ساحلی شہروں میں قلعہ بنائے۔ دیسی فوج رکھی اور مقامی نفری سے پورے ملک کو فتح کر کے برطانیہ کی کالونی بنا دیا۔ برطانیہ نے مسلمانوں کی جمی جمائی صدیوں پرانے نظام تعلیم جو دین و دنیا کے امتزاج اور امیر اور غریب سب کے لیے یکساں تھا، اور جو 80 فی صد سے زیادہ لوگوں کو خواندگی مہیا کرتا تھا، اس نظام تعلیم کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا۔ نیا نظام تعلیم آیا۔ ہندوستانیوں کی ایک خاص اقلیت کو یہ تعلیم دی گئی۔ اس کا مقصد ایک ایسا بابو طبقہ پیدا کرنا تھا، جو انگریز حکمران اور رعایا کے درمیان رابطہ کا کام کرے۔ مسلمانوں کے اس طبقہ میں اس نظام تعلیم کا اثر کیا ہوا اسے اکبر الہ ٰبادی نے ایک مصرعہ میں سمو دیا ہے: ’’دل بدل جائیں گے تعلیم بدل جانے سے‘‘ ایک اور
مصرعہ ہے ’’کھا ڈبل روٹی، کلرکی کر، خوشی سے پھول جا‘‘۔ انگریزی نظام تعلیم اور مغربی تہذیب و فلسفہ کو لے کر جو حضرات ملت کی خدمت کے لیے آئے ان کی اجتماعیت انہی سیاسی خطوط پر ہوئی جس کی تعلیم انہیں اس نظام نے دی تھی۔ یہ تھی اجتماعیت برائے جمہوریت (Democracy)، قومیت (Nationalism) اور لادینیت (Secularism)۔
اسلام میں اجتماعیت کے جو مقاصد ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں: 1۔ شہادت حق کا فریضہ: مسلمان اپنے قول و فعل سے حق کی گواہی دیں۔ ’’اِسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک ’’اْمّتِ وَسَط‘‘ بنایا ہے تاکہ تم دْنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رْسول تم پر گواہ ہو‘‘۔ (سورہ بقرہ: 143)2۔ امر بالمعروف و نہی عنی المنکر: بھلائیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا۔ ’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو‘‘۔ ( سورہ آل عمران: 110) 3۔ اقامت دین: دین کا زندگیوں میں، معاشرہ، سیاست و تمدن میں قیام کی جدوجہد ’’اس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اْس نے نْوحؑ کو دیا تھا، اور جسے (اے محمدؐ) اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے، اور جس کی ہدایت ہم ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو دے چکے ہیں، اِس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اِس دین کو اور اْس میں متفرق نہ ہوجائو‘‘۔ (سورہ الشوریٰ: 13) مولانا صدر الدین اصلاحی نے اپنی کتاب ’’اسلام اور اجتماعیت‘‘ میں نصوص سے یہ ثابت کیا ہے کہ مندرجہ بالا تین مقاصد کے علاوہ جماعت سازی جائز نہیں ہے۔ کسی اور مقصد کے لیے جمع ہونا اسلام نہیں نری جاہلیت ہے۔