مریض ِ ’’معیشت‘‘ انہی کا فسانہ

607

پاکستان کی معیشت کس طرح قطرہ قطرہ زہر پی کر موجودہ حال کو پہنچی یہ ایک درد ناک کہانی ہے۔ مدت دراز سے اس ملک کی معیشت کا ہر گزرتا دن پہلے سے بدتر رہا اگر کبھی بہتری آئی بھی تو فقط اتنی کہ زوال کے سفر کی رفتار دھیمی ہو گئی جسے حالات کا شکار قوم نے پہلے سے اچھا اور بہتر سمجھ کر سجدۂ شکر ادا کیا۔ ماضی کی حکومتیں جادوگری کے ذریعے عوام کو خوش رکھنے کی کوشش کرتی تھیں مگر موجودہ حکومت کی حالت ’’نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں‘‘ کی مانند ہے۔ پہلے سے اُلجھی ہوئی معیشت کی ڈور موجودہ حکومت کے ہاتھوں سلجھنے کے بجائے مزید اُلجھ کر رہ گئی ہے۔ فن جادوگری سے محروم حکومت مہنگائی کم کرنے کے لیے جو بھی تدبیر کرتی ہے اُلٹی ہو رہی ہے۔ حکومت کے اڑھائی برس اسی تگ ودو میں ضائع ہوگئے۔ چین اور بھارت جیسی ترقی کرتی ہوئی معیشتوں کے پہلو میں پاکستان کی قومی معیشت کے ساتھ کیا واردات ہوئی؟ اس پر منی بیگم کی گائی ہوئی غزل کا یہ مصرعہ تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ یوں صادق آتا ہے ’’مریض معیشت انہی کا فسانہ سناتا رہا دم نکلتے نکلتے‘‘۔ یہ ایک المناک داستان ہے جو ماضی کی حکومتوں کی معاشی ٹیم کا حصہ رہنے والے یا چشم دید گواہ ماہر معاشیات اشفاق حسن خان نے ایک انٹرویو میں بیان کی ہے۔ اشفاق حسن خان ایک متوازن اور معتدل معاشی ماہر ہیں۔ ان کا کسی سیاسی جماعت سے بھی تعلق نہیں۔ اشفاق حسن خان کی گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کی معیشت کے جاں بہ لب ہونے کی ذمے داری ماضی قریب کی دو حکومتوں پر بھی عائد ہوتی ہے یہ وہی دو جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی ہیں جو موجودہ حکومت کو مہنگائی پر بڑھ چڑھ کر حملوں کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ حد تو یہ کہ حکومت کے خلاف لانگ مارچ کو مہنگائی مارچ کا عنوان دینے کا فیصلہ کر چکی ہیں۔ یہ الگ بات کہ حافظ حسین احمد کی بزلہ سنجی نے اسے مہنگائی مارچ کے بجائے مہنگا مارچ قرار دیا ہے کیونکہ ان کے بقول مارچ کے حکمت کاروں نے فنانسرز کو بھاری اخراجات کا تخمینہ پیش کیا ہے۔
اشفاق حسن خان نے صرف ماضی کی حکمران جماعتوں ہی کو نہیں موجودہ حکومت کی کارکرگی اور بے تدبیری کا بھی پوری تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ ایک واقف حال اور رازداں کے طور پر اشفاق حسن خان کا مشورہ ہے کہ اگر اپوزیشن معیشت کے موضوع پر بات نہ کرے تو اچھا ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ بتا رہے ہیں کہ معیشت کو بستر مرگ تک لانے بلکہ آکسیجن ماسک پہنانے تک اپوزیشن جماعتوں کا پورا کردار ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 2016,17 تک درآمدات اکتالیس بلین ڈالر پر رکی ہوئی تھیں۔ اس دوران درآمدات نے یہ حد عبور کر لی اور غیر ملکی اشیاء سے جن میں اکثر تعیشات کے زمرے میں آتی ہیں مارکیٹیں بھر گئیں۔ کتے بلیاں اور ان کی غذائیں بھی باہر سے آنے لگیں۔ موبائل فونز لگژری گاڑیاں، دنیا بھر کے چاکلیٹس اور قیمتی اشیا سے ہمارے بازار بھر گئے۔ اکتالیس بلین ڈالر پر رکے ہوئے اس بند کو خود ہی مسلم لیگ ن کی حکومت نے توڑا تھا
اور اس وقت معیشت جس حالت میں تھی یہ قطعی غیر مناسب فیصلہ تھا شاہد خاقان عباسی نے ٹیکس پر چھوٹ دے کر ایک بڑی تعداد کو ٹیکس نیٹ سے نکال دیا یہ محض مقبول فیصلہ تھا اور اس کا مقصد آنے والی حکومت کے لیے مشکل پیدا کرنا تھا تاکہ آنے والی حکومت اپنے بجٹ میں دوبارہ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کر ے گی تو عوام کی چیخیں نکلیں گی۔ یہ ایک پھندہ تھا آنے والوں کے لیے۔ اسحاق ڈار نے بجٹ کے خسارے کو متوازن کرنے کے لیے بہت سے اخراجات کو بجٹ بک سے نکال دیا۔ 2016 میں بجٹ کا خسارہ 8.2فی صد تھا حکومت نے گردشی قرضے کو بجٹ سے باہر کر دیا۔ اس سے پہلے پیپلزپارٹی کی حکومت نے گورنر اسٹیٹ بینک کو صاف کہہ دیا تھا کہ ڈالر کی قیمت ایک سو روپے سے اوپر بڑھنے نہ پائے۔ ڈالر کی طلب بڑھتی رہی اور حکومت قرض لے کر مارکیٹ میں ڈالر پھینکتی رہی۔ اشفا ق حسن خان کہتے ہیںکہ اسحاق ڈار کا نظریہ یہ تھا کہ روپے کی قدر کم کرکے برآمدات نہیں بڑھائی جا سکتی کیونکہ کرنسی ریٹ کم کرنے سے تمام اشیاء کے خام مال کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ ان کے مطابق اگر اسحاق ڈار اس وقت برآمدات کم کرتے چار پانچ بلین ڈالر بچا کر مارکیٹ میں پھینک سکتے تھے۔
اشفا ق حسن خان ایک تلخ حقیقت بیان کرتے ہیں کہ جب ڈالر کی قیمت ساٹھ روپے تھی اس وقت بھی ہماری درآمدات وہی تھی اور اب جبکہ ڈالر کی قیمت ایک سوساٹھ ہو چکی ہے برآمدت کا گراف وہیں ہے۔ اشفاق حسن
خان کے مطابق نوے کی دہائی میں جب مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی حکومتیں باریاں لگا رہی تھیں پاکستان کے قرضوں میں محض دس سال میں 17.4بلین ڈالر کا اضافہ ہوا۔ اس کے برعکس 1999 سے 2007 یعنی جنرل مشرف کے دس سال میں قرضوں میںصرف ساڑھے تین بلین ڈالر کا اضافہ ہوا۔2008 سے 2018 کے دس سال پھر مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے باریاں لگائیں اور قرضوں میں پچپن بلین ڈالر کا اضافہ ہوا۔ اس وقت قوم پر مجموعی قرض ایک سو دس بلین ڈالر ہے۔ اشفاق حسن خان کے مطابق مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی دو دہائیوں میں قومی قرضوں میں ستر فی صد اضافہ ہوا گویاکہ ملک وقوم پر تین چوتھائی قرض قوم کی مسیحائی کے موجو دہ دعوے داروں کی مہربانیوں کا نتیجہ ہے۔ اشفاق حسن خان نے موجودہ حکومت کی معاشی پالیسی کا پوسٹ مارٹم کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ کاش عمران خان کو ان کی سوچ اور عزم کے مطابق ٹیم بھی حاصل ہوتی تو ملکی معیشت کے بگاڑ کا گراف موجودہ سطح پر نہ ہوتا۔ انہوںنے معیشت بہتر بنانے کے لیے ہیلی کاپٹر سے آنے والوں کے تجربے کی مخالفت کی۔ اُدھار لوگوں کے ذریعے کام چلانے کی پالیسی بند ہونی چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کے پیچھے کوئی اکنامکس اور حکمت نہیں ہوتی بلکہ صرف سودے بازی ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ موجودہ حکومت کی معاشی ٹیم آئی ایم ایف سے سودے بازی کرنے میں کلی ناکام رہی۔ کامیابی ملتی بھی کیسے آئی ایم ایف کے پروگرام میں رہتے ہوئے کسی حکومت کی مشکل کبھی حل نہیں ہوئی۔