بھارتی جمہوریت کا مجسمہ

961

ایک مسلمان اکثریتی اور کسی واضح سسٹم سے محروم اور غیر مستحکم ریاست پاکستان اور چین جیسے سخت گیر نظام کے حامل ملک کے پہلو میں بھارت نے مغرب میں اپنی جمہوریت اور سیکولر ازم کا ایک مجسمہ کھڑا کیا۔ خود کو کثیر القومی اور کثیر المذہبی کے ساتھ ساتھ شہری آزادیوں اور انسانی حقوق کے علمبردار کے طور پر پیش کیا۔ خود کو مسلمان اقلیت کے لیے جنت کا نمونہ ثابت کیا۔ مغرب کے لیے یہ سب باتیں پُرکشش اور بھارت پر فدا ہونے کے لیے کافی تھیں۔ بھارت نے اپنے جھوٹے سچے امیج کا سودا مغرب میں جم کر بیچا۔ پاکستان کی اسلامی شناخت اور جمہوری سسٹم سے محرومی نے بھارت کو مغرب میں اور نمایاں اور ممتاز بنایا۔ پاکستان میں بار بار کے مارشل لا لگنے کے برعکس بھارت میں جمہوری سسٹم تسلسل کے ساتھ قائم رہا۔ یوں مغرب کے ذہنوں میں بھارت کی ایک چمکتی دمکتی تصویر بن کر رہ گئی۔ پھر بھارت رفتہ رفتہ ہندو توا سوچ کے زیر اثر آتا چلا گیا اور یوں جمہوریت اور سیکولرازم کا خول اور ڈھول باقی رہ گیا۔ نریندر مودی نے بھارت کو تیزی سے ایک مذہب اور ایک مخصوص ثقافت ثابت کرنے کے لیے ماضی کے تمام نقش کھرچنے کا راستہ اختیار کیا۔ جس کے اثرات اب جابجا عوامی مظاہروں اور تحریکوں کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ گائو رکھشا اور دوسری پرتشدد مہمات کے نام پر پہلے ہندو اکثریت کی ثقافت کو بزور طاقت بالادست بنانے کی مہم شروع کی جس نے انتہا پسندانہ خیالات کو معاشرے کا مقبول جزو بنادیا پھر ریاستی سطح پر سخت گیر فیصلوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جس کی پہلی زد آئین ہند میں کشمیر کی خصوصی شناخت پر پڑی۔ سات سے زیادہ خصوصی شناخت کی حامل ریاستوں میں صرف مسلم اکثریتی ریاست جموں وکشمیر ہی اس سلوک کی مستحق قرار پائی۔ اس فیصلے کو لاگو کرنے اور عوام کے حلق سے اُتارنے کے لیے جو ماحول بنایا گیا اس نے بھارتی جمہوریت کا تماشا لگا دیا۔ وقت کا اُلٹ پھیر کہ اس کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں بھارت کی جمہوریت اور سیکولرازم کا تماشا لگا دیا۔ سیکولر جمہوریہ کے حکمران کو ہٹلر کے طور پر پیش کیا اور مغرب کی ذہنوں میں نازی جرمنی کی تلخ یادوں کو تازہ اور بیدار کیا۔ بھارت کی تبدیلی کے سفر کی دوسری زد دوسری بڑی اکثریت یا سب سے بڑی اقلیت مسلمان آباد ی پر پڑی۔ مودی نے شہریت کے متعصبانہ قوانین متعارف کراکے ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان ایک حد ِفاصل کھینچ لی۔ ان قوانین میں صرف مسلمانوں کو باقی آبادی سے الگ کر دیا گیا۔
کشمیر اور شہریت قوانین پر دنیا نے سیکولرجمہوریہ کے ہندو راشٹریہ میں بدلنے کے عمل کو حیرت سے دیکھا اور اس پر اپنے تبصرے کیے۔ اب کسان تحریک نے مغرب کی حیرت کو نئے راستے اور نئے زاویے عطا کیے۔ اس تحریک میں بھارت نے کوئی نئی حماقت نہیں کی بلکہ کشمیر کی خصوصی شناخت کے خاتمے اور شہریت کے قوانین میں جدید ذرائع ابلاغ اور انٹر نیٹ پر پابندیوں، میڈیا کو کنٹرول کرنے اور قوانین کے بے رحمانہ استعمال جیسے اقدامات دہرائے گئے مگر فرق یہ تھا کہ ماضی کے دو واقعات اور اقدامات کی زد جس حرمان نصیب اور درماندہ حال طبقے پر پڑتی تھی اس کا نام مسلمان تھا اور اب کی بار ہدف عام آبادی اور کسان طبقہ بلکہ سکھ کمیونٹی تھی۔ اس تلخ تضاد کے ساتھ مغرب کی انسانی ہمدردی کے جذبات اُبل پڑے۔
مغرب نے اپنے ذہنوں میں بھارتی جمہوریت اور سیکولرازم کی جس نیلم پری کا تصور سجا رکھا ہے اس کے موجودہ اقدامات سے لگا نہیں کھاتے تو چار وناچار انہیں بولنا پڑتا ہے۔ شاہین باغ میں مسلمان خواتین کا دھرنا عالمی سطح پر وہ رنگ جما اور دکھا نہ سکا جو غازی پور میں سکھ غلبے کے حامل کسان دھرنے نے جمالیا ہے۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے تبصروں سے شروع ہونے والی کہانی اب امریکا کی پوپ سنگر ریحانہ کے ٹویٹس تک پہنچ گئی ہے اور بھارت اندرونی مسئلے میں مداخلت پر سیخ پا ہے۔ وہ اس بات سے بے خبرہے کہ جن شہری آزادیوں، میڈیا کی قوت او ر سیکولر روایات کا مغرب میں سودا بیچ کر بھارت نے اپنا ایک مصنوعی سہی مگر چمکتا دمکتا مجسمہ کھڑا کیا اگر اس کی چمک کم ہو جائے اور اس کے رنگ پھیکے پڑ جائیں، اس کی تازگی پر وقت کی گرد جم جائے اور اس کے خوبصورت تراشیدہ خد وخال پگھلنے لگیں تو لوگوں کے جذبات کو ٹھیس لگنا بھی فطری ہے اور اپنی محبت کا یہ حال دیکھ کر بولنا بھی عین تقاضائے فطرت ہے۔ امریکی پوپ سنگر ریحانہ سوئیڈش ماحولیاتی کارکن گریٹا تھن برگ، امریکی اداکارہ ایمانڈ اسیرنی اور نائب صدر کملا ہیرس کی بھتیجی مینا ہیرس نے سوشل میڈیا پر پابندیوں پر حیرت کا اظہار کرکے کسانوں کی مطالبات کی حمایت کی تو بھارت میں بھونچال سا آگیا۔ برطانوی پارلیمنٹ کے ویسٹ منسٹر ہال میں کسان تحریک پر بحث ہونے جا رہی ہے۔ یہ ایک آن لائن پٹیشن ہے جس پر برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کے دستخطوں کا معاملہ بھی چل رہا ہے۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان نے بھی اس پر یوں لب کشائی کی ہے کہ ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ انٹرنیٹ کے بشمول معلومات تک بلا روک ٹوک رسائی اظہار خیال کی آزادی کی کلید اور اُبھرتی ہوئی جمہوریت کی علامت ہے۔ ان جملوں سے اندرونی معاملات میں مداخلت جھلکتی تو ہے مگر بھارت اس پر تبصرہ کرنے کا حق کھو چکا ہے۔ بھارتیا جنتا پارٹی فقط یہ کہہ کر دامن چھڑا نہیں سکتی کہ ہندوستانی جمہوریت کو کسی غیر ملکی سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے جمہوریت کے مصنوعی تصور کے مزے لیے ہیں تو اب تصور کے شیشے میں دراڑ کے مضر اثرات بھی بھگتنا لازم ہیں۔