بلتستان مظفرآباد شاہراہ ایک اور ’’گیم چینجر‘‘؟

803

اب یہ بات قریب قریب عیاں ہوچکی ہے کہ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا اور آنے والے زمانوں کے لیے پاکستان اور چین اقتصادی اور دفاعی شراکت داری کی مشترکہ راہ کے راہی بن چکے ہیں، اور اس راہ کا نام سی پیک ہے۔ ایک مدت تک دونوں کے تعلقات بے سمت تو نہیں البتہ بے نام راہوں پر جاری رہے، اور 2013ء میں وہ مناسب اور موزوں وقت آن پہنچا جب اس شاہراہ کو سی پیک کا نام دیا گیا۔ دونوں ملکوں کو اس منزل تک پہنچنے سے روکنے کے لیے زمانہ رقیب بن بیٹھا، مگر دونوں اس راہ پر چلنے کے لیے پُرعزم رہے، کیونکہ دونوں کی بقا اور سلامتی کا اس سے گہرا تعلق بن گیا تھا۔ اب بھی سی پیک کی بساط لپیٹنا بہت سی طاقتوں کی خواہش ہے اور وہ اس کے لیے بھاری سرمایہ کاری بھی کیے جارہی ہیں، مگر پاکستان اور چین قدم بہ قدم اس راہ پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان نے امریکا کی نئی انتظامیہ کو سی پیک سے فائدہ اُٹھانے اور چین کے ساتھ ثالثی کرانے کی پیشکش بھی کی ہے۔ پاکستان 1970ء کی دہائی کے اوائل میں بھی امریکا اور چین کے درمیان روابط کے ٹوٹے ہوئے تار جوڑنے کی خاطر مصالحت کرا چکا ہے۔ ایسے میں چین پاکستان اقتصادی راہداری کے ایک اور مرحلے اور قدم کے طور پر ایک ایسی شاہراہ کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیا ہے جس سے چین پاکستان اقتصادی راہداری کی اوّلین شاہراہ یعنی خنجراب روٹ کی نسبت فاصلہ 350کلو میٹر کم ہوجائے گا۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری خنجراب کے راستے گلگت بلتستان سے آگے بڑھتی ہے، جبکہ 33فٹ چوڑی یعنی دو رویہ نئی شاہراہ چینی صوبے سنکیانگ کاشغر سے گلگت بلتستان میں داخل ہوگی، اور بلتستان کے تین اضلاع شگر، اسکردو اور استور سے مظفرآباد کے راستے آگے چلی جائے گی۔ اس حوالے سے وزارتِ مواصلات نے گلگت بلتستان کی متعلقہ انتظامیہ کو بلوپرنٹ تیار کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید نے اس منصوبے کو قابلِ عمل قرار دیا ہے۔ رواں سال کے آخر تک تمام فورمز سے منظوری کے بعد اس شاہراہ کی تعمیر کے منصوبے کا آغاز ہوگا۔ چین کا ایک وفد شگر اور اسکردو کا دورہ کرکے مقامی لوگوں سے اس حوالے سے بات چیت بھی کرچکا ہے، اور مقامی لوگوں نے اس وفد کو بتایا کہ یہ تاریخی تجارتی گزرگاہ ہے۔ یہ شاہراہ خنجراب روٹ کی نسبت زیادہ سیدھی، محفوظ اور موسموں کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔
شاہراہ کا یہ نیا منصوبہ کئی حوالوں سے اہم ہے۔ اس کا پہلا فائدہ تو اقتصادی ہے، کہ اس سے بلتستان کے وہ علاقے مستفید ہوں گے جو سی پیک سے کٹے ہوئے تھے۔ اسی طرح اس روٹ کا آزادکشمیر میں داخل ہونا کئی حوالوں سے اہم ہے۔ سی پیک کے اثرات سے گلگت بلتستان کے دور اُفتادہ اور آزاد کشمیر کے
دارالحکومت مظفرآباد سمیت کئی دوسرے علاقے بھی مستفید ہوں گے۔ بلتستان اور آزادکشمیر کے لوگوں میں یہ احساس موجود تھا کہ ابھی تک سی پیک کے اثرات اُن تک پوری طرح نہیں پہنچ پائے، کیونکہ سی پیک کا اصل روٹ بلتستان اور آزادکشمیر ریجن کو بائی پاس کرتے ہوئے گلگت سے خیبر پختون خوا میں داخل ہوکر آگے گزرتا ہے۔ اس نئے روٹ سے چین کا پاکستان سے فاصلہ مزید گھٹ جائے گا، کیونکہ یہ شاہراہ چین سے بلتستان میں داخل ہوکر تین ضلعوں سے گزرتے ہوئے جب وادیٔ نیلم میں داخل ہوگی تو اس کی اقتصادی اور سیاحتی کے ساتھ ساتھ اسٹر ٹیجک اہمیت بڑھ جائے گی۔ وادیٔ نیلم میں یہ شاہراہ تھوڑی آگے چل کر دریائے نیلم کے دائیں کنارے پر پہنچے گی، جہاں کئی مقامات پر دریا کے بائیں کنارے پرکنٹرول لائن واقع ہے، اور یوں یہ شاہراہ کنٹرول لائن کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کے دواضلاع بارہ مولہ اور کپواڑہ کے ساتھ بلکہ کیرن اور ٹیٹوال جیسے قصبوں کے سامنے سے اور بھارتی فوجیوں کی عین ناک کے نیچے سے گزرے گی۔ صاف ظاہر ہے کہ بھارتی فوج اس شاہراہ پر ہونے والی سرگرمی کو سوائے حسرت ویاس سے دیکھنے کے کچھ اور کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی۔ بلتستان کا علاقہ لداخ سے متصل ہے جہاں اس وقت بھارت اور چین کی افواج کے درمیان زبرست معرکہ آرائی چل رہی ہے اور آنے والے دنوں کے لیے مزید زور آزمائی کی
تیاریاں بھی جاری ہیں، اور اس طرح چین کا لداخ کے ساتھ فاصلہ بلتستان کی جانب سے مزید کم ہوجائے گا۔ کنٹرول لائن کے جن علاقوں سے یہ روٹ گزرے گا وہ وہی علاقے ہیں جہاں پاکستان اور بھارت کے درمیان آئے روز کشیدگی جاری رہتی ہے، اور دونوں طرف سے گولہ باری اور فائرنگ کا تبادلہ معمول کی بات ہے۔ اسی علاقے میں چین کی نگرانی میں تعمیر ہونے والا نیلم جہلم پروجیکٹ اور نوسہری ڈیم بھی واقع ہے۔ بھارت جب اور جس وقت چاہتا ہے شاہراہ نیلم کو فائرنگ کے ذریعے بند کرکے لاکھوں کی آبادی کو محصور کردیتا ہے۔
جس دو محاذی جنگ کا بھارت رونا رو رہا ہے اس حوالے سے بھی نئی شاہراہ کی خاصی اہمیت ہے۔ چین اب بہ آسانی وادی نیلم سمیت اس پوری پٹی تک اپنے ٹینک لاسکتا ہے۔ اس طرح چین پاکستان اقتصادی راہداری کا یہ نیا منصوبہ کئی حوالوں سے گیم چینجر ہے جس میں آزادکشمیر کا دفاع بھی شامل ہے۔ پاک بھارت فوجوں کے درمیان حد درجہ کشیدگی کا میدان سمجھی جانے والی وادی نیلم میں کسی بھی نئی کشیدگی کی صورت میں گلوان وادی اور دریائے نیلم کے بائیں کنارے پر پنگانگ جھیل کی تاریخ دہرائی جاسکتی ہے۔
خطے کے دفاعی اور اسٹر ٹیجک دائو پیچ میں اس شاہراہ کی تعمیر فیصلہ کن اہمیت کی حامل ہے۔ اب پاکستان سے بلند پہاڑوں پر قابض اور نسبتاً بہتر اسٹر ٹیجک پوزیشنیں سنبھالے رکھنے والی بھارتی فوج کے لیے یہ ایک ایٹم بم ہے۔ بدلتا ہوا وقت اس کی قدر واہمیت کو واضح کرتا چلا جائے گا۔