۔’’مسٹرچھپن انچ ‘‘ کی دُرگت

436

پیپلز لبریشن آرمی اور بھارتی فوج کے درمیان لداخ مسئلے پر مذاکرات کا نواں دور بھی حسب ِ توقع بے نتیجہ ختم ہو گیا۔ مشرقی لداخ سے دونوں فوجوں کے انخلا کے معاملے پر مذاکرات کا آٹھواں دور چھ نومبر کو کسی نتیجے کے بغیر ہی ختم ہوا تھا۔ چین اور بھارت کے درمیان اس وقت معاملات کی اُلجھی ہوئی ڈور میں واحد مثبت پیش رفت یہی ہے کہ دونوں ہر مذاکرات کے اختتام پر اگلے مذاکرات کا وعدہ کرکے اُٹھتے ہیں اور دونوں فریق یہ حقیقت جان چکے ہیں کہ خاصی مدت تک ’’اُٹھک بیٹھک‘‘ کا یہ سلسلہ اب دونوں کا مقدر رہے گا۔ 10ستمبر کو ماسکو میں بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر اور چینی وزیر خارجہ زی وانگ کے درمیان مذاکرات میں مزید فوج سرحد پر نہ بھیجنے اور صورت حال کو یک طرفہ طور پر تبدیل نہ کرنے پر اتفاق ہوا تھا مگر جو اس سے پہلے ہو چکا تھا اس میں تبدیلی کا کوئی وعدہ ہوا نہ اسے ریورس کرنے کا کوئی عندیہ ملا۔ بھارت چین سے گزشتہ برس جون سے پہلے کی پوزیشن پر جانے کا مطالبہ کررہا ہے اور چین اس بات سے انکار ی ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اس نے کسی غیر کے علاقے میں پیش قدمی نہیں کی۔ بات اب لداخ تک محدود نہیں رہی بلکہ چین نے ارونا چل پردیش میں جسے بھارتی اپنا علاقہ قرار دیتے ہیں سو گھروں پر مشتمل ایک خوبصورت اور جدید بستی تعمیر کر دی ہے جس پر بھارت کے ایک دانشور پروین سوانی نے بہت دلچسپ تبصرہ کیا ہے کہ ’’اب بھارت کی سرزمین پر ایک ہنستا بستا چین قائم ہوگیا ہے کل چین اس خوش حال بستی میں اپنے لوگوں کو لا کر بسائے گا‘‘۔
بھارت میں یہ تاثر عام ہو چکا ہے کہ چین ایک واضح حکمت عملی اور ہدف کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے جبکہ بھارت بے ہدف اور بے سمت ہے بلکہ اسے چین کے مقابلے کے لیے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ مودی نے ایک بار چین کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ توسیع پسندی نہیں چلے گی۔ چین نے بھارتی حدود میں بستی تعمیر کرکے ثابت کیا کہ یہی پالیسی چلے گی۔ مودی نے چین اور پاکستان کو اپنی بہادری دکھاتے ہوئے اپنے چھپن انچ چوڑے سینے کی بات کی تھی اب خود بھارت کے لوگ بلکہ اپوزیشن راہنما راہول گاندھی انہیں کے اس خود ساختہ خطاب کو طنزو استہزا کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ راہول گاندھی نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’’مسٹر چھپن انچ نے چین بولنا ہی چھوڑ دیا ہے‘‘۔ یوں بات صرف لداخ کی نہیں بلکہ ہماچل پردیش سے اروناچل پردیش تک جابجا کشیدگی اور تصادم میں ڈھل گئی ہے۔ سکم کے علاقے نکولا درے میں دونوں افواج کے درمیان ایک جھڑپ بھی ہوئی ہے جس میں بیس کے قریب فوجی زخمی ہوئے ہیں۔ یہ گزشتہ برس گلوان وادی کے خونیں تصادم کے بعد ہونے والی دوسری دُوبدُو معرکہ آرائی ہے۔ دوسری طرف بھارت کا اصرار ہے کہ وہ اپنے علاقے میں کھڑا ہے جبکہ چین نے پیش قدمی کی ہے۔ بھارت کے لیے سیاچن کا محاذ ہی کیا کم تھا کہ اب لداخ کے برف زاروں پر اسے پچاس ہزار فوجی تعینات کرنے پڑے ہیں۔ اس وقت دونوں طرف سے ایک لاکھ فوجی آمنے سامنے ہیں۔ دونوں فوج کی تعداد کم کرنے پر متفق ہیں مگر سوال وہی ہے کہ پہل کون کرے۔ اعتماد سازی کے عمل تک یہ معمہ حل ہوتا نظر نہیں آتا۔ بھارت میں یہ برملا اعتراف کیا جانے لگا کہ بھارتی فوج میں پیپلز لبریشن آرمی کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ صلاحیت ہو بھی کیسے؟ جب اس ہدف کو سامنے رکھ کر تیاری ہی نہ کی گئی ہو۔
چین کی فوج امریکی فوج کی ٹکر کی ہے اورکئی مواقع پر امریکا بھی چین کی فوجی صلاحیت سے پریشان نظر آتا ہے۔ بھارتی فوج نے اپنی ساری توجہ پاکستان پر مرکوز کیے رکھی۔ وہ چین کے مقابلے اور خطرے سے غافل رہی اور پاکستان اور دہشت گردی کو سب سے بڑا چیلنج سمجھتی رہی۔ اب جب چین کی فوج کی صورت میں اسے بڑی اور ناگہانی آفت کا سامنا کرنا پڑا ہے تو ایل او سی پر شیر بننے والی بھارتی فوج ایل اے سی یعنی چینی سرحد پر بکری بن کر رہ گئی ہے۔ علاقے میں چین اور پاکستان مل کر فوجی مشقیں کرتے ہیں۔ دونوں اسی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں اور دونوں کو علاقائی دشمن کا چیلنج درپیش ہے۔ دونوں کسی بھی جنگ کی صورت میں مل کر لڑ سکتے ہیں۔ اس کے برعکس بھارتی فوج ان پہاڑوں پر امریکی اور فرانسیسی فوجیوں کے ساتھ مشقیں کرتے ہیں۔ اس بات کا امکان نظر نہیں آتا کہ چین اور فرانس سمیت کوئی اور یورپی فوج یہاں بھارتی فوج کے ساتھ مل کر لڑے گی۔ اس لیے خطے میں چین اور پاکستان کی مشقیں جس قدر بامعنی ہوتی ہیں بھارت کی امریکا اور یورپی ملکوں کے ساتھ مشقیں اتنی ہی بے مقصد ہوتی ہیں۔ چین کے ہاتھوں بھارت کی جو درگت بن رہی ہے وہ حقیقت میں مکافات عمل ہے۔ بھارت نے جو سلوک پاکستان سے روا رکھا ہے اب چین کی طرف سے بھارت کو اسی سلوک اور انہی حالات کا سامنا ہے۔