اسلام میں جمہوریت نہیں تو اور کیا ہے؟

1391

میرے 2014 میں لکھے گئے ایک کالم ’’جمہوریت، تازہ خدا اور اس کے پجاری‘‘ پڑھ کر ایک صاحب نے سوال یہ کیا ہے کہ اسلام میں جمہوریت نہیں تو اور کیا ہے؟
دراصل یہ سوال ایک فرد کا نہیں ایک گروہ کا ہے، بہت سے لوگوں کا ہے۔ اس سوال کا جواب ایک تفصیلی مضمون بلکہ ایک کتاب کا متقاضی ہے۔ ہمارے معاشرے میں جمہوریت کی تبلیغ اس قدر ہوئی ہے کہ اب لوگوں کے ذہن میں جمہوریت سے بڑی قدر کوئی باقی نہیں رہ گئی ہے، حتیٰ کی علماء کی اکثریت بھی اسی مغالطہ میں مبتلا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے پی ڈی ایم کی تحریک کے پہلے جلسہ کوئٹہ میں خطاب کرتے ہوئے اس تاریخی حقیقت کا انکشاف کیا کہ ’’ہم نے جمہوریت کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں‘‘۔ کاش کہ مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت نے شریعت کے لیے ایسی قربانیاں دی ہوتیں تو اسلام پاکستان سے اتنا دور نہ ہوتا۔ میں اس کالم میں بہت اختصار سے پوچھے جانے والے سوال کا جواب دے رہا ہوں۔
اسلام میں جمہوریت نہیں خلافت ہے۔ اور جمہوریت اور خلافت ایک بات، ایک چیز نہیں۔ یہ دو الگ تصورات ہیں۔ دونوں کی الگ تاریخ، تہذیب اور مابعد الطبیعات ہیں۔ دونوں اصطلاحات کے ساتھ دو الگ ایمانیات اور عقائد جڑے ہوئے ہیں۔ ’’اسلامی جمہوریت‘‘ ایسا ہی بے جوڑ مرکب ہے جیسے ’’اسلامی کمیونزم‘‘، اسلامی سوشلزم‘‘، ’’اسلامی کیپٹلزم‘‘، اسلامی لبرلزم‘‘، ’’اسلامی ماڈرنزم‘‘، ’’اسلامی کفر‘‘ اور ’’اسلامی منافقت‘‘۔
جمہوریت میں عوام کی حاکمیت ہے، خلافت میں اللہ کی حاکمیت۔
جمہوریت عوام کی نیابت ہے، خلافت رسول اللہؐ کی نیابت۔
جمہوریت انسان کے بنائے گئے دستور پر چلنے کی پابند ہے، خلافت شریعت پر چلنے کی پابند۔
جمہوریت میں انسانوں کی مرضی اور خواہش ہے، خلافت میں اللہ اور اس کے رسول کی مرضی اور خواہش۔
جمہوریت میں بالغ رائے دہندگی ہے، خلافت میں اہل الرائے کی نامزدگی۔
جمہوریت میں منتخب ہونے والا فرد اپنے لیے عہدے کی خواہش رکھتا ہے۔ خلافت میں نامزد ہونے والا فرد، خود عہدہ کا خواہش مند نہیں ہوتا۔
جمہوریت میں بہت سے ’’امیدوار‘‘ میں سے ایک فرد کو منتخب کرنے کے لیے عوام پہلے ووٹ دیتے ہیں، خلافت میں اہل الرائے کے نامزد خلیفہ بننے کے بعد عوام بیعت کرتے ہیں۔
جمہوریت میں مادر پدر آزاد آزادی ہے، خلافت میں ہر آزادی شریعت کی پابند ہے۔
جمہوریت میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے اور حکومت میں آنے کے لیے عوام کو خوش رکھنا ہوتا ہے۔ خلافت میں دین کو غالب کرنے اور قائم رکھنے کے لیے اللہ کو خوش رکھنا ہوتا ہے۔
جمہوریت کا حکمراں صرف عوام کو جوابدہ ہوتا ہے، خلافت کا پاسباں خدا اور خلق دونوں کو جواب دہ ہوتا ہے۔
جمہوریت کا تعلق وطنیت (مقامیت) کے ساتھ ہے، خلافت کا تعلق امت (عالم گیریت) کے ساتھ ہے۔
جمہوریت ہر نظریاتی انقلاب کا راستہ روکتی ہے خلافت کے لیے انقلاب ناگزیر ہے۔
جمہوریت کا اصل کام مادی ترقی ہے خلافت کا اصل مقصد روحانی ترقی ہے۔
جمہوریت پہلے ترقی یافتہ قوم بنانا چاہتی ہے، خلافت پہلے ہدایت یافتہ انسان بنانا چاہتی ہے۔
جمہوریت میں ترقی ایک عقیدہ ہے جس سے وہ عوام ’’دنیا کی جنت‘‘ حاصل کریں، خلافت میں ترقی عوام کو سہولت بہم پہنچانا ہے، جس سے اللہ کی اطاعت و عبادت میں آسانیاں ہوں اور ’’آخرت کی جنت‘‘ کا حصول سہل ہو۔
جمہوریت میں اکثریت کی ایک منظم اقلیت غالب آجاتی ہے۔ خلافت میں اہل تقویٰ کا غلبہ ہوتا ہے۔
جمہوریت میں تعداد اور خلافت میں معیار درکار ہے۔
جمہوریت میں منتخب ہونے کے لیے سرمایہ اور طاقت چاہیے، خلافت کے لیے صالحیت اور صلاحیت چاہیے۔
اسلام کا نام لینے والا جمہوریت میں اقتدار میں تو آسکتا ہے، جیسے ترکی میں اردوان، اور پاکستان میں عمران آگئے، لیکن اپنی معاشرت، معیشت، تعلیم اور عدالت میں اسلام نہیں لا سکتا جیسا کہ یہ دونوں حضرات ترکی اور پاکستان میں نہیں لا سکے اور نہ لا سکتے ہیں۔
جمہوریت میں اکثریت کی ایک منظم اقلیت غالب آجاتی ہے اور اقلیتوں کی نسل کشی کرتی ہے۔ جیسا کہ دنیا کی سب سے’’ پرانی جمہوریت‘‘ امریکا کی سفید نسل پرست، دیگر تمام اقلیتوں کو ختم کردینا چاہتی ہے۔
جیسا کہ دنیا کی سب سے’’ بڑی جمہوریت‘‘ بھارت میں برہمن دماغ اور آر ایس ایس کی طاقت غالب آکر اقلیتوں کی نسل کشی کر رہی ہے۔ اور جیسا کہ مشرق وسطیٰ کی ’’اکلوتی جمہوریت‘‘ اسرائیل‘‘، فلسطینیوں کی نسل کشی اور ملک بدر اور زمین بدر کر چکی ہے۔
جس طرح بھارت میں برہمنوادی جمہوریت کے حمایتی دلت و شودر میں بھی بہت مل جاتے ہیں، اسی طرح پاکستان میں بھی ان برہمنوں (’’فرشتوں‘‘) کے حمایتی پاکستانی مسلم دلتوں اور شودروں میں بھی بہت مل جائیں گے۔ یہی تو جمہوریت کا کمال ہے۔ اس کا چھرا، لغت کے اتنے خوبصورت الفاظ اور اصطلاحات سے ڈھکا ہوا ہوتا ہے، کہ اس کے ذریعے کیے جانے والے قتل کو قتل کہنے کو جی نہیں چاہتا۔ بھارت کی جمہوریت پر کاری ضرب لگاتے ہوئے وہیں کے معروف شاعر مرحوم کلیم عاجز نے کہا تھا کہ:
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
واضح رہے کہ یہ شعر بھارت کی یوم آزادی 15 اگست کے دن منعقد ہونے والے لال قلعہ کے مشاعرہ میں کہا گیا تھا، جس میں اس وقت کی وزیر اعظم آنجہانی اندراگاندھی شامل تھیں۔
جمہوریت اور خلافت کا میدان عمل مختلف ہے۔ خلافت کے قیام کے لیے، جمہوریت کے میدان میں جانا ہی تباہ کن ہے۔ جمہوریت کے کھیل کے میدان میں جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اور اس کھیل کے جو اصول و ضوابط ہیں وہ شریعت سے متصادم ہیں۔ جو بھی اس میدان میں جائے گا، وہ دین کا وقار بھی کھوئے گا اور اپنا وقار بھی۔ خلافت کا نظام موجودہ دور میں کیسے قائم ہوگا، اس کا راستہ نکالنا ہوگا۔ اگر مسلمان اس پر کام کرتے تو اس کا حل، اس کا راستہ بہت پہلے نکل آتا۔ لیکن وہ جمہوریت کی بھول بھلیوں میں پھنس کر، اپنا اور دین کا، دونوں کا وقار ختم کر رہے ہیں، اور اسلام کے مستقبل کو دھندلا رہے ہیں۔
ہم جمہوریت کے بدلے ملوکیت اور آمریت (سویلین اور فوجی) کی حمایت نہیں کر سکتے نہ اس کو جمہوریت پر فوقیت دے سکتے ہیں۔ لیکن جب ہماری پاس جمہوریت سے کہیں بالا اور برتر نظام جو نظام ربانی ہے، جو نظام مصطفوی ہے، موجود ہے دوسروں کے سیاسی اسٹور سے کچھ ادھار کیوں لاتے ہیں؟ ہم اس خلافتی نظام کو برپا کرنے کے لیے اس دور میں، اس زمانہ میں نقشہ کیوں نہیں بنا سکتے۔ ہم اس راہ پر کیوں نہیں چلتے۔ ہم اس راستہ پر کیوں نہیں چلتے، جو صالحین اور متقین کا راستہ ہے۔