لال قلعے پر ’’نشان صاحب‘‘ کی حکمرانی

574

نریندر مودی کا شوق مہم جوئی اور ذوق مقابلہ آرائی ہمیشہ ہدف کے لیے کمزوروں کا انتخاب کرتا ہے۔ نریندر مودی کے اس ذوق وشوق کی کہانی کا آغاز ان کی گجرات کی وزرات اعلیٰ سے ہوتا ہے جب ان کی سرپرستی اور خاموش تائید سے گجرات میں پانچ ہزار مسلمانوں کو انتہائی بے رحمی سے شہید کیا گیا۔ سیکڑوں گھر جلائے گئے اور گھروں میں درجنوں افراد بھی راکھ کا ڈھیر بن گئے ان میں ایک رکن پارلیمنٹ بھی شامل تھے۔ دوسری بار وزیر اعظم بننے کے بعد مودی کا یہ شوق ایک بار پھر نشہ بن کر سامنے آیا۔ اس کا پہلا شکار وادی ٔ کشمیر کے مسلمان قرار پائے۔ نریندر مودی نے کشمیر کے مسلمانوں کی پہلے سے دبی ہوئی اور برسوں سے تشدد کا شکار آبادی کو مجبور اور لاچار دیکھ کر آئین ہند میں خطے کی خصوصی شناخت ختم کر دی۔ یوں تو یہ فیصلہ پوری مقبوضہ ریاست جموں وکشمیر پر محیط تھا مگر اس کا اصل ہدف وادی ٔ کشمیر کی وہ مسلمان آبادی تھی جو برس ہا برس سے بھارت کے قبضے کے خلاف تحریک چلائے ہوئے ہے۔ کشمیری مسلمان دہلی سے الگ رہ کر اپنی شناخت، زبان اور ثقافت پر اصرار کر رہے ہیں اور ان کے مقدمے اور موقف کو اقوام متحدہ کے ریکارڈ اور پاکستان جیسے قریبی ملک کی حمایت حاصل ہے۔ نریندر مودی نے کشمیریوں سے ان کی الگ شناخت چھین لی اور انہیں فریاد کا حق بھی نہیں دیا۔ گھرگھر اور گلی گلی فوجی پہرے بٹھا کر انہیں اپنا فیصلہ حلق سے اُتارنے پر مجبور کیا۔ قیادت سے محروم عام کشمیری اس فیصلے پر کڑھ کر رہ گیا مگر ابھی اس کا ردعمل آنا باقی ہے۔ اس سے حوصلہ پاکر نریندر مودی نے بھارتی مسلمانوں پر ہاتھ ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ شہریت کے ایسے متنازع قوانین متعارف کرائے گئے جن کی زد مسلمانوں پر پڑتی تھی اور انہیں بیٹھے بٹھائے شہریت سے محروم ہو کر اپنے گھروں سے پناہ گزین کیمپوں میں منتقل ہونا تھا۔ مسلمانوں نے ان قوانین کے خلاف طویل احتجاج کیا مگر مودی نے اسے تشدد کی نذر کرادیا اور کورونا نے مودی نے مدد کی اور کورونا پھیلنے کے بعد یہ احتجاج مطالبہ منوائے بغیر ہی ختم کرنا پڑا۔
شاہین باغ کا میدان خالی ہوا اور مودی اپنی بات پر قائم رہا جس نے آتش مہم جوئی کو مزید بڑھا دیا۔ انہی تجربات سے حوصلہ پاکر مودی نے کسانوں کے حوالے سے تین متنازع قوانین منظور کرائے۔ بظاہر یہ مجموعی طور پر کسانوں سے متعلق تھے مگر اس کی اصل زد زرعی علاقے پنجاب اور پنجابی کسانوں پر پڑتی تھی۔ دوسرے لفظوں میں سکھ کسان اور زمیندار اس کا ہدف تھے۔ پنجاب چاول کاشت کرنے والی بھارت کی سب بڑی ریاست ہے۔ سکھ کسانوں نے پہلے مرحلے پر ہی بتادیا کہ مودی جی نے ہمیں کشمیری اور بھارتی مسلمان سمجھنے کی بھول کی ہے۔ ہم انہیں بتا دیں گے اب ان کا واسطہ خالصہ سے ہے۔ کسانوں نے متنازع قوانین کی واپسی کے لیے دہلی کی سرحد پر مستقل احتجاج کا راستہ اپنایا اور دوماہ ہوگئے کہ سرد ترین موسم کے باجود احتجاجی کیمپ کی رونقیں ماند نہیں ہوئیں۔ اس احتجاج میں بھارت بھر کے کسان شامل ہیں مگر اس پر سکھوں اور اس سے بڑھ کر خالصتانی کسانوں کی چھاپ گہری ہے۔ خود بھارتی حکومت اور میڈیا اس تحریک کو خالصتانی تحریک کا نام دے کر محدود کرنا چاہتا ہے۔ اس تحریک نے اپنا رنگ اور رخ اس وقت دکھا دیا جب بھارت کا یوم جمہوریہ منایا جا رہا تھا اور دہلی کے وسط میں انڈیا گیٹ میں ایک فوجی پریڈ اور اسلحہ کی نمائش کا سلسلہ جاری تھا۔ میڈیا اور دنیا کی توجہ اس تقریب پر مرکوز تھی۔ پنجاب کی سرحد پر کھڑے کسانوں نے ٹریکٹروں، گھوڑوں، اور بسوں پر سوار ہو کر دہلی کا رخ کیا۔ وہ ہاتھوں میں ڈنڈے، زرد پرچم اور کرپانیں اُٹھائے ہوئے تھے۔ کسان اپنے راستے کی رکاوٹوں کو ہٹاکر آگے بڑھتے اور مزاحمت کو روند کر آگے نکلتے رہے یہاں تک کہ وہ دہلی کے مشہور عالم اور تاریخی قصبے لال قلعے کے باہر پہنچ گئے۔
ایک میدان انڈیا گیٹ پر مودی اور راجناتھ سنگھ سجائے تھے دوسرا اسٹیج کسان مورچہ نے لال قلعے کے باہر سجا لیا اور دنیا کی توجہ بٹ گئی۔ مظاہرین دہلی کی سڑکوں پر ٹریکٹر مارچ کرنا چاہتے تھے۔ وہ لال قلعے کے باہرجمع ہوئے اور ایک شخص نے آگے بڑے کر قلعے کے اوپر جہاں ترنگا لہراتا ہے سکھوں کا مقدس جھنڈا ’’نشان صاحب‘‘ لہرا دیا۔ اسے خالصتان کا جھنڈا بھی کہا گیا۔ سکھ نوجوان قلعے پر کئی گھنٹے تک قابض رہے اور جابجا پولیس اہلکاروں کے ساتھ ان کا تصادم بھی ہوتا رہا۔ یوں انڈیا گیٹ محض جنگی تیاریوں کی نمائش تھی جبکہ اسی شہر کے دوسرے علاقے میں لال قلعہ کے باہر کا علاقہ باقاعدہ میدان جنگ بنا رہا۔ اس تصادم میں اسی کے قریب پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ ایک کسان کی موت واقع ہوئی۔ دن بھر یہ دنگل جاری رہا او ر شام ہوتے ہی کسانوں نے واپسی کی راہ لی۔ دہلی کی سڑکوں پر ٹریکٹر مارچ نہ ہو سکا مگر احتجاج کا سلسلہ جا ری رکھنے کا اعلان کیا گیا اور اب یکم فروری کو جب یونین بجٹ پیش کیا جائے گا کسانوں نے پیدل مارچ کا اعلان کر رکھا ہے۔ کسان نریندر مودی کے حوصلے اور عزم کو للکار رہے ہیں اور مودی ان کے عزم وحوصلے کا امتحان لے رہا ہے۔ یوں لگتا ہے کسان تحریک کو طوالت دے کر مودی اسے خالصتان تحریک بنانا چاہتا ہے اور یوں وہ مسلمانوں کے بعد سکھوں کے ساتھ دودو ہاتھ کرنا چاہتا ہے۔ اس آبادی پر اپنی دھاک بٹھا کر اگلے سیاسی ہدف حاصل کرنا چاہتا ہے مگر حالات بتاتے ہیں کہ مودی کا پائوں اب بارودی سرنگ پر پڑ گیا۔ مودی نے اپنی خراب عادت کے باعث سکھوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر کے نئے عذاب کو دعوت دی ہے اب یہ کمبل آسانی سے مودی کی جان چھوڑتا ہوا نظر نہیں آتا۔