اقتدار کے نشے میں مست حکمرانوں اور قومی زبان کو نافذ نہ کرنے کی وجہ سے ملک ترقی نہیں کرسکا

350

اسلام آباد ( رپورٹ: میاں منیر احمد) دانشوروں، سماجی کارکنوں اور سیاسی رہنمائوں کی رائے میں برسرِ اقتدار طبقہ جو نشے میں مست ہے دراصل اُردو کی ترقی میں حائل ہے، اس سے بھی بڑھ کر اُردو کے نفاذ میں بیوروکریسی بھی بڑی رکاوٹ ہے۔ ماضی کا ایک واقعہ ہے کہ ذوالفقار بھٹوجب ایوب خان کے خلاف نکلے تو انہوں نے راولپنڈی میں ایک پریس کانفرنس کی ایک صحافی نے سوال کیا کہ آپ عوام تک کیسے اپنی بات پہنچائیں گے۔ عوام کی زبان تو اُردو ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ وہ اگلی بار لیاقت باغ میں عوام سے اُردو میں خطاب کریں گے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور پھر وہ عوام کے مقبول رہنما بن گئے۔ 1970ء کے انتخابات ہوئے تو پختونخوا اور بلوچستان میں نیپ اور جمعیت علمائے اسلام کی حکومت بنی۔ مفتی محمود صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ بنے۔ ان 2 صوبوں میں اُردو نافذ کر دی گئی۔ پنجاب کو بھی تحریک ملی۔ ایک کمیٹی بنی جس میں احمد ندیم قاسمی، صوفی تبسم، وقارعظیم اور فتح محمد ملک صاحب جیسے افراد تھے۔ حنیف رامے وزیراعلیٰ بنے تو گرم جوشی بڑھ گئی اور بہت سا کام ہوا بھٹو کو بھنک پڑی تو اُردو کو سرکاری حیثیت دینے سے روک دیا۔ پیپلزپارٹی نے اس وقت یہ کام اس لیے کیا کہ اس سے سندھ میں اور مرکز میں وزیراعظم اور پارٹی کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی۔ جسارت کے اس سوال کہ اُردو کو ہر سطح پر نظر انداز کرنے کی وجہ سے ملکی ترقی سست روی کا شکار ہے؟ کے جواب میںخورشید ندیم نے بتایا کہ جس نے جمہور تک اپنا پیغام اُردو زبان میں پہنچایا، جب اقتدار میں آیا تواپنی طبقاتی بالا دستی قائم رکھنے کی خاطر اپنی محسن اُردو کی گردن مارنے پر تیار ہو گیا،اس طبقے کی سوچ اور طرزِ عمل آج بھی وہی ہے۔قیامِ پاکستان کے بعد ہمارے ہاں بعض ادارے بنے جنہوں نے قابلِ قدر کام کیا۔ اُردو لغت بورڈ، اردو سائنس بورڈ، مقتدرہ اُردو زبان۔ شہزاد احمد مرحوم جیسے اہلِ علم نے سائنسی مضامین کو کامیابی کے ساتھ اُردو میں ڈھالا۔ اس کام کا جائزہ لیا جاسکتا اوراسے بہتر بھی بنایا جا سکتا ہے لیکن یہ کام نفاذ کے بعد ہی ہو سکے گا۔ جب اُردو روزمرہ اور روزگار کی زبان بن جائے گی تو فطری ضرورت کے تحت اس میں ارتقا کا عمل تیز ہوگا ۔رہی بات تحقیق اور تخلیق کی تو جس قوم میں یہ عمل آگے بڑھتا ہے، اسی میں علوم کی اصطلاحات بھی وجود میں آتی ہیں جمہوریت کے فروغ کے لیے بھی اُردو کا نفاذ ناگزیر ہے۔ یہ بھی واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ اُردو کا انگریزی یا مقامی زبانوں سے کوئی تصادم نہیں ہے۔ زبان سیکھنے اور اپنانے میں فرق ہوتاہے اُردو کی تنگ دامنی کا گلہ کرنے والوں کو اپنے تساہل اور بے توفیقی کا ماتم کر نا چاہیے ،شورش کاشمیری نے صحیح کہا تھا کہ اُردو کے دامن میں یہ وسعت ہے کہ اس میں کائنات سما جائے۔ اُردو کے اسکالر، سینئرصحافی، مدیر ڈاکٹر عبدالودود قریشی، پی ایچ ڈی (ستارہ امتیاز) نے کہا کہ قومی زبان کے نفاذ کی جدوجہد فرض بھی ہے اور قرض بھی۔ اپنی اور نسلوں کی بقا کے خاطر نفاذ قومی زبان کو یقینی بنانے کے لیے جدوجہد میں بھرپور کردار ادا کریں، غیر ملکی زبان لکھ کر، بول کر اترانا ذہنی غلامی اور چھپی ہوئی پستی کی بدترین مثال ہے، پاکستان ہاکی کے عالمی شہرت یافتہ مایہ ناز کھلاڑی اولمپیئن رائو سلیم ناظم نے کہا کہ اردو قومی زبان ہے اور عدالت عظمیٰ نے بھی حکم دے رکھا ہے اسے نافذ کیا جائے مگر نہ جانے کیوں اسے نافذ نہیں کیا جارہا ہے، اس کی راہ میں بیوروکریسی بہت بڑی رکاوٹ ہے جسے انگریزی آتی ہے اور بہت اچھی انگریزی لکھتے اور بولتے ہیں لیکن ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم کیوں اپنی شناخت نہیں بنا رہے ہیں اس ملک میں بہت سے اسکولز سسٹم ہیں اور یہاں فارغ البال طلبہ انگریزی سے واقف ہیں انہیں قومی روایت کا کوئی علم نہیں ہے بس انہیں انگریزی آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں یکساں نظام تعلیم ہونا چاہیے تاکہ احساس کمتری کا غلب پن ختم ہو سکے جب تک ہم ایک قوم نہیں بنیں گے اور اُردو کو قومی زبان کے طور پر نہیں اپنائیں گے ہم ترقی نہیں کر سکتے ہیں، اور ہم سندھی، پنجابی، بلوچی، پشتون میں ہی بحث کرتے رہیں گے جبکہ ہمیں ایک قوم بننا ہے اور اُردو قومی زبان ہے اسے اپنانا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ(ج) کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل اشرف خان نے کہا کہ بیرونی طاقتوں کے اشارے پر ملک کو جنگل بنانے والے اور قوم کو ہجوم بنانے والے اشرافیہ کے لوگ اس کیذمے دار ہیں اور پاکستان کو ترقی کرنے نہیں دیں گے۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے رکن ایگزیکٹو عمران شبیر عباسی نے کہا کہ چاہیے تو یہ تھا کہ عالم اسلام تعلیم اور سائنس پر بھرپورتوجہ دیتا، مگر ہوا اس کے برعکس، ہمارے رویوں کی وجہ سے ہم تعلیم پر اپنا فوکس نہ کر سکے، جس کے باعث مسلم دنیا تعلیم اور سائنس کے شعبے میں آگے نہ بڑھ سکی، اور یہی دو بڑی وجوہات ہماری زبوں حالی کا باعث بنیں۔پاکستان مسلم لیگ (ض) کے صدر ،قومی اسمبلی کے سابق رکن محمد اعجاز الحق نے کہا کہ خداوند کریم نے ہمیں بے شمار قدرتی وسائل سے نوازا ہے ،بدقسمتی سے ہمارے رہبر اور قائدین نشہ حکمرانی میں مست رہے ،مگر اغیار نے ان سے بھرپور استفادہ کیا اور اس وقت پوری دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں۔جب تک مسلمانوں نے تعلیم کو ترجیح دی تو ان کا دور دورہ تھا، لیکن جب مسلمانوں نے تعلیم کو پس پشت ڈال دیا تو ہم زوال کا شکار ہوتے گئے۔ اب ہمیں سوچنا یہ ہے کہ اگر ہم ذرا سی کوشش کریں تو پوری دنیا کو فتح کر سکتے ہیں ،مسلم ممالک کی اہلیت سے عاری قیادت کی بدولت ہم زوال کا شکار ہوگئے۔ امریکا، یورپ اورجاپان تیزی سے سائنس کے شعبے میں ترقی کرتے گئے اور جاپان اب کئی شعبوں میں امریکا اور یورپ سے بھی کہیں آگے ہے اور تو اورپاکستان سے 2سال بعد آزاد ہونے والا ملک چین،جو کبھی افیون کے استعمال کی وجہ سے مشہور تھا، چین نے اپنی زبان پر انحصار کیا اور آج چین اس وقت ایسی عالمی طاقت بن کر ابھر رہا ہے کہ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکا جیسا سپر پاور ملک بھی اس کا مقروض ہے کیا پاکستان میں اُردو کا نفاذممکن ہے؟عدالتِ عظمیٰ کافیصلہ آ چکا مگر یہ سوال بدستور جواب طلب ہے کیا یہ اردو کی تنگ دامنی ہے جو مانع ہے؟ کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں ابلاغ کی زبان بن سکے؟اُردو کی تاریخ اور رفعتوں سے بے خبر ان سوالات کے جواب اثبات میں دیتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اردو زبان نہ صرف اس پر قادر ہے بلکہ ماضی میں وہ اس کے عملی مظاہر پیش کر چکی ہے۔ پروفیسر عرفان خالد نے کہا کہ انگریز یہاں آئے تو ان کے ساتھ انگریزی زبان آئی۔ جدید علوم بھی آئے کہ اُس عہد میں ان علوم کی ایک اہم زبان انگریزی بھی تھی۔ نئی ایجادات کے نام انگریزی ہی میں تھے۔ انگریزوں نے اس ضرورت کو محسوس کیا کہ مقامی آبادی کی زبان جانیں اوراُردو دانوں کو بھی خیال ہوا کہ انگریزی میں موجود علوم تک رسائی ہو۔ اس دوطرفہ ضرورت نے ترجمے کا دروازہ کھولا۔ فورٹ ولیم کالج بنا تو اس کا دارالترجمہ بھی قائم ہوا۔ یوں انگریزی اور دوسری مغربی زبانوں کی کتب کا اُردو میں ترجمہ کیا جا نے لگا۔انگریزی ہندوستانی لغت اسی دور کا کارنامہ ہے۔ پھر دہلی کالج آگے بڑھا اوریہاں جدید علوم و فنون کے تراجم اور اصطلاحات سازی کے لیے دہلی ورنیکلر ٹرانسلیشن سوسائٹی‘ قائم ہوئی۔ یہاں کیمیا، نباتات، معدنیات، ریاضی، طب اور دوسرے علوم کی اصطلاحات وضع ہوئیں۔ ڈیڑھ سو کتب کی اشاعت بھی ہوئی۔1863ء میںسر سید احمد خان کی سائنٹیفک سوسائٹی نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اورمختلف فنی، سائنسی اور تاریخی موضوعات پر 40کتب کا ترجمہ کیا اسی طرح آگرہ میڈیکل کالج میں، اُردومیں بھی طب کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت انجینئرنگ اور طب کی کتب اُردو میں مو جود تھیں۔جامعہ عثمانیہ نے تو اردو کو بام ِعروج تک پہنچا دیا۔ یہاں ذریعہ تعلیم اُردو تھا۔ مولوی عبدالحق کی سربراہی میں 14اگست 1917ء کو دارالترجمہ قائم ہوا۔ علم کی دنیا کے اکابر اس سے وابستہ ہوئے اور مختلف علوم کی امہات ِکتب کو اُردو میں منتقل کیاسوال یہ ہے کہ جو زبان سو ڈیڑھ سو سال پہلے اپنی قدرتِ کلام کی وسعت کا عملی ثبوت پیش کر چکی، آج جدید علوم کے بیان اور تدریس پرکیوں قادر نہیں ہے؟اس کی واحد وجہ ہمارے برسرِ اقتدارطبقے کی قومی بے حسی، تہذیبی پس ماندگی اورذہنی غلامی ہے۔ انہوں نے اُردو کو جدید زبان بنا نے سے دانستہ گریز کیا۔ وہ انگریزوں کے دور سے مو جود حاکم اور محکو م کے فرق کو باقی رکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے انگریزوں کی طرح آزادی کے بعد بھی اس فرق کو ختم نہیں ہو نے دیا۔ اس طبقے نے اپنے بچوں کو انگریزی کی تعلیم دلائی تاکہ وہ انگریزوں کی جگہ لے سکیں اہلِ علم جانتے ہیں کہ زبان صرف ابلاغ کا ذریعہ نہیں، تہذیب کا دروازہ بھی ہے۔