امریکا کی عالمی رسوائی (حصہ اوّل)

516

امریکا اور اہلِ مغرب اپنے آپ کو عالَم انسانیت کے لیے جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کے آئیڈیل اور علم بردار قرار دیتے ہیں، لیکن آج دنیا کی سب سے طاقتور جمہوریت امریکا برسر عام رسوا ہورہا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ 2020 کے صدارتی انتخابات کو جعلی قرار دیتے ہیں اور سرعام کہہ رہے ہیں: ’’انتخابات چوری ہوگئے ہیں، ہم معاف نہیں کریں گے اور ہم ان انتخابات کو تسلیم نہیں کریں گے‘‘۔ 3نومبر سے آج تک انہوں نے اپنی شکست کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور اپنے پیروکاروں اور ری پبلکن پارٹی کو صدارتی انتخاب کے نتائج کو قبول نہ کرنے اور ردّ کرنے کا مشورہ دیتے رہے ہیں۔ انہوں نے 2016ء کا صدارتی انتخاب سفید فام نسلی عصبیت کو ابھار کر جیتا اور وہ آج تک اس عصبیت کا پرچم بلند کیے ہوئے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’ہم معاف نہیںکریںگے، ہم کبھی انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کریںگے، ہم انتخابات کی چوری روکیں گے، ہم پنسلوینیا ایوینیو جائیں گے، ہم کیپٹل ہل جائیں گے، ہم کمزور ری پبلکنز کو جرأت سکھائیں گے، امریکا کو واپس حاصل کرنے کے لیے اس کی ضرورت ہے۔
صدارتی انتخابات کے لیے امریکا کا انتخابی نظام انتہائی پیچیدہ ہے، اس پر ہم پہلے بھی ایک کالم لکھ چکے ہیں، یہ براہ راست اور بالواسطہ انتخابی نظام کا ملغوبہ ہے، اس کے کئی مراحل ہیں اور آخری مرحلہ کانگریس سے الیکٹرل ووٹوں کی گنتی اور نتائج کی توثیق کا ہے، جس کی کانگریس سے 6جنوری 2021 کوکیپٹل ہل پر حملے کے بعد بمشکل توثیق ہوئی۔ ٹرمپ ایروزونا، پنسلوینیا اور جارجیا کے انتخابی نتائج کو متنازع قرار دیتے رہے ہیں، انہوں نے اپنے حامیوں کو اکسایا اور انہوں نے کیپٹل ہل پر چڑھائی کردی اور توڑ پھوڑ کی۔ واضح رہے کہ کیپٹل ہل میں کانگریس کے دونوں ایوانوں کے اجلاس ہوتے ہیں اور ان کے دفاتر ہیں، یہ امریکی جمہوریت کے چہرے پر کلنک کا ٹیکہ ہے اور ایسا سیاہ داغ ہے جو کبھی مٹایا نہ جاسکے گا، بلکہ خود ٹرمپ نے کہا: ’’آج کے دن کو بھلایا نہیں جاسکے گا‘‘، ابتدا میں انہوں نے بلوائیوں کو شہہ دی، ان کے موقف اور طرزِ عمل کو درست قرار دیا، لیکن پھر شدید دبائو آنے کے بعد انہوں نے یوٹرن لیا اور اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا: ’’حملہ آور قانونی انجام سے بچ نہیں سکیں گے‘‘۔
سابق امریکی صدور، عالمی رہنمائوں اور امریکی زعمانے کیپٹل ہل پر حملے کی شدید مذمت کی، بش نے کہا: ’’انتخابی نتائج کو بدلنا امریکا میں نہیں ہوتا، بنانا ری پبلک میں ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکی جمہوریت آئی سی یو میں ہے اور سسکیاں لے رہی ہے‘‘۔ اوباما نے کہا ’’یہ ذلّت اور شرم کا مقام ہے، ری پبلکن پارٹی اور دائیں بازو کا میڈیا اس کی ذمے داری سے بری نہیں ہوسکتے، آج کے تشدّد کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کرے گی، منصب صدارت پر بیٹھے ہوئے شخص نے بے بنیاد اور جھوٹے الزامات لگا کر لوگوں کو قانونی انتخابی نتائج کے خلاف ابھارا‘‘۔ کلنٹن نے کہا: ’’آج ہمارے کیپٹل، ہمارے دستور اور ہمارے ملک کی توہین ہوئی ہے، یہ ٹرمپ کے چار سالہ زہرآلود بیانات کا منطقی نتیجہ تھا‘‘۔ جمی کارٹرنے کہا: ’’یہ قومی المیہ ہے، یہ شرم ناک حرکت ہماری قوم کی نمائندگی نہیں کرتی‘‘۔
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا: ’’ہم اس ذلّت آمیز منظر کی مذمت کرتے ہیں، امریکا دنیا بھر میں جمہوریت کی حمایت کے لیے کمر بستہ ہوتا ہے، اب یہ لازمی ہے کہ پرامن اور منظم انتقال اقتدار ہو‘‘۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے کہا: ’’امریکن کانگریس پر حملہ کرنے والے باغی تھے، میں ان مناظر کو دیکھ کر شدید غصے اور غم کی کیفیت میں ہوں، مجھے افسوس ہے کہ ٹرمپ نے ابھی تک اپنی شکست کو تسلیم نہیں کیا، بلکہ وہ بدستور امریکی انتخابات کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کر رہے ہیں‘‘۔ چین نے اس موقع کو قرض چکانے کے لیے استعمال کرتے ہوئے کہا: ’’امریکی انتخابی نتائج کو تبدیل کرانے کے لیے کیپٹل ہل پر حملہ آوروں اور گزشتہ سال ہانگ کانگ میں قانون ساز کونسل پر چڑھائی کرنے والے مظاہرین میں مماثلت ہے‘‘، بلکہ وزارتِ خارجہ کے ترجمان ہواچُن ینگ نے کہا: ’’ہانگ کانگ کے مظاہرے اس سے زیادہ سنگین تھے، مگر وہاں ایک بھی احتجاج کرنے والا ہلاک نہیں ہوا‘‘۔ واضح رہے کہ امریکا اور اہلِ مغرب ہانگ کانگ مظاہرین کی حمایت کر رہے تھے اور انہیں شہ دے رہے تھے۔ روسی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماریہ زخاروف نے کہا: ’’امریکا کا انتخابی نظام فرسودہ ہے، یہ موجودہ جمہوری معیارات پر پورا نہیں اترتا، کئی طرح کی خلاف ورزیوں کو جنم دیتا ہے اور امریکی میڈیا کی سیاست زدگی واشنگٹن کے فسادات کا سبب ہے‘‘۔ فرانسیسی صدر میکرون نے کہا: ’’جب دنیا کی قدیم ترین جمہوریت میں رخصت ہونے والے صدر کے حامی مسلّح ہوکر قانون کے تحت منعقدہ انتخابات کو چیلنج کریں گے، تو ’’ایک فرد ایک ووٹ‘‘ کے عالمگیر نظریے کی بے توقیری ہوگی۔ آج جو کچھ واشنگٹن ڈی سی میں ہوا، یقینا یہ امریکی اقدار کے خلاف ہے، ہم اپنی اور امریکی جمہوریت کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں‘‘۔ یورپین کونسل کے صدر چارلس مائیکل نے کہا: ’’امریکی کانگریس جمہوریت کا عبادت خانہ ہے، آج رات واشنگٹن ڈی سی میں جو منظر دیکھا، اس سے شدید صدمہ ہوا، ہمیں یقین ہے کہ امریکا میں پرامن انتقالِ اقتدار کو یقینی بنایا جائے گا‘‘۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گتریس نے کہا: ’’کیپٹل ہل واشنگٹن میں جو منظر دیکھا، اس سے غمزدہ ہوگیا ہوں‘‘۔ کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا: ’’جمہوریت پر حملے کی وجہ سے انتہائی غمزدہ اور پریشان ہوگیا، تشدّد کبھی بھی عوام کے فیصلے کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہوگا، امریکا میں جمہوریت ہر قیمت قائم رہنی چاہیے اور یہ رہے گی‘‘۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جسنڈا آرڈن نے ٹویٹ کیا: ’’جمہوریت، عوام کے ووٹ دینے کا حق ہے، ان کی آواز سنی جائے اور ان کے فیصلے کو پر امن طریقے سے تسلیم کیا جائے، اسے کسی ہجوم کے ذریعے کالعدم نہ کیا جائے‘‘۔
وینزویلا کی حکومت، جسے امریکا قانونی تسلیم نہیں کرتا، نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’’اپنی جارحانہ پالیسیوں کی وجہ سے امریکیوں نے جو حالات دوسرے ملکوں میں پیدا کیے، آج وہ خود انہی افسوسناک حالات سے گزر رہے ہیں، یعنی یہ مکافاتِ عمل ہے‘‘۔ 2006ء میں فجی میں انقلاب لانے والے وزیر اعظم نے کہا: ’’آج ہم نے جو مناظر واشنگٹن میں دیکھے، یہ دنیا بھر میں جمہوریتوں کے لیے خطرہ ہیں، سچی اور اصلی جمہوریت ایک قیمتی دولت ہے، جو کسی بھی قوم کو خیرات میں نہیں ملتی، ہمیں یقین ہے کہ امریکا میں یہ بدصورت باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگا‘‘۔ نو منتخب امریکی صدر بائڈن نے کہا: ’’آج امریکی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے، ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو تشدد پر اکسایا‘‘۔ سابق خاتون اول مشیل اوباما نے کہا: ’’امریکی مرکزِ اقتدار کی بے حرمتی کی گئی، حیرت ہے دسیوں لاکھوں امریکیوں نے ایک ایسے شخص کو ووٹ دیا جو اپنی انا کی خاطر ہماری جمہوریت کو شعلوں کی نذر کرنا چاہتا ہے‘‘۔ دارالعوام کی اسپیکر نینسی پلوسی نے کہا: ’’ٹرمپ کو ایوان صدر سے نکال دینا چاہیے‘‘۔ سینیٹ میں ڈیموکریٹک لیڈر چک شومر نے نائب صدر سے کہا: ’’دستور کی پچیسویں ترمیم کے تحت ٹرمپ کو صدارت سے نکال دیں‘‘۔ امریکی سینیٹ میں ری پبلکن لیڈر مچ مکونل نے ایوان میں کھڑے ہوکر کہا: ’’اگر آج ہم نے اپنے ووٹرز، عدالتوں اور ریاستوں کے انتخابی فیصلوںکو ردّ کردیا تو ہم اپنی جمہوریہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائیں گے، اگر آج ہم نے ایسا کیا تو آئندہ عوام کبھی بھی انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کریں گے‘‘۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا: ’’کل ہم نے امریکا میں جوکچھ دیکھا، اس سے واضح ہوگیا کہ مغربی جمہوریت تباہ ہوچکی ہے۔ سابق اٹارنی جنرل بل برنے کہا: ’’ٹرمپ کا اقدام اپنے منصب اور حامیوں سے دھوکا تھا‘‘۔
جو بائیڈن نے کہا: ’’میں صدر ٹرمپ سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ ٹی وی پر آئیں اور اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے آئین کا تحفظ کریں، کیپٹل ہل میں گھس جانا، کھڑکیاں توڑنا، امریکی سینیٹ کے دفاتر پر قبضہ کرنا اور منتخب اراکین کے لیے خطرہ بننا، احتجاج نہیں، بغاوت ہے‘‘۔ جو بائیڈن کے اس پیغام کے بعد ٹوئٹر پر اپنے ایک وڈیو پیغام میں امریکی صدر ٹرمپ نے ایک مرتبہ پھر صدارتی انتخاب چوری کیے جانے کا الزام دہراتے ہوئے کیپیٹل ہل کے اندر اور باہر موجود اپنے حامی مظاہرین سے اپنے گھروں کو لوٹ جانے کا مطالبہ کیا۔ اپنے وڈیو پیغام میں انہوں نے اپنے حامیوں سے کہا: ’’مجھے معلوم ہے آپ تکلیف میں ہیں، آپ کو دکھ ہوا ہے، ہم سے الیکشن چرایا گیا ہے، یہ ہر کوئی جانتا ہے، خاص طور پر دوسری جانب والے، لیکن اب آپ کو گھر جانا ہو گا، ہمیں امن حاصل کرنا ہو گا، ہمیں آئین اور قانون نافذ کرنا ہوگا‘‘۔
ٹرمپ نے دعویٰ کیا: ’’میں نے عمارت کو محفوظ بنانے اور گھسنے والوں کو بے دخل کرنے کے لیے فوری طور پر نیشنل گارڈز اور وفاقی قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو تعینات کیا، میری مہم نے انتخابی نتائج کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر قانونی راستہ اپنانے کی بھر پور کوشش کی۔ میرا واحد مقصد ووٹوں کی سالمیت کو یقینی بنانا تھا، 20جنوری کو ایک نئی انتظامیہ کی شروعات ہوگی، میری توجہ اب اقتدار کی منظم اور بلا رکاوٹ تبدیلی کو یقینی بنانے پر ہے‘‘۔
Capitol Hill پر حملوں کی تاریخ: 1814ء میں برطانوی فوج نے کیپٹل ہل کی بلڈنگ کو جلانے کی کوشش کی تھی، حملہ آوروں نے پہلے بلڈنگ کو لوٹا اور پھر شمالی اور جنوبی حصوں میں آگ لگادی، 1915ء میں ہارڈورڈ یونیورسٹی کے جرمن نژاد پروفیسر ایرک میوٹرنے جرمنی کے دشمنوں کو امریکی اسلحہ بیچنے پر احتجاج کرنے کے لیے کیپٹل ہل میں بارود رکھا تھا، 1954ء میں پورٹوریکو کے قوم پرست گروپ نے کیپٹل ہل پر حملہ کیا، اس میںکانگریس کے پانچ ارکان زخمی ہوئے تھے، 1971ء میں بائیں بازوکے شدت پسندوں نے جنوب مشرقی ایشیا میں امریکی فوج کی موجودگی کے خلاف کیپٹل ہل کے واش روم میں بم رکھنے کی ذمے داری قبول کی تھی، حالیہ حملے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے، باون افراد گرفتار ہوئے اور تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔
دارالعوام کی ایک قرارداد کے ذریعے نائب صدر مائک پنس سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ پچیسیویں آئینی ترمیم کے تحت اختیارات استعمال کرتے ہوے ٹرمپ کو صدارت سے فارغ کردیں، مگر انہوں نے دارالعوام کی اسپیکر کو لکھا: ’’میرے نزدیک پچیسیویں آئینی ترمیم ہمارے آئین کی روح کے منافی ہے، اس سے غلط روایت قائم ہوگی، میں یقین دلاتا ہوں کہ انتقالِ اقتدارنیک نیتی سے ہوگا، میں موجودہ صورتِ حال میں سیاسی کھیل کا حصہ نہیں بنوں گا‘‘۔ دارالعوام میں ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی تحریک پیش کی جاچکی ہے کہ ٹرمپ کا ایوان صدر میں مزید رہنا قومی سلامتی، جمہوریت اور آئین کے لیے خطرے کا باعث ہے، وائٹ ہائوس کے ذرائع نے کہا ہے کہ ممکنہ طور پر بیس ری پبلکن ارکان کانگریس قرارداد کے حق میں ووٹ دیں گے۔ ہم نے یہ جائزہ اس لیے پیش کیا ہے تاکہ ہمارے قارئین کو معلوم ہوکہ آج روس، چین، وینزویلا اور فجی کے رہنما بھی امریکا کو جمہوریت کا درس دے رہے ہیں، امریکا کے لیے اس سے بڑھ کر رسوائی اور کیا ہوگی، نیز وہ یہ بھی باور کرارہے ہیں: ’’اے بادِصبا! ایں ہمہ آوردئہ تست‘‘، یعنی تم نے جوکچھ دوسروں کے لیے بویا تھا، آج اس کی تیار فصل تمہیں خود کاٹنی پڑ رہی ہے۔ (جاری ہے)