حوادث ومصائب (آخری حصہ)

597

صوفیا کرام فرماتے ہیں: جس شخص کو عبادتوں میں لذت نہ آئے اور اس پر اسے غم ہو، تو یہ بھی گناہوں کی معافی کا باعث ہے۔
اہلِ علم حضرات نے ان احادیث کے تحت ذکر کیا ہے کہ بندۂ مومن کے حق میں مصائب وتکالیف مطلقاً گناہوں کے لیے کفارہ بنتی ہیں، خواہ وہ ان پر صبر کرے یا نہ کرے، البتہ بعض اہلِ علم نے کہا ہے: کسی مصیبت کی وجہ سے اجر وثواب اس وقت حاصل ہوتا ہے، جب ان مصیبتوں پر صبر کیا جائے، کیونکہ قرآن وسنت میں اجر وثواب کے حصول کے لیے صبر کی شرط عائد کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (۱) ’’بیشک صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بغیر حساب کے دیا جائے گا، (الزمر: 10)‘‘، (۲) ’’اور ضرور ہم تمہیں خوف اور بھوک اور اموال اور جانوں اور پھلوں کے نقصان کے ذریعے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنادیںکہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے، تو کہتے ہیں: ہم اللہ کے ہیں اور ہم کو اسی کی طرف لوٹ جانا ہے، (البقرہ: 154، 155)‘‘، اس حوالے سے احادیث درجِ ذیل ہیں:
(۱) ’’سیدنا انسؓ بیان کرتے ہیں: نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’بیشک بدلے کا بڑا ہونا آزمائش کے بڑے ہونے کے ساتھ ہے اور اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو پسند فرماتا ہے تو اُنہیں (مصائب میں) مبتلا کردیتا ہے، پس جو راضی رہتا ہے تو اُس کے لیے (اللہ کی طرف سے) رضا ہے اور جو ناراض ہوتا ہے تو اُس کے لیے ناراضی ہے، (سنن ترمذی)‘‘، (۲) ’’سیدنا محمود بن لبید بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐنے فرمایا: ’’بیشک اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو پسند فرماتا ہے تو اُنہیں مبتلائے مصیبت کردیتا ہے، پس جو صبرکرتا ہے تو اُس کے لیے صبر (کا ثواب) ہے اور جو بے صبری کرتا ہے تو اُس کے لیے بے صبری (کا وبال) ہے، (مسند احمد)‘‘، (۳) ’’سیدنا ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’میرے پاس میرے اُس بندۂ مومن کے لیے جنت کے سوا کوئی بدلہ نہیں ہے جس کی میں کوئی عزیز چیز قبض کرلوں اور پھر وہ اُس پر ثواب کی نیت سے صبر کرے، (صحیح بخاری)‘‘، (۴) ’’عطا بن ابی رباح بیان کرتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن عباس نے مجھ سے فرمایا: ’’کیا میں تمہیں ایک جنتی عورت نہ دکھاؤں، میں نے کہا: کیوں نہیں! فرمایا: یہ جو حبشی عورت ہے (یہ جنتی ہے)، یہ نبی کریمؐ کے پاس آئی اور عرض کی: مجھے مرگی کا دورہ پڑتا ہے اور میرا ستر کھل جاتا ہے، آپ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں، نبی کریمؐنے فرمایا: اگر تو چاہے تو صبر کر اور تیرے لیے صبر کے بدلے میں جنت ہوگی اور اگر چاہے تو میں تیرے لیے دعا کردیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تجھے اس مرض سے عافیت عطا کردے، اُس نے کہا: میں صبر کروں گی، پھر اُس نے کہا: مرگی کے دورے کے دوران میرا ستر کھل جاتا ہے، پس آپ یہ دعا فرمائیں کہ میرا ستر نہ کھلے، پس نبی کریمؐ نے اس کے لیے دعا فرمائی، (صحیح بخاری)‘‘، (۵) ’’سیدنا ابوموسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں: نبیؐ نے فرمایا: ’’اللہ عزوجل مَلکُ الموت سے فرماتا ہے: اے ملَکُ الموت! تو نے میرے بندے کے بچے کی روح کو قبض کرلیا، تو نے اُس کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور اس کے دل کے سکون پر قبضہ کرلیا، وہ کہتا ہے: ہاں! اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے: اُس نے کیا کہا: وہ کہتا ہے کہ اُس بندے نے تیری حمد کی اور اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ پڑھا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اس کے لیے جنّت میں گھر تعمیر کردو اور اُس کا نام بَیْتُ الْحَمْد رکھو، (سنن ترمذی)‘‘، اس حدیث کے تحت علامہ مناوی شافعی لکھتے ہیں:
’’علامہ عِزبن عبدالسلام اور علامہ ابن قیم نے کہا ہے: بیماریاں اور مصیبتیں چونکہ غیر اختیاری طور پر آتی ہیں، اس لیے اُن پر اجرو ثواب حاصل نہیں ہوتا، بلکہ اُن پر صبر کرنے سے اجر حاصل ہوتا ہے جو بندے کے اختیار اور کسب سے ہوتا ہے، کیونکہ اس حدیث میں بیان ہے کہ بندے کو جنت میں جو محل حاصل ہوتا ہے وہ اُس کے حمد کرنے اور اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ پڑھنے کی وجہ سے ملتا ہے نہ کہ اُس پر آنے والی مصیبت کی وجہ سے، البتہ مصیبت کا ثواب یہ ہے کہ اُس سے خطائیں معاف ہوجاتی ہیں، (فیض القدیر)‘‘۔ جبکہ بعض اہلِ علم نے کہا ہے کہ مصیبت پر خواہ صبر کیا جائے یا نہ کیا جائے، اس کی وجہ سے گناہ بھی معاف ہوتے ہیں اور اجر وثواب بھی حاصل ہوتا ہے، حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی فرماتے ہیں:
’’احادیث صحیحہ وصریحہ سے بظاہر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ امراض وتکالیف مطلقاً اجر وثواب کے حصول اور گناہوں کی معافی کا سبب ہیں، خواہ اُن پر صبر کیا جائے یا نہ کیا جائے، رہی بات مصیبت پر صبر کرنے اور اُس پر راضی رہنے کی تو وہ ایک علیحدہ بات ہے، ممکن ہے کہ مصیبت پر صبر کرنے کی صورت میں صبر کا زائد اجر وثواب حاصل ہواور اس بارے میں تحقیق یہ ہے کہ جس درجے کی مصیبت ہوتی ہے، وہ اس درجے کے گناہ کے لیے کفارہ بنتی ہے اور اُس مصیبت پر صبر کرنے اور راضی رہنے پر اجر وثواب دیا جاتا ہے، پس اگر مصیبت زدہ شخص کا کوئی گناہ ہی نہ ہو، تو اس کے بدلے مصیبت کے بقدر ثواب دیاجاتا ہے، (فتح الباری)‘‘۔