حوادث ومصائب (حصہ دوم)

564

ان آیات واحادیث میں غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ فی نفسہٖ مصائب وتکالیف اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا اور عقاب نہیں، بلکہ خیر وبھلائی، گناہوں کی معافی اور درجات کی بلندی کا ذریعہ ہیں، البتہ یہ سزا اور عقاب کی شکل اُس وقت اختیار کرتے ہیں، جب انسان ان پریشانیوں اور آفتوں سے عبرت ونصیحت حاصل کرنے اور اپنی اصلاح کرنے کے بجائے انہیں زمانے کی گردش اور ہیر پھیر سمجھتا رہے اور اپنی سابقہ روش کو برقرار رکھتے ہوئے گناہوں اور نافرمانیوں میں مصروف رہے، بلکہ سرکشی میں مزید آگے نکل جائے تو ایسے شخص کو نبی کریمؐ نے اُس اُونٹ کے ساتھ تشبیہ دی ہے، جسے اُس کے مالک نے کچھ دیر کے لیے باندھ کر چھوڑ دیا ہو، اُسے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اُسے کیوں باندھا گیا تھا اور کیوں کھولا گیا ہے، سو وہ آخرت کے عذاب کے علاوہ دنیا کے عذاب میں بھی مبتلا رہتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں پر ناراضی اور افسوس کا اظہار فرمایا ہے، جنہیں اُن کے گناہوں کی وجہ سے مصیبتوں اور پریشانیوں میں مبتلا کیا گیا تو اللہ تعالیٰ کے آگے گریہ وزاری کرنے، عَجز واِنکسار بجالانے اور عبرت ونصیحت حاصل کرنے کے بجائے اپنے تمردو سرکشی پر قائم رہے، چنانچہ ارشاد فرمایا: ’’اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور ان پر آئی تکلیف کو دور کردیں تو بھی یہ بھٹکتے ہوئے اپنی سرکشی پر اَڑے رہیں گے اور بیشک ہم نے انہیں عذاب میں پکڑا تو نہ وہ اپنے رب کے حضور جھکے اور نہ گڑگڑاتے ہیں، (المومنون: 75-76)‘‘ نیز فرمایا: ’’اور بے شک ہم نے آپ سے پہلی اُمتوں کی طرف رسول بھیجے، ہم نے اُنہیں سختی اور تکلیف سے پکڑا کہ وہ کسی طرح گڑگڑائیں، پس ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب ان پر ہمارا عذاب آیا تو وہ گڑگڑائے ہوتے، لیکن اُن کے تو دل سخت ہوگئے اور شیطان نے ان کے کام ان کی نگاہ میں بھلے کر دکھائے، (الانعام: 42،43)‘‘۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات بہت پسند ہے کہ مصیبت اور پریشانی کے وقت بندہ انبیائے کرام کی سنّت پر عمل کرتے ہوئے اُس کے آگے گریہ وزاری کرے اور اپنی عاجزی اور کم ہمتی کا اعتراف کرے، ابواُمامہؓ بیان کرتے ہیں : نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’جو بھی بندہ کسی بیماری کی وجہ سے (اللہ کے آگے) عَجز کا اظہار کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اُسے اُس بیماری سے اس حال میں اُٹھاتا ہے کہ وہ (گناہوں سے) پاک ہوتا ہے، (مجمع الزوائد)‘‘۔
گناہوں اور نافرمانیوں کے علاوہ بعض مصیبتیں اور پریشانیاں آزمائش وامتحان کے طور پر بھی آتی ہیں، جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی آزمائش فرماتا ہے تاکہ کھوٹے کوکھرے سے ممتاز فرمادے، انبیائے کرام ورسلِ عظام اور دیگر صالحین اہلِ ایمان جنہیں اللہ تعالیٰ گناہوں سے محفوظ رکھتا ہے، اُن پرآنے والے مصائب وآلام اور تکالیف وابتلائیں اِسی نوع سے تعلق رکھتی ہیں، چنانچہ اُن پر مصائب وتکالیف اس لیے آتی ہیں تاکہ اُن کے درجات بلند ہوجائیں اور اُن کے صبر وحوصلے اور ہمت واستقامت کو دیکھ کر دیگر مصیبت زدہ اہلِ ایمان کو سکون میسر آئے اور اُن میں بھی صبر کا حوصلہ اور جذبہ پیدا ہو۔ اہلِ ایمان میں سب سے سخت تر آزمائش انبیائے کرام کی ہوتی ہے اور اُن پر جو مصیبتیں اور تکلیفیں آتی ہیں وہ عام لوگوں پر آنے والی تکالیف کی نسبت دُگنی ہوتی ہیں، پھر جو شخص جتنا زیادہ نیک وصالح اور اپنے دین میں متصلّب ہوتا ہے اور انبیائے کرام کے نزدیک اور قریب ہوتا ہے، اُس کی آزمائش اُتنی ہی زیادہ سخت ہوتی ہے، احادیثِ مبارکہ میں ہے:
(۱) ’’سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ بیان کرتے ہیں: میں نے نبی کریمؐ سے عرض کی: یارسول اللہ! سب سے سخت آزمائش کن لوگوںکی ہوتی ہے، آپؐنے فرمایا: سب سے زیادہ سخت آزمائش انبیائے کرام کی ہوتی ہے، پھر جو اُن کے بعد مرتبے میں انبیائے کرام کے جتنے نزدیک ہوتے ہیں، آدمی کو اس کے دین کے مطابق آزمایا جاتا ہے، پس اگر وہ دین میں سخت ہوتا ہے تو اس کی آزمائش بھی سخت ہوتی ہے اور اگر وہ اپنے دین میں کمزور ہو تو اُسی کے مطابق اُس کی آزمائش ہوتی ہے، یہاں تک کہ بندہ روئے زمین پر اس حال میں چلتا ہے کہ اُس پرکوئی گناہ نہیں ہوتا، (سنن ترمذی)‘‘، (۲) ’’سیدنا ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں: میں نبی کریمؐ کی خدمت میںحاضر ہوا، اُس وقت آپ بخار میں تپ رہے تھے، آپ کے جسم اقدس پر ایک لحاف تھا، میں نے اپنا ہاتھ اُس لحاف پر رکھا تو میں نے بخار کی حدت وتپش سے لحاف کو گرم پایا، میں نے عرض کی: یا رسول اللہ! آپ کو تو بہت شدید بخار ہے، آپ نے فرمایا: ’’ہم گروہِ انبیاء کا یہی حال ہوتا ہے، ہم لوگوں پر مصیبت بھی دگنی آتی ہے اور ہمیں اجر بھی دگنا ملتا ہے، میں نے عرض کی: یا رسول اللہ! سب سے سخت آزمائش کن لوگوں کی ہوتی ہے، فرمایا: انبیائے کرام کی، میں نے عرض کی: پھر اس کے بعد، فرمایا: نیک وصالح لوگوں کی، اُن میں سے بعض کو ایسے فقر میں مبتلا کردیا جاتا ہے کہ اُن کے پاس ایک چوغہ کے علاوہ جسے وہ اپنے جسم پر لپیٹتے ہیں، کوئی چیز باقی نہیں رہتی اور اُن میں بعض تو آزمائش پر اس طرح خوش ہوتے ہیں کہ جیسا کہ تم میں سے کوئی شخص مال ودولت کے ملنے پر خوش ہوتا ہے، (سنن ابن ماجہ)‘‘۔
احادیثِ طیبہ کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بندۂ مومن کے حق میں امراض وتکالیف اور مصائب وآلام حتیٰ کہ کانٹا چبھنے جیسی معمولی تکلیف بھی خیر وبھلائی کا باعث ہے، کیونکہ یہ اس کے گناہوں کی معافی اور درجات کی بلندی کا ذریعہ بنتے ہیں اور کل بروزِ قیامت وہ اللہ تعالیٰ سے اِس حال میں ملاقات کرے گا کہ گناہوں سے بالکل صاف ستھرا ہوگا۔
(۱) ’’سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں: نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’صالحین پر سختی کی جاتی ہے اور مسلمان کو کسی کانٹے کے ذریعے یا اس سے بڑھ کر کوئی مصیبت نہیں پہنچتی، مگر اُس کے ذریعے اُس کی ایک خطا مٹادی جاتی ہے اور ایک درجہ بلند کردیا جاتا ہے، (مسنداحمد)‘‘، (۲) ’’سیدنا ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’مومن کو جو بھی تھکن، رنج وغم یا بیماری پہنچتی ہے حتیٰ کہ اگر اُسے کوئی فکر بھی لاحق ہوتی ہے تو اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ اُس کی برائیوں کو معاف فرما دیتا ہے، (سنن ترمذی)‘‘، (۳) ’’سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’کسی مومن کی رگ (بیماری کی وجہ سے) جوش نہیں مارتی، مگر اُس کے ذریعے اللہ تعالیٰ ایک خطا کو مٹادیتا ہے اور اُس کے لیے ایک نیکی لکھ دیتا ہے اور اس کا درجہ بلند فرمادیتا ہے، (المعجم الاوسط)‘‘، (۴) ’’سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: نبی ؐ نے فرمایا: ’’مومن مرد و عورت ہمیشہ اپنے نفس، اپنی اولاد اور مال کے حوالے سے پریشانیوں میں مبتلا رہتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرتے ہیں کہ اُن پر کوئی گناہ باقی نہیں رہتا، (سنن ترمذی)‘‘، (۵) ’’نبیؐ نے فرمایا: ’’جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی بندے کے لیے کوئی ایسا درجہ مقرر کیا جاتا ہے جسے وہ اپنے عمل کے ذریعے نہیں پاسکتا تو اللہ تعالیٰ اُس کے جسم یا اُس کے مال یا اولاد کو مصیبت میں مبتلا کردیتا ہے، پھر اُسے صبر کی توفیق بھی عطا کرتا ہے، حتیٰ کہ اُسے اُس درجے پر پہنچا دیتا ہے جو اللہ کی طرف سے اُس کے لیے مقرر ہوتا ہے، (مسند احمد)‘‘، (۶) ’’سیدنا جابربن عبداللہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن جب اہلِ ابتلا کو ثواب دیا جارہا ہوگا تو اہلِ عافیت یہ تمنا کریں گے کہ کاش دنیا میں اُن کی کھالوں کو قینچیوں سے کاٹا جاتا، (سنن ترمذی)‘‘۔
ان احادیث سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ بیماریوں اور تکلیفوں کو بُرا نہیں کہنا چاہیے، کیونکہ یہ درجات کی بلندی اور گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہیں، ایک مرتبہ نبیؐ سیدہ اُم سائب یا اُم مسیب نامی ایک صحابیہ کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے، آپؐ نے اُنہیں دیکھا تو فرمایا: ’’تم کیوں کانپ رہی ہو، اُنہوں نے کہا: مجھے بخار ہے اور اللہ اِس میں برکت نہ دے، آپ نے فرمایا: بخار کو بُرا مت کہو، کیونکہ یہ بنی آدم سے خطاؤں کو اس طرح لے جاتا ہے، جس طرح لوہار کی بھٹی لوہے کے زنگ کو دور کردیتی ہے، (صحیح مسلم)‘‘۔
صوفیہ ٔ کرام فرماتے ہیں: جس شخص کو عبادتوں میں لذت نہ آئے اور اس پر اسے غم ہو، تو یہ بھی گناہوں کی معافی کا باعث ہے۔
اہلِ علم حضرات نے ان احادیث کے تحت ذکر کیا ہے کہ بندۂ مومن کے حق میں مصائب وتکالیف مطلقاً گناہوں کے لیے کفارہ بنتی ہیں، خواہ وہ ان پر صبر کرے یا نہ کرے، البتہ بعض اہلِ علم نے کہا ہے: کسی مصیبت کی وجہ سے اجر وثواب اس وقت حاصل ہوتا ہے، جب ان مصیبتوں پر صبر کیا جائے، کیونکہ قرآن وسنت میں اجر وثواب کے حصول کے لیے صبر کی شرط عائد کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (۱) ’’بیشک صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بغیر حساب کے دیا جائے گا، (الزمر: 10)‘‘، (۲) ’’اور ضرور ہم تمہیں خوف اور بھوک اور اموال اور جانوں اور پھلوں کے نقصان کے ذریعے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنادیںکہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے، تو کہتے ہیں: ہم اللہ کے ہیں اور ہم کو اسی کی طرف لوٹ جانا ہے، (البقرہ: 154، 155)‘‘، اس حوالے سے احادیث درجِ ذیل ہیں:
(۱) ’’سیدنا انسؓ بیان کرتے ہیں: نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’بیشک بدلے کا بڑا ہونا آزمائش کے بڑے ہونے کے ساتھ ہے اور اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو پسند فرماتا ہے تو اُنہیں (مصائب میں) مبتلا کردیتا ہے، پس جو راضی رہتا ہے تو اُس کے لیے (اللہ کی طرف سے) رضا ہے اور جو ناراض ہوتا ہے تو اُس کے لیے ناراضی ہے، (سنن ترمذی)‘‘، (۲) ’’سیدنا محمود بن لبید بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐنے فرمایا: ’’بیشک اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو پسند فرماتا ہے تو اُنہیں مبتلائے مصیبت کردیتا ہے، پس جو صبرکرتا ہے تو اُس کے لیے صبر (کا ثواب) ہے اور جو بے صبری کرتا ہے تو اُس کے لیے بے صبری (کا وبال) ہے، (مسند احمد)‘‘، (۳) ’’سیدنا ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’میرے پاس میرے اُس بندۂ مومن کے لیے جنت کے سوا کوئی بدلہ نہیں ہے جس کی میں کوئی عزیز چیز قبض کرلوں اور پھر وہ اُس پر ثواب کی نیت سے صبر کرے، (صحیح بخاری)‘‘، (۴) ’’عطا بن ابی رباح بیان کرتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن عباس نے مجھ سے فرمایا: ’’کیا میں تمہیں ایک جنتی عورت نہ دکھاؤں، میں نے کہا: کیوں نہیں! فرمایا: یہ جو حبشی عورت ہے (یہ جنتی ہے)، یہ نبی کریمؐ کے پاس آئی اور عرض کی: مجھے مرگی کا دورہ پڑتا ہے اور میرا ستر کھل جاتا ہے، آپ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں، نبی کریمؐنے فرمایا: اگر تو چاہے تو صبر کر اور تیرے لیے صبر کے بدلے میں جنت ہوگی اور اگر چاہے تو میں تیرے لیے دعا کردیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تجھے اس مرض سے عافیت عطا کردے، اُس نے کہا: میں صبر کروں گی، پھر اُس نے کہا: مرگی کے دورے کے دوران میرا ستر کھل جاتا ہے، پس آپ یہ دعا فرمائیں کہ میرا ستر نہ کھلے، پس نبی کریمؐ نے اس کے لیے دعا فرمائی، (صحیح بخاری)‘‘، (۵) ’’سیدنا ابوموسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں: نبیؐ نے فرمایا: ’’اللہ عزوجل مَلکُ الموت سے فرماتا ہے: اے ملَکُ الموت! تو نے میرے بندے کے بچے کی روح کو قبض کرلیا، تو نے اُس کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور اس کے دل کے سکون پر قبضہ کرلیا، وہ کہتا ہے: ہاں! اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے: اُس نے کیا کہا: وہ کہتا ہے کہ اُس بندے نے تیری حمد کی اور اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ پڑھا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اس کے لیے جنّت میں گھر تعمیر کردو اور اُس کا نام بَیْتُ الْحَمْد رکھو، (سنن ترمذی)‘‘، اس حدیث کے تحت علامہ مناوی شافعی لکھتے ہیں:
’’علامہ عِزبن عبدالسلام اور علامہ ابن قیم نے کہا ہے: بیماریاں اور مصیبتیں چونکہ غیر اختیاری طور پر آتی ہیں، اس لیے اُن پر اجرو ثواب حاصل نہیں ہوتا، بلکہ اُن پر صبر کرنے سے اجر حاصل ہوتا ہے جو بندے کے اختیار اور کسب سے ہوتا ہے، کیونکہ اس حدیث میں بیان ہے کہ بندے کو جنت میں جو محل حاصل ہوتا ہے وہ اُس کے حمد کرنے اور اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ پڑھنے کی وجہ سے ملتا ہے نہ کہ اُس پر آنے والی مصیبت کی وجہ سے، البتہ مصیبت کا ثواب یہ ہے کہ اُس سے خطائیں معاف ہوجاتی ہیں، (فیض القدیر)‘‘۔ جبکہ بعض اہلِ علم نے کہا ہے کہ مصیبت پر خواہ صبر کیا جائے یا نہ کیا جائے، اس کی وجہ سے گناہ بھی معاف ہوتے ہیں اور اجر وثواب بھی حاصل ہوتا ہے، حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی فرماتے ہیں:
’’احادیث صحیحہ وصریحہ سے بظاہر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ امراض وتکالیف مطلقاً اجر وثواب کے حصول اور گناہوں کی معافی کا سبب ہیں، خواہ اُن پر صبر کیا جائے یا نہ کیا جائے، رہی بات مصیبت پر صبر کرنے اور اُس پر راضی رہنے کی تو وہ ایک علیحدہ بات ہے، ممکن ہے کہ مصیبت پر صبر کرنے کی صورت میں صبر کا زائد اجر وثواب حاصل ہواور اس بارے میں تحقیق یہ ہے کہ جس درجے کی مصیبت ہوتی ہے، وہ اس درجے کے گناہ کے لیے کفارہ بنتی ہے اور اُس مصیبت پر صبر کرنے اور راضی رہنے پر اجر وثواب دیا جاتا ہے، پس اگر مصیبت زدہ شخص کا کوئی گناہ ہی نہ ہو، تو اس کے بدلے مصیبت کے بقدر ثواب دیاجاتا ہے، (فتح الباری)‘‘۔