حوادث ومصائب (حصہ اول)

568

دنیا میں انفرادی و اجتماعی طور پر لوگوں کو مختلف قسم کے مصائب، حوادث اور قدرتی آفات وبلیات کا سامنا پڑتا ہے، اس کی حقیقت وحکمت تو بہرحال اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، البتہ قرآن مجید اور احادیث ِ طیبہ کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسانوں پر مصیبتوں وتکالیف آنے کی بڑی اور بنیادی وجوہات دو ہیں۔ انسانوں میں سے جو لوگ گناہوں کے مرتکب ہوسکتے ہیں، اُن پر آنے والی مصیبتیں اور تکلیفیں خود اُن کے اپنے شامت ِ اعمال کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ گناہ اور نافرمانیاں خواہ کفر وشرک کی حدکو پہنچی ہوئی ہوں یا عام صغیرہ یا کبیرہ گناہ ہوں، بسا اوقات مکافاتِ عمل کے طور پر انسان کو ان کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے اور آخرت کے بڑے عذاب سے پہلے اِسی دنیا میں انسان کو بطورِ تنبیہ مختلف اقسام کی پریشانیوں اور تکلیفوں میں مبتلا کردیا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (1) ’’اور تجھے جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ تیری وجہ سے ہی پہنچتی ہے، (النساء: 79)‘‘، (2): ’’اور تمہیں جو بھی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے اپنے اعمال کی وجہ سے ہے، (حالانکہ) اللہ بہت سے گناہوں کو معاف بھی فرما دیتا ہے، (الشوری: 30)‘‘۔ (3) ’’خشکی اور تری میں لوگوں کے ہاتھوں سے کی ہوئی بداعمالیوں کے باعث فساد پھیل گیا تاکہ اللہ اُنہیں اُن کے بعض کرتوتوں کا مزہ چکھائے، شاید وہ باز آجائیں، (الروم: 41)‘‘۔
فساد سے مراد ہر وہ خرابی ہے جس سے انسانی معاشرے کا امن وسکون تباہ ہوجائے، یہ کبھی انسان کے ایک دوسرے پر ظلم کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے اور کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ ہوتی ہے، جیسے نعمتوں کا زائل ہونا اور آفات اور مصائب کا آنا، مثلاً قحط آنا اور زمین میں پیداوار کا نہ ہونا، بارشوں کا رک جانا یا بکثرت سمندری طوفانوں کا آنا، دریائوں میں سیلاب آنا، فوائد کم اور نقصانات زیادہ ہونا، زلزلوں کا آنا، آگ لگ جانے، ڈوب جانے، مال چھن جانے، چوری اور ڈاکے کے واقعات کا زیادہ ہونا، یہ تمام فساد اللہ تعالیٰ سے بغاوت اور سرکشی کا نتیجہ ہے، یہ شرک اور بداعمالیوں کا ثمرہ ہے۔
نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (1) ’’اور ہم نے اُنہیں عذاب کے ساتھ پکڑا تاکہ وہ لوٹ آئیں، (الزخرف: 48)‘‘، (2): ’’اور ہم اُنہیں بڑے عذاب سے پہلے نزدیک کا عذاب بھی چکھاتے ہیں تاکہ وہ باز آجائیں، (السجدۃ: 21)‘‘، یعنی بعض لوگوں کو آخرت کے بڑے عذاب سے قبل اسی دنیا میں ذراکم درجے کے عذاب مثلاً: مصائب، بیماریوں، قتل وغارت گری، قحط سالی اور مال واولاد وغیرہ کی ہلاکت کا مزہ بھی چکھایا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی بداعمالیوں سے بازآکر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرلیں۔
قرآنِ کریم کی ان آیات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جملہ مصائب وتکالیف کی ایک وجہ انسان کا اپنا بُرا عمل ہوتا ہے، اگرچہ اُسے اپنی غفلت، کم عقلی اور کوتاہ نظری کی وجہ سے اپنی کوئی خامی اور برائی دکھائی نہیں دیتی اور ہر چیز اُسے بظاہر ٹھیک اور درست سَمت میں نظر آتی ہے، لیکن اُس کی وہ خرابیاں اور کوتاہیاں اللہ تعالیٰ کے علم میں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے اُس پر مصیبت وپریشانی آئی ہے، چنانچہ غزوہ اُحد میں پہنچنے والی مصیبت کے حوالے سے بعض صحابہ کرام کے دلوں میں اِسی قسم کاخیال آیا تھا، جسے بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’کیا جب تمہیں کوئی مصیبت پہنچے کہ اُس سے دگنی تم پہنچا چکے ہو، تو کہنے لگو: یہ کہاں سے آئی، تم فرمادو کہ وہ تمہاری ہی طرف سے آئی، بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے، (آل عمران: 165)‘‘۔
اس دنیا کو اللہ تعالیٰ نے دارالاسباب بنایا ہے اور ہر سبب کے لیے کوئی نہ کوئی نتیجہ بھی مقرر فرمایا ہے، جس قسم کے اسباب اختیار کیے جائیں گے، نتیجہ بھی اُسے کے مطابق برآمد ہوگا، ایسا نہیں کہ اگر کافر بھڑکتے ہوئے شعلوں میں ہاتھ ڈالے گا تو اُس کا ہاتھ تو جل جائے گا مگر مومن ڈالے گا تو اُسے کچھ نہیں ہوگا یا کافر بلند وبالا عمارت سے چھلانگ لگائے گا تو اُس کی ہڈیاں چکنا چور ہوجائیں گی، جبکہ مومن صحیح سلامت رہے گا یا کافر اگر میٹھی چیزیں زیادہ کھائے گا تو اُسے تو شوگر ہوگی، لیکن مسلمان کھائے گا تو نہیں ہوگی، بڑے کا گوشت اور نمکین اشیاء کے زیادہ استعمال سے کافر کا بلڈپریشر ہائی ہوگا اور مومن کا نہیں ہوگا۔ بہر حال مصیبتیں اور پریشانیاں خواہ بیماریوں کی شکل میں ہوں یا ناکامیوں کی صورت میں، سب انسان کے شامت ِ اعمال اور اُس کے اپنے کیے دھرے کا نتیجہ ہوتی ہیں، البتہ مصائب وآلام کی ٹھوکر لگنے پر اگر توفیقِ الٰہی بندے کے شامل حال ہوتی ہے تو اُس کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور وہ ان مصائب وتکالیف میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے، اپنے گناہوں اور نافرمانیوں پر نادم وپشیمان ہوتا ہے، مصائب وتکالیف پر صبر کرتے ہوئے اُنہیں عبرت و نصیحت کی نگاہوں سے دیکھتا ہے اور اپنے اعمال کی درستی اور اصلاح کرلیتا ہے، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہی تکالیف اور مصیبتیں اُس کے لیے خیر وبھلائی اور رحمت بن کر اُس کے گناہوں کی معافی اور درجات کی بلندی کا ذریعہ بن جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ اس دنیاوی تکلیف ومصیبت کی وجہ سے اُسے آخرت کے عذاب سے محفوظ فرمادیتا ہے، احادیث ِ مبارکہ میں ہے:
(۱) سیدنا علیؓ بیان کرتے ہیں: رسول کریمؐ نے قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’اور تمہیں جو بھی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے اپنے کرتوتوں کا نتیجہ ہے، (الشوری: 30)، پھر فرمایا: اے علی! میں تمہیں اس آیت کی تفسیر بتاتا ہوں: ’’تم پر جو بیماری آتی ہے یا کوئی سزا ملتی ہے یا دنیا میں کوئی مصیبت آتی ہے، تو اس کی وجہ تمہارے اپنے کرتوت ہیں اور اللہ تعالیٰ اِس سے بہت زیادہ کریم ہے کہ وہ تم کو (اِس دنیا میں مصائب وتکالیف میں مبتلاکرنے کے بعد) دوبارہ آخرت میں سزا دے اور اللہ تعالیٰ نے جس گناہ کو دنیا میں معاف فرما دیا تو اللہ اس سے بہت زیادہ حلیم ہے کہ وہ معاف کرنے کے بعد دوبارہ سزا دے، (مسند احمد)‘‘، ’’اُم المومنین سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں : میں نے نبی کریمؐ سے عرض کی: یا رسول اللہ! قرآن مجید میں ایک آیت مجھے بہت سخت معلوم ہوتی ہے، نبیؐ نے فرمایا: کون سی آیت ہے، میں نے عرض کی: ’’جو کوئی بھی برائی کرے گا، اُسے اُس کا بدلہ دیاجائے گا، (النسآء: 123)، یہ سن کر نبیؐ نے فرمایا: اے عائشہ! کیا تم نہیں جانتیں کہ مومن کو جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے یا اُسے کوئی کانٹا بھی چبھتا ہے تو یہ اُس کے برے عمل کا بدلہ ہوجاتا ہے، (سنن ابوداؤد)‘‘۔
’’اس بارے میں سیدنا عامر الرامیؓ کی یہ حدیث بہت واضح ہے، وہ بیان کرتے ہیں: نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’مومن کو جب کوئی بیماری پہنچتی ہے، پھر اُسے اللہ تعالیٰ اس بیماری سے عافیت عطا کردیتا ہے تو یہ اُس کے گزشتہ گناہوں کے لیے کفارہ اور آئندہ کے لیے نصیحت ہوجاتی ہے اور جب کوئی منافق بیمار ہوتا ہے اور پھر اُسے عافیت مل جاتی ہے تو وہ اُس اُونٹ کی مانند ہوتا ہے، جسے اُس کے مالک نے باندھ رکھا تھا اور پھر اُسے چھوڑ دیا، پس وہ نہیں جانتا کہ اُسے کیوں باندھا تھا اور کیوں چھوڑا تھا، آپؐ کے اِرد گرد بیٹھے لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا: یا سول اللہ! یہ بیماریاں کیا ہیں، میں تو کبھی بیمارہی نہیں ہوا، آپؐ نے فرمایا: ہمارے پاس سے اٹھ جاؤ، تم ہم میں سے نہیں ہو، (سنن ابوداؤد)‘‘، سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں : رسول اللہ نے فرمایا: ’’جب بندے کے گناہ زیادہ ہوجاتے ہیں اور اُس کے پاس ایسے اعمال نہیں ہوتے کہ جو اُس کے گناہوںکے لیے کفارہ بن سکیں تو اللہ تعالیٰ اُسے غم میں مبتلا کردیتا ہے تاکہ اس کے ذریعے اس کے گناہوں کو معاف کردے، (مسنداحمد)‘‘، ’’سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: ’’جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اُسے مبتلائے مصیبت کردیتا ہے، (بخاری)‘‘، (۶)’’سیدنا صہیبؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’مومن کے معاملے پر تعجب ہے، بیشک اُس کے تمام معاملات میں خیر ہوتی ہے جوکہ مومن کے علاوہ کسی کوحاصل نہیں، اگر اُسے خوشی پہنچتی ہے تو وہ شکرکرتا ہے، جو اُس کے لیے بہتر ہے اور اگر اُسے ضرر پہنچتا ہے تو وہ صبر کرتا ہے جو اُس کے لیے بہتر ثابت ہوتا ہے، (مسلم)‘‘۔
(جاری ہے)